سلطان نعت

’’سلطانِ نعت‘‘ محمد ریاض حسین چودھری کا خاندان

(تاریخ کے آئینے میں)
محمد امجد چودھری

ہمارے آباؤ اجداد ایران سے ہجرت کرکے سیالکوٹ میں آباد ہوئے۔ ہمارے دادا  چودھری عطا محمد اور نانا چودھری فضل الٰہی کے دادا چودھری فضل دین ایک درویش صفت انسان تھے جب کہ شہر اقبال میں ہمارے خاندان کی پہچان بھی اسی نام سے ہے۔ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے دادا اور نانان جان یکے بعد دیگرے امیرِ ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب سے بیعت ہوئے۔ ہمارے خاندان کے امیر ملت کے گھرانے سے جو روحانی رشتہ استوار ہوا وہ الحمد للہ آج بھی قائم ہے۔ ہمارے نانا ولی کامل تھے جب کہ دادا جان ایک صاحب بصیرت انسان تھے۔ ان کا حلقہ احباب خاصا وسیع تھا۔ مردِ درویش حکیم خادم علی اور مولانا شاہ احمد نورانی کے دادا سسر مولانا ضیاء الدین مدنی سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ حکیم خادم علی امیر ملت کے اور مولانا ضیاء الدین مدنی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کے خلیفہ مجاز تھے۔ ہمارے لئے یہ بات بھی باعث فخر ہے کہ علامہ اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد اورہمارے دادا حضور چودھری عطا محمد یک جان دو قالب تھے۔ دونوں احباب میں ایک قدرِ مشترک یہ تھی کہ وہ صوفیائے کرام سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امیر ملت نے صرف تحریک پاکستان بلکہ اسلام کی سر بلندی کے لئے ہر تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا۔علامہ اقبال بھی گاہے بگاہے امیر ملت کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سری نگر میںشیر کشمیر چودھری غلام عباس کے توسط سے قائد اعظم اور امیر ملت پیر جماعت علی شاہ کی ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ یاد رہے چودھری غلام عباس امیر ملت کے مرید خاص تھے۔
ہمارے لئے یہ امر باعث فخر ہے کہ ہمارے والد محترم چودھری عبد الحمید اور والدہ محترمہ کا نکاح امیر ملت نے پڑھایا جب کہ امام احمد رضا خاں کے دستِ راست مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی بھی اس بابرکت تقریب میں شامل تھے۔ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ انہوں نے ۱۹۲۵ء میں ’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی جس نے تحریک پاکستان کو حیاتِ جاوداں بخشی۔ ۱۹۴۶ء میں امیر ملت کی صدارت میں منعقدہ بنارس سنی کانفرنس کے موقع پر مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک اعلان کیا کہ ’’اگر آل انڈیا مسلم لیگ بھی پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو جائے تو ’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ اس مطالبے سے دست کش نہ ہوگی‘‘۔
تقسیم ہند سے قبل ہمارے دادا جان چودھری عطا محمد نے رنگ پورہ روڈ پر جامع مسجد کی تعمیر کی۔ جس کا سنگ بنیاد امیر ملت پیر جماعت علی شاہ نے رکھا۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے سیالکوٹ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جامع مسجد ہذا میں مسلم لیگ کا پہلا اہم اجلاس ہمارے دادا جان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
۱۹۴۵ء میں اقبال کی سرزمین پر قائد اعظم کی آمد سے پہلے ہمارے گھر کو ’’ مسلم لیگ ہاؤس‘‘ قرار دیا گیا۔ افسوناک امر یہ ہے کہ ہمارے بزرگ قائد اعظم کی میزبانی سے محروم رہے مگر یہ سعادت کیا کم تھی کہ ممتاز عالم دین مولانا عبد الماجد بدایونی او رمجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازی نے مسلم لیگ ہاؤس میں قیام کیا۔ قائد اعظم کی نظر میں مولانا بدایونی سچے اور کھرے مسلم لیگی رہنما تھے۔ مولانا بدایونی نے ۱۹۴۶ء میں قرار داد پاکستان کی پر زور تائید کی تھی۔ بعد ازاں صوبہ سرحد مین ریفرندم کے حوالے سے مولانا بدایونی کے علاوہ ممتاز علمائے کرام اور مشائخ عظام کی مساعی جمیلہ سے مسلم لیگ نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ چنانچہ قائد اعظم نے ان قومی اور ملی رہنماوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جب کہ مولانا عبد الماجد بدایونی کو ’’فاتح سرحد‘‘ قرار دیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مولانا بدایونی کی کاوشوں سے عید میلاد النبی a   کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان ہوا۔
مجاہد ملت مولانا عبد الستار خاں نیازی کا شمار قائد اعظم کے معتمد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ ۱۹۴۶ء کے عام انتخابات میں قائد اعظم ہی کی ہدایت پر مولانا نیازی کو صوبائی سیٹ کے لئے ٹکٹ دیا گیا۔ مولانا قائد اعظم کے اعتماد پر پورے اترے اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۵۳ء  میں تحریک ختم نبوت کے دوران انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی مگر قربان جائیے مولانا کے پائے استقلال میں کسی بھی مرحلہ پر لغزش نہ آئی۔
یہ امر قابل ذکر ہے پاکستان بننے کے بعد بھی مفتی اعظم پاکستان ابو البرکات سید احمد، علامہ محمود احمد رضوی ، مولانا سردار احمد، جامعہ نعیمیہ لاہور کے بانی مفتی محمد حسین نعیمی، ممتاز مسلم لیگی رہنما علامہ عبدالغفور ہزاروی، مولانا محمد عمر اچھروی، مولانا عارف اللہ شاہ قادری، فقیر افضل فقیر، ملت اسلامیہ کے عظیم قائد مولانا شاہ احمد نورانی اور مجاہد ملت مولانا عبد الستار خاں جیسی نامور شخصیات کی میزبانی کا شرف حاصل رہا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہمارے مہمان بنے۔
یہ صوفیائے کرام کی تعلیمات کا فیضان ہے کہ بالخصوص محمد ریاض حسین چودھری کو حُبِّ نبیؐ اور پاکستان سے محبت وراثت میں ملی۔
میرے بچوں کو وراثت میں ملے حبِ رسول
یہ اثاثہ بعد مرے بھی تو گھر میں چاہیے

جھوم کے اٹھے گھٹا ارض محمد سے ریاضؔ
شہر اقبال کی مٹی کا مقدّر جاگے

آؤ اپنے جسم چن دیں اینٹ پتھر کی جگہ
بے در و دیوار ہے لیکن یہ گھر اپنا تو ہے
بھائی ریاض کا ہم سب پر احسان ہے کہ انہوں نے اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف ہمارے دلوں میں عشق محمدی کے چراع جلائے بلکہ پاکستان کی محبت بھی اجاگر کی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں اک صاف ستھرا ادبی ماحول دیا۔ سکول ہی کے زمانے سے لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ ہمارے ڈرائنگ روم کی میز پر ’’بچوں کی دنیا‘‘ اور دیگر رسائل ہمہ وقت موجود ہوتے۔ جب شعور پختہ ہوا تو ’’لیل و نہار‘‘، ’’ادبی دنیا‘‘ اور ’’فنون‘‘ جیسے جرائد پڑھنے کا موقع ملا۔ بلاشبہ قلم جو ریاض حسین چودھری کے بچپن کا ساتھی تھا۔ تادم آخر ورق کے مصلّے پر سجدہ ریز رہا۔
ریاض حسین چودھری کی زندگی کا ایک خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ مسلسل تین سال تک ’’مرے کالج میگزین‘‘ اور پھر ’’المیزان‘‘ (لاء کالج لاہور) کے دو سال تک ایڈیٹر رہے۔ یہ وہ دور تھا جب کسی طالب علم کا ایڈیٹر ہونا بڑے اعزاز کی بات تھی۔ بعد ازاں  ہفت روزہ ’’ادراک‘‘ (سیالکوٹ) کے علاوہ پندرہ روزہ ’’تحریک‘ (لاہور) کے مدیر بھی رہے۔
بھائی ریاض کا حلقہ احباب خاصا وسیع تھا۔ جس مین تمام  مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے۔ مختلف ادبی تنظیموں میں ان کا کردار فعال رہا، جب کہ ڈپٹی کمشنر کی صدارت میں دفتری زبان اردو کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ یہ دور مشاعروں کا دور تھا۔ ہمارے گھر میں بھی مشاعروں کا انعقاد ہوتا بالخصوص میونسپل کارپوریشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والوں مشاعروں میں بھائی ریاض سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیتے۔ بلاشبہ شہر اقبال کی ادبی دنیا میں ان کو خصوصی مقام حاصل رہا ہے۔ جب وہ مرے کالج کے طالب علم تھے، تب سے استاد محترم جناب آسی ضیائی صاحب سے جو ان کا تعلق پیدا ہوا وہ آخر دم تک قائم رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کو ہمارے گھر میں فیملی ممبر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
مختلف ادوارمیں جناب احمد ندیم قاسمی، محترم حفیظ تائب، عارف عبد المتین، عبد العزیز خالد، خالد احمد عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، دلدار بھٹی اور دیگر اہم ادبی شخصیات ہمارے مہمان بنتیں۔ تاہم ذہنی، فکری اور روحانی اعتبار سے بھائی ریاض سب سے زیادہ  جناب حفیظ تائبؒ کے قریب رہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دونوں احباب ایک دوسرے کے ’’مرید‘‘ تھے۔ آج جب بھی ہمارے گھر میں انکل حفیظ کا ذکر خیر ہوتا ہے۔ ان کے نعتیہ اشعار ہونٹوں پر مچل جاتے ہیں۔
دے تبسم کی خیرات ماحول کو
ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیﷺ