87ء کی آخری نعتیہ نظم- رزق ثنا (1999)

آغاز پر بھی نام نبیؐ تھا زبان پر
رخصت کے وقت بھی وہی ذکرِ جمیل ہے
سالِ رواں کے آخری لمحوں میں بھی ریاضؔ
سر پر سحابِ رحمتِ ربِ جلیل ہے

اب کے برس کا بھی کیف کا عالم رہا محیط
اب کے برس بھی رقص میں گھر کی فضا رہی
اب کے برس بھی کھلتے رہے سرمدی گلاب
اب کے برس بھی وجد میں بادِ صبا رہی

اب کے برس بھی عشقِ نبی کے جلے چراغ
اب کے برس بھی کاہکشاں ہمسفر رہی
اب کے برس بھی لوح و قلم نے کیا سلام
اب کے برس بھی خاک مری معتبر رہی

اب کے برس بھی گنبدِ خضرا کے عکس سے
ہر آئینے پہ مَیں نے بکھیری ہے روشنی
بھیگی رہی ہے آنکھ فراقِ رسولؐ میں
مہکی رہی ہے کشتِ دل و جاں میں چاندنی

اب کے برس بھی میرے قبیلے کا ہر جواں
سرکارِ دو جہاںؐ کا سپاہی بنا رہا
حرفِ سپاس بن کے کنیزیں کھڑی رہیں
بچوں کے لب پہ اسمِ محمدؐ سجا رہا

اب کے بھی نعتِ سیّد کونینؐ کے طفیل
بختِ رسا کو قربِ ثریا ہوا نصیب
ہر شب حصارِ ہجرِ محمدؐ میں کاٹ دی
ہر شب رہا میں روضۂ سرکارؐ کے قریب

ہر ذرہ جس کا مہرِ درخشاں سے ہے سوا
پیشِ نظر حضورؐ کی وہ رہگذر رہی
اب کے برس بھی ربط درِ پاک سے رہا
اب کے برس بھی بادِ صبا نامہ بر رہی