ہر نوا، ہر ضابطہ، ہر التجا سجدے میں ہے- لامحدود (2017)

آرزوئے چشمِ تر کی انتہا سجدے میں ہے
ہر نوا، ہر ضابطہ، ہر التجا سجدے میں ہے

صرف حاصل ہیں اُسی کو پادشاہی کے حقوق
قصرِ سلطاں میں پر و بالِ ہما سجدے میں ہے

آج بھی مہکی ہوئی ہے اس کے دامن کی ہوا
جانبِ کعبہ شبِ غارِ حرا سجدے میں ہے

سنگِ اسود چوم کر مَیں آج بھی رویا بہت
سنگِ اسود چوم کر میری انا سجدے میں ہے

قافلے والو! ذرا ٹھہرو حطیمِ پاک میں
آنسوئوں میں تر ابھی میری دعا سجدے میں ہے

ہر قدم پر مَیں نے سجدوں کی بسائی بستیاں
شہرِ مکّہ کی طرف جاتی ہوا سجدے میں ہے
وہ خدائے روز و شب ہے، اس لئے، شام و سحر
ہر جبیں سجدے میں ہے ہر نقشِ پا سجدے میں ہے

ہر پرندے کی زباں پر ہے فقط حمدِ خدا
جگنوئوں اور تتلیوں کی ہر ادا سجدے میں ہے

مقتلوں میں خونِ مسلم نے پکارا ہے اُسے
عصرِ حاضر کی یقینا کربلا سجدے میں ہے

میرا سب کچھ ہے عطائے رحمتِ پروردگار
بندگی میری، مری شامِ وفا سجدے میں ہے

بادلوں کو بھی ثنا کرتے ہوئے دیکھا گیا
اِس فضا میں تیرتی کالی گھٹا سجدے میں ہے

اُس کے محبوبِ مکرمؐ کا سبق بھولی نہیں
میرے زخموں پر پڑی خاکِ شفا سجدے میں ہے

یا خدا! جھوٹے خدائوں کی خدائی میں رہے؟
نسلِ انسانی کی بکھری سی صدا سجدے میں ہے

مالک و مختار کی مَیں حمد لکھّوں گا، ریاضؔ
خوشبوئیں تو خوشبوئیں بادِ صبا سجدے میں ہے

ملتزم پر مَیں نے یہ منظر بھی دیکھا ہے ریاضؔ
تا ابد یہ گردشِ ارض و سما سجدے میں ہے

یہ زمیں ساری کی ساری ایک مسجد ہے ریاضؔ
لازماً اوپر بلندی پر خلا سجدے میں ہے