خوشبوئوں کو منصب نامہ بری تُو نے دیا- لامحدود (2017)

مجھ سے مفلس کو زرِ نعتِ نبیؐ تُو نے دیا
شامِ غربت میں دیارِ روشنی تُو نے دیا

نقش فریادی نہیں، لکھتا ہے توصیفِ نبیؐ
آدمی کو پیرہن ہر کاغذی تُو نے دیا

عافیت کے سائباں کی قافلوں کو ہے تلاش
ہادی عالمؐ کو امنِ دائمی تُو نے دیا

منفرد لہجہ دیا مدحت نگاری کا مجھے
مجھ سے بے مایہ کو اسلوبِ جلی تو نے دیا

مجھ کو لکھنے کا ہنر، مولا! عطا کرنے کے بعد
اذنِ تحسینِ پیمبرؐ آج بھی تو نے دیا

پھول رکھتا ہے صبا کے ہاتھ پر میرا قلم
خوشبوئوں کو منصبِ نامہ بری تُو نے دیا

تُو نے اندر کے ہر اک موسم کو دی بادِ خنک
نسلِ انسانی کو ربطِ باہمی تُو نے دیا

یا خدا! قرآن کی آیاتِ پُر انوار میں
اپنے بندوں کو کلامِ آخری تُو نے دیا

چشمِ تر امت کی شامل ہے مرے اشعار میں
مصرعِ تر کو غمِ نوحہ گری تُو نے دیا

سرکشی پر کب سے آمادہ ہے انسانی ضمیر
منحرف چہروں کو حرفِ آگہی تُو نے دیا

ایک اک لمحے پہ واجب شکر ہے یارب! ترا
ایک خود سر کو مقامِ عاجزی تُو نے دیا

کس قدر تُو مہرباں ہے اے خدائے آسماں!
اپنے بندوں کو شعورِ بندگی تُو نے دیا

تُو نے رکھّے ہیں جبلت میں ثنا گوئی کے رنگ
طائرِ دل کو کمالِ شاعری تُو نے دیا

دے سلیقہ لب کشائی کا مرے الفاظ کو
ایک اک جملے کو وصفِ نغمگی تُو نے دیا

قریۂ عشقِ نبیؐ میں سانس لیتا ہے ریاضؔ
جاں نثاروں کو حصارِ آہنی تُو نے دیا