ثنائے حضورؐ:حسنِ د لآویز کب یہ دودھ کی نہروں کا ہے- تحدیث نعمت (2015)

حسنِ دلآویز کب یہ دودھ کی نہروں کا ہَے
یہ تو نقشہ شہرِ طیبہ کی اُنھی گلیوں کا ہَے

مَیں نے کھولی ہی نہیں لعل و جواھر کی دکاں
یہ وفورِ نعت سرمایہ مرے بچّوں کا ہَے

جن کے لب پر مدحتِ خیرالبشرؐ لکھّی گئی
رتجگا میری کتابوں میں اُنھی لمحوں کا ہے

نور میں ڈوبی ہوئی ہَے آسمانوں کی فضا
فیض یہ سارا مری سرکارؐ کے قدموں کا ہَے

عشقِ سرکارِ دو عالمؐ پر ہی مبنی ہَے تمام
جو وثیقہ بھی لکھا ہَے ان گنت صدیوں کا ہَے

خاص نسبت ہَے قلم کو آفتابِ نور سے
ایک میلہ سا مرے کمرے میں بھی کرنوں کا ہَے

روز و شب معمور ہیں صلِّ علیٰ کے ذکر سے،
یہ چراغوں کی ہَے بستی، یہ نگر پھولوں کا ہَے

ہر طرف رم جھم کرم کی، ہر طرف اَبرِ عطا
ہر جمالِ دلربا رحمت کے ان جھونکوں کا ہے

جو درِ اقدس پہ ہَے محوِ ثنا، محوِ درود
وہ ہجومِ عاشقاں ہی سرمدی چہروں کا ہَے

دست بستہ آپؐ کے قدموں میں رہتی ہیں حضورؐ
کیا مقدّر سا مقدّر میری اِن آنکھوں کا ہَے

چوم کر ماتھا مرا کہنے لگے لوح و قلم
جو ملا موسم ہمیں موسم وہی سجدوں کا ہَے

سرورِ عالمؐ کے مہمانوں کا رکھتے ہیں خیال
کیا حوالہ دلکشا اس شہر کے لوگوں کا ہَے

خوشبوؤں کے اب تعارف کی ضرورت ہی نہیں
ایک ہی مہکا ہوا مرکز مری سوچوں کا ہے

ساحلِ طیبہ پہ پہنچیں گی برابر کشتیاں
فیصلہ گہرے سمندر کی یہی موجوں کا ہَے

اس کے کشکولِ ادب میں ہَے جلالِ خسروی
یہ قلم منگتا مدینے کے گلی کوچوں کا ہَے

یہ سراسر ہَے عطائے رحمتِ پروردگار
نعت گوئی کب کمالِ فن مرے ہونٹوں کا ہَے

مَیں بجا لاؤں خدا کا شکر ہر لمحہ ریاضؔ
قریۂ اظہار میں چرچا مری نعتوں کا ہَے

کلکِ مدحت پر ہَے طاری وَجد کا عالم ریاضؔ
ہر ورق پر جو سجا ہَے رنگ وہ جذبوں کا ہَے

ہر ثنا گو کے وہی ماویٰ وہی ملجا ریاضؔ
فرق ہَے اسلوب کا یا فرق کچھ لفظوں کا ہے