سلام:سر جھکاتی قریۂ دل کی فضائوں کو سلام- تحدیث نعمت (2015)

سر جھکاتی قریۂ دل کی فضاؤں کو سلام
پھول بکھراتی مدینے کی ہواؤں کو سلام

ایک اِک لمحہ ردائے عِلم میں لپٹا ہوا
آپؐ کی دہلیز کی شبھ کامناؤں کو سلام

جن کے پَر پَر، پر رقم ہَے عافیت کی داستاں
امن کی اُڑتی ہوئی اُن فاختاؤں کو سلام

لَوٹ کر لائیں گی یہ شاداب موسم کی نوید
اَطلس و کمِخواب میں لپٹی دعاؤں کو سلام

آلِ پیغمبرؐ پہ پیہم ہم غلاموں کا درود
عفو و رحمت کی ازل سے انتہاؤں کو سلام

آسماں سے ہَے مسلسل رحمتِ حق کا نزول
گنبدِ بے در سے ٹکراتی صداؤں کو سلام

خوب برسیں نعت کے اشعار دہراتے ہوئے
رحمتِ سرکارؐ کی کالی گھٹاؤں کو سلام

محفلِ میلاد میں ہیں سرمدی لمحے نصیب
شہرِ مدحت کی مؤدب اپسراؤں کو سلام

گنبدِ خضرا کے سائے میں ابد کی شام تک
دست بستہ، ملتمس میری نواؤں کو سلام

میرا سرمایہ ہے میرے ہمسفر! آنکھوں کی چَھب
خوشبوؤں، رنگوں، چراغوں، دلرباؤں کو سلام

مہرباں شام و سحر ہَے رحمتِ پروردگار
زیرِ لب، آقاؐ کے در پر لب کشاؤں کو سلام

ہَے بیاضِ نعت میں حرفِ اذاں کی روشنی
شامِ مدحت کے قلم پرور پڑاؤں کو سلام

میری ہر اک نعت میں ہیں خوشبوئیں سرکارؐ کی
میرے اندر کے مہکتے سب خلاؤں کو سلام

میرے لفظوں میں تپش ہَے گرمیٔ افکار کی
میرے ہونٹوں پر محبت کے الاؤں کو سلام

خوش نصیبی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی ریاضؔ
جھولیاں بھرتے ہوئے اُنؐ کے گداؤں کو سلام

دامنِ اُمید بھر لوں سرخ پھولوں سے ریاضؔ
آپؐ کے در پر کھڑی سب التجاؤں کو سلام

طیبہ کی نرم نرم کھجوروں کا شکریہ
پیغام حاضری کا بھی لائے کبھی صبا