اِظہاریہ: مدحت نگارِ رسول ﷺ کا ارمغانِ عجز و نیاز- تحدیث نعمت (2015)

شعورِانسان کی فعالیت اپنی بو قلمونی کے باعث متنوع انداز یعنی کبھی تو صرف تصوُّر و خیال اور کبھی عمل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ جب تصوُّر و خیال اور عمل باہم مل جائیں تو یہ حال میں ڈھل جاتے ہیں۔ اظہار کے تمام پیرائے چاہے وہ کسی بھی صنف و فن سے تعلق رکھتے ہوں انہی دائروں میں رہتے ہوئے ابلاغ پاتے ہیں۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی پیرایۂ اظہار صاحبِ فن کے حال کا نتیجہ ہو اور اس کی من کی دنیا کی بھی خبر دے رہا ہو۔

نعت احساساتِ قلب و روح، عشق و محبت اور اطاعت و عقیدت کے اِظہار کا وہ پیرایہ ہے جو قال سے زیادہ حال کا متقاضی ہے۔ گو نعت گو صاحبِ فن کبھی بھی عقیدت اورعشق و محبت سے خالی ہو کر نعت نہیں لکھتا مگر یہ بات کہ جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ لکھنے والے کا ظاہر و باطن، اس کے قلب و روح کا ماحول اور اس کے احساسات و افکار کی کائنات بھی ہو جس سے الگ ہو کر اس کی ہستی کاوجود نہ رہ سکے ایک استثنا ہے۔ یہ ادا نعت کو وہ تازگی اور واقعیت دیتی ہے کہ نعت اپنے لکھنے والے کے حال و مقام کا پتہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ ریاض حسین چودھری صاحب کی ’تحدیثِ نعمت‘ نعت کا ایسا ہی مجموعہ ہے جس کے اشعار، افکار، اُسلوب اور لفظیات ان کے حال کے غماز ہیں۔ نعت گوئی میں محویت نے ان کے شعور کو یوں اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے کہ ان کی ساری پہچان یہیں سے کشید ہو رہی ہے:

ہم ریاضِ قلم کے چمن زار میں
تتلیوں میں رہے جگنوؤں میں رہے

ریاض حسین چودھری کا نعت کی فضا میں زندگی کرنے کا ہی ثمر ہے کہ وہ اپنے دینی، تہذیبی اور ادبی پس منظر اور سرمائے کوبھی نعت کے روزن سے ہی دیکھتے ہیں:

عافیت سر تا قدم حرفِ دعا ہے آقاؐ
دائمی امن ترےؐ در کی عطا ہے آقاؐ

یہ شعر ہمیں قرآنِ حکیم کی آیت {وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا} کی یاد دلاتا ہے۔

خدائے سخن میرؔ نے کہا تھا:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

’تحدیثِ نعمت‘ میں اس احساس کو نعت کے رنگ میں یوں بیان کیا گیا:

آہستہ سانس لینے کا مجھ کو ہنر ملے
حرفِ ادب ہو میری صداؤں کا پیرہن

یہاں ادب کے لیے صداؤںکو پیرھن میں رکھنے کا قرینہ شاعر کے رموزِ محبت سے آشنائی کی خبر دیتا ہے۔ ’تحدیثِ نعمت‘ میں قلب و روح کے ادب کے ساتھ ساتھ محاسنِ ادب کو برتنا بھی نظر انداز نہیں کیا گیا:

مدحت کے پھول شاخِ قلم پر کِھلے رہیں
پلکوں پہ آنسوؤں کے ستارے سجے رہیں

ایک اک لمحہ شبِ اسریٰ کا روشن آفتاب
عکس کی معراج گویا آئینہ خانے میں ہے

پھر مرے قصرِ تخیّل کا دریچہ ہے کُھلا
اک چراغِ آرزو ہے دیدۂ تر میں جلا

’تحدیثِ نعمت‘ میں شاعر کی لفظیات ان کے نعتیہ حال کی گواہ بن کر سامنے آتی ہے۔ نقشِ قدم ، نقشِ کفِ پا، اسمِ محمدؐ، اسمِ مصطفیٰؐ، روشنی، ہوائے مدینہ، چراغ، گنبدِ خضریٰ، پھول، گلاب، خوشبو، رتجگا وہ الفاظ ہیں جن کی تکرار ہر دوسرے صفحے پر موجود ہے اور صرف انہی الفاظ کو مرتّب کر کے شاعر کی زندگی کا اجمالی خاکہ بیان کیا جا سکتا ہے یعنی: صاحبِ گنبدِ خضریٰؐ کے نقشِ پا و نقشِ قدم کی روشنی، ہوائے مدینہ کی خوشبو اور اسمِ مصطفیٰؐ کے گلاب نے میرے رتجگوں میں چراغ روشن کر دیئے! ریاض حسین چودھری کی زندگی میں جہاں عشقِ رسولؐ کی تپش ہے وہاں بارگاہِ رسالت کے ادب نے عجز کا رنگ بھی پیدا کر دیا ہے۔اطاعتِ نبوی کے جذبے نے شاعر کو جو اجالا دیا وہ اس کے چہرے کا نور بن گیا:

عمر بھر نقشِ قدم انؐ کے رہے جاں سے عزیز
چاندنی عجزِ مسلسل کی مرے چہرے میں ہے

چونکہ مقصودِ نعت کو حال بنانے میں انسان کی انا ہی حائل رہتی ہے، شاعر نے اس مشکل کا حل بھی سراپا عجز بننے میں ہی پایا ہے:

ایک عالم تری دہلیز پہ ہے کاسہ بکف
عجز کے پانی میں میری بھی اَنا ہے آقاؐ

اسے بھی عجز کی چادر ملے گی یہ یقیں رکھنا
بہت شرمندہ ہے میری اَنا آقاؐ کی چوکھٹ پر
ریاض اپنا قلم ٹوٹا ہوا بھی ساتھ لے جاؤں
بڑے ہی عجز سے ہو گا فدا آقاؐ کی چوکھٹ پر

جھوٹی اَنا ہو قریۂ انفاس سے پرے
کشتِ ادب میں عجز کے بوٹے ہرے رہیں

شاعر نے اپنی انا کو عجز کے پانی یعنی آنسؤوں میں فنا اس لیے کیا کہ اس نے عظمت کا یہ راز پا لیا ہے کہ:

مرا بھی نام شامل ہے نبیؐ کے جاں نثاروں میں
حروفِ عجز کی مَیں شان و شوکت دیکھ آیا ہوں

آپؐ کی نسبت سے بس پہچان ہے اس کی حضورؐ
ورنہ اک گمنام عاجز ہے ریاضِ بے نوا

’تحدیثِ نعمت‘ اُمّت کے درد و غم کے بیان سے بھی خالی نہیں:

آج بھی اُمّت نبیؐ کی، سازشوں کا ہے ہدف
فتنہ و شر کے بدن پر آج بھی اتریں عذاب
اپنے اندر جھانکنے کی بھول بیٹھی ہے ادا
ہو عطا اُمّت کو آقاؐ پھر شعورِ احتساب

الغرض تحدیثِ نعمت بیانِ عشق و مستی بھی ہے، اظہارِ فدائیت و خودسپردگی بھی، اُمّت کے درد و غم کا بیانیہ بھی ہے اور بارگاہِ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے امت کے لیے ایک تابناک مستقبل کی طلب کا سوال بھی اور پھر اس سب کچھ کو ادب و عجز سے بیان کرنے نے چودھری صاحب کو نئے اُسلوب کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل کر دیا ہے:

انتہائی عجز سے تحریر کرتا ہوں ریاضؔ
نعت گوئی کے نئے اُسلوب کا بانی ہوں میں

ڈاکٹرطاہر حمید تنولی
ایوانِ اقبال، لاہور
14 اگست، 2015ء

عالمِ ارواح میں بھی رقص کرتا تھا قلم
یہ وفورِ نعت میری روح کے اندر کا ہَے

سبحانہ وتعالیٰ