اپنے لاشے ازل سے اٹھائے ہوئے- لامحدود (2017)

التجائوں کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم
آرزو کے گھروندے بنائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم

ہر طرف ہے دھواں ہی دھواں یا خدا، ہر طرف چھا رہی ہے شبِ ناروا
اپنی پلکوں پہ آنسو سجائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم

تُو خدا ہے ہماری بھی فریاد سن، کب ہماری گلی میں بھی برسے گا ہُن
تیرے بندوں کے ہم ہیں ستائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم

آرزوئوں کے دامن جلائے گئے، چاہتوں کے درِ دل گرائے گئے
اپنے لاشے ازل سے اٹھائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم

بھوک گھر کی منڈیروں پہ اگنے لگی، پیاس ہونٹوں سے لگ لگ کے روتی رہی
سسکیوں کو گلے سے لگائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم

کوئی پرسانِ حالِ شبِ غم نہیں، دھوپ آنگن میں صحرا سے بھی کم نہیں
چشمِ تر کشتِ جاں میں اگائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم

تیرے مجبور بندے ہیں ہم بے نوا، رو رہے ہیں سرِ شامِ کرب و بلا
اپنے زخموں کی چادر بچھائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم

ہم ریاضِؔ ادب کے چمن زار ہیں، تیری رحمت کے کب سے طلب گار ہیں
نعت کے پھول لب پر سجائے ہوئے، تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکاتے ہیں ہم