مَیں اٹھا کر جسم کی بنجر زمیں جائوں کہاں؟- لامحدود (2017)

خیمہ زن ہے ہر طرف شامِ غریباں کا دھواں
آسمانوں سے اتر آئے زمیں پر کہکشاں

یا خدا! اپنے کرم کی بارشیں دن رات کر
مَیں اٹھا کر جسم کی بنجر زمیں جائوں کہاں

آفتابِ حشر پہلے ہی سوا نیزے پہ ہے
یا خدا! اپنے کرم کا دے سروں پر سائباں

کب تلک بھیگی رہیں گی شاخ پر چڑیاں نحیف
کب تلک اڑتے رہیں گے آندھیوں میں آشیاں

لوگ بستی کے، گھروں میں پھر مقفل ہوگئے
فتنہ و شر کی، مرے مولا! الٹ جائے دکاں

وادیٔ افکار میں تازہ ہوائیں چل پڑیں
یا خدا! میرا قلم ہر ہر ورق پر دے اذاں

ظلم کے ہر ہاتھ میں تُو ڈال دے اب ہتھکڑی
بربریت کا مٹا دنیا سے توُ نام و نشاں

بادلوں کے قافلے سر پر کھڑے ہیں، یا خدا!
پھٹ چکا ہے کاغذی کشتی کا گیلا بادباں

چھین لی کس نے شگوفوں سے تبسم کی ادا
رقص کرنا بھول بیٹھی ہیں چمن میں تتلیاں

تیرگی میں ہیں حروفِ آرزو لپٹے ہوئے
روشنی اترے کبھی، یارب! پسِ وہم و گماں

امن کی خیرات ہر دامن میں، یارب! ڈال دے
جنگ کے شعلوں میں ہیں اب بستیوں کی بستیاں

گنگناتی ہی رہے پگڈنڈیوں پر روشنی
پھول برساتی رہے حرفِ سخن کی داستاں

بال و پر میری دعائوں کے پرندوں کو ملیں
سر بسجدہ ہی رہے میرا قلم، میری زباں

خوشبوئوں سے ایک اک آنگن کو بھر دے یا خدا!
چشمِ تر کب سے مصلّے پر ہے مصروفِ فغاں

میں ریاضِؔ بے نوا کس کس کا اب نوحہ لکھوں
سسکیاں ہی سسکیاں ہیں ہچکیاں ہی ہچکیاں