روشنی یا خدا! میرے اندر بھی ہو- لامحدود (2017)
منصبِ نعت تُو نے عطا ہے کیا تُو ولائے نبیؐ کے سمندر بھی
دے
رنگ اتریں دھنک کے سرِ لوحِ جاں، نقش، یارب! قلم کو مصوَّر بھی دے
دے رہی ہے سلامی مری چشمِ تر، رقص میں اشک رہنے لگے رات
بھر
کلکِ مدحت کو توفیقِ حمد و ثنا، مجھ کو لمحے کروڑوں منّور بھی دے
تتلیوں، جگنوئوں کے چلیں قافلے، ہر قدم پر سمٹتے رہیں فاصلے
جانبِ خلدِ طیبہ چلا ہوں مجھے، یا خدا! کہکشائوں کے لشکر بھی دے
سامنے گنبدِ سبز ہو ضو فشاں، ہو درودوں کی برسات میں آسماں
جن میں ہو چاند تاروں کی نغمہ گری، شہرِ آقاؐ کے دلکش وہ منظر بھی دے
یا خدا! ایک منگتا ہوں سرکارؐ کا، مَیں بھی طالب ہوں آقاؐ
کے دیدار کا
اُنؐ کے قدموں کی خیرات کشکول میں، اُنؐ کی دہلیز کے ماہ و اختر بھی دے
میرے بچیّ لگاتے رہیں جھنڈیاں اور جلاتے رہیں موم کی بتیاں
مَیں نئی نعت اُنؐ کو سناتا رہوں، یا خدا مجھ کو ایسا مقدّر بھی دے
اک قلمدان ہو سامنے میز پر، دیدہ و دل کے اوراق ہوں اَن
گنت
اُنؐ کے ادنیٰ سے شاعر کی ہے التجا، باغِ جنت میں چھوٹا سا دفتر بھی دے
ہو چراغوں کے لب پر درودِ نبیؐ، طاقِ جاں میں مسلسل رہے
روشنی
جس کے دامن میں خورشید ہوں نعت کے، زندگی میں وہ شامِ معطّر بھی دے
خوشبوئیں رقص میں تا قیامت رہیں، وجد میں میرے اشکِ ندامت
رہیں
آخرِ شب مَیں لکھّوں گا نعتِ نبیؐ، روشنی کا مجھے ایک ساگر بھی دے
میرے آقاؐ تو ہیں روشنی عِلم کی، ہیں قطاریں ستاروں کی نقشِ
قدم
روشنی میرے باہر بھی ہو خیمہ زن، روشنی، یا خدا! میرے اندر بھی دے
قصر عشقِ نبیؐ جی میں تعمیر ہو جس میں افکارِ مدحت کی تصویر
ہو
شہرِ اقبال میں یا خدائے قلم! مجھ سے عاصی کو بزمِ قلندر بھی دے
تو ہی مالک ہے ارض و سماوات کا، تو صلہ دے اسے بھی مناجات
کا
منتظر ہے ریاضِ ادب میں کوئی، چاہتوں کے مقدس صنوبر بھی دے