ذوقِ سفر دیا ہے تو اب بال و پر بھی دے- لامحدود (2017)

میرے کھُلے مکان کو دیوار و در بھی دے
ہر التجائے حرفِ ادب میں اثر بھی دے

اپنی ندامتوں کا کڑا جو رکھے حساب
مجھ سے گناہ گار کو وہ چشمِ تر بھی دے

اذنِ سفر کے ساتھ دے زادِ سفر مجھے
طیبہ کی سمت جاتی ہوئی رہگذر بھی دے

جن پر نوازشات کی بارش ہوئی بہت
اُنؐ کو نفاذِ عدلِ پیمبرؐ کا ڈر بھی دے

جن کی ہتھیلیوں پہ رکھے تُو نے آفتاب
اُن کو دیے جلانے کا یارب! ہنر بھی دے

دیکھوں گا آسمان کو حیرت سے کب تلک
ذوقِ سفر دیا ہے تو اب بال و پر بھی دے
جھک کر کرے سجود تری بارگاہ میں
ہر اک برہنہ شاخ کو بارِ ثمر بھی دے

جلتے رہے ہیں دھوپ میں ننگے بدن بہت
سایہ، لباس ان کا بنے، وہ شجر بھی دے

بازارِ مصر میں مجھے لائے مرے رفیق
کشکولِ آرزو میں زرِ معتبر بھی دے

زم زم سے میرے سبز کٹورے بھرے رہیں
کیفِ ثنا میں جھومتے شام و سحر بھی دے

اُنؐ کے نقوشِ پا سے جلائوں نئے چراغ
انفاسِ مصطفیؐ سے مصوَّر نگر بھی دے

فکری مغالطوں میں ہیں الجھے ہوئے ضمیر
اہلِ قلم کو الفتِ خیرالبشرؐ بھی دے

خیمے اٹھا اٹھا کے پھرے کب تلک ریاضؔ
آقاؐ کے شہرِ نور میں چھوٹا سا گھر بھی دے