پڑھوں اخبار مَیں جو بھی پڑھوں مولا! خبر روشن- لامحدود (2017)

کئی برسوں سے میری بھی نہیں ہے چشمِ تر روشن
مرے مولا! سدا رکھنا مرے بچّوں کا گھر روشن

منڈیروں پر چراغِ آرزو جلتے رہیں لاکھوں
رہیں بادِ مخالف میں وطن کے بام و در روشن

حوادث کی گھٹائیں ہوں افق سے آج بھی رخصت
حصارِ عافیت میں ہوں غریبوں کے کھنڈر روشن

گلستانوں کے باہر بھی ملیں خوشبو بھرے موسم
گلستانوں کے اندر بھی رہے شاخِ ثمر روشن

جزیرے میں کہیں مدفون گنجِ سیم و زر سے کیا
حیاتِ چند روزہ کی ہو شامِ مختصر روشن

الہٰی! سبز پرچم پر ہلالِ عید لہرائے
ستارا میری قسمت کا رہے اس پر، مگر روشن

مدینے کی ہوائیں ہر ہتھیلی پر رکھیں تیشہ
کہ شہرِ علم کے سورج سے ہوں شام و سحر روشن

فضائوں میں رہیں رقصاں ہمیشہ ابر کے ٹکڑے
رہیں آنگن کی چڑیوں کے سنہری بال و پر روشن

مرے بچّوں نے پوچھا ہے بتا دیجے ہمیں بابا!
لبِ تشنہ پہ کب ہوں گے حروفِ معتبر روشن

مرے لفظوں میں اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں رکھّا
ترے ہی فضل سے ہوگی نوائے بے ہنر روشن

مرے اعصاب بھی شل ہوچکے ہیں قتل گاہوں میں
پڑھوں اخبار میں جو بھی پڑھوں مولا! خبر روشن

نئی شاخوں کے ہاتھوں میں نئے سورج کی مشعل دے
کنارِ آبجو برگد کا ہو بوڑھا شجر روشن

مری بستی کے ہر منظر سے لپٹی ہے شبِ ماتم
عزائم کے رہیں سینوں میں بھی برق و شرر روشن

ریاضِؔ غم زدہ کی ہر دعا مقبول ہو جائے
رہے مکتب کی تختی پر ضمیرِ نوحہ گر روشن