لامحدود: قادرِ مطلق! تری ہی ذات لامحدودہ- لامحدود (2017)

کیا جلالِ پادشاہی ہے خداوندِ جہاں
تیری قدرت کا رہے گا تا ابد سکّہ رواں

قادرِ مطلق! تری ہی ذات لامحدود ہے
ہر دھڑکتے دل کی دھڑکن میں بھی تُو موجود ہے

خالقِ کون و مکاں تُو رازقِ جنّ و بشر
تُو ملائک کا خدا ہے تُو خدائے بحر و بر

تُو نگہباں، تُو مصوِّر، تُو ہی توّاب و رحیم
مالک و مختار بھی ہے تُو ہی مُتکبرَّ، عظیم

تُو علیم و مالک و رحمن و جبّار و عزیز
خیر و شر میں کرسکوں، میرے خدا، مَیں بھی تمیز

قابض و باسط بھی تُو ہے یا خدائے ذوالجلال
مجھ کو بھی اوہام کی دلدل کے محشر سے نکال

یا حکیم و یا حلیم و یا حفیظ و یا بصیر
ڈال دے سائل کی جھولی میں زرِ خیرِ کثیر

زندگی اور موت تیرے ہاتھ میں ہے، یا خدا!
اذن تیرے ہی سے قائم ہے مری ارضِ دعا

تُو خدائے لامکاں ہے تو خدائے آسماں
تُو خدائے روز و شب ہے تو خدائے مہرباں

ہو وظیفہ یا سلام و یا لطیف و یا وکیل
یاکبیر و یا مقیت و یا حسیبب و یا جلیل

تُو نے دی ہے آپؐ کو رشد و ہدایت کی کتاب
درج ہے جس میں مکمل آدمیت کا نصاب

ماورائے علمِ ناقص ہے ترا جاہ و حشم
کیا مرے نطق و بیاں اور کیا مرے لوح و قلم

حمد کرتے ہیں تری، شام و سحر، ارض و سما
مَیں ترا عاجز سا بندہ کیا کروں تیری ثنا

کاسۂ فن میں گریں سکّے ہمیشہ معتبر
لفظ کی تفہیم کا مجھ کو ودیعت کر ہنر

میرے باہر، میرے اندر ہیں ہزاروں سومنات
دے مجھے جھوٹے خدائوں کے تسلط سے نجات

بھوک کی فصلیں اگائیں کب تلک اہلِ زمیں
ابر کا ٹکڑا فضائوں میں نظر آتا نہیں

میرے دامانِ طلب میں روشنی کے پھول دے
علم کی پوشاک پر اپنے کرم کی دھول دے

یہ رہے احساس زندہ تُو ہے شہ رگ سے قریب
عدل کا شاداب موسم ہو گلستاں کو نصیب

تُو دکھاتا ہے ہوائوں کو ازل سے راستہ
کرب کے لمحات میں دیتا ہے تُو ہی حوصلہ

کھول دے گرہیں مقدر کی مرے اچھے خدا!
ہمسفر زندہ مسائل کی رہے گی کربلا؟

مالک و مختار بھی ہے تُو ہی قُدُّوس و کریم
ساتھ میرے حشر کے دن بھی رہے ذوقِ سلیم

ہرکس و ناکس کا ہے تو ہی ازل سے دستگیر
یا خدا! زندہ رہے مقتل میں بھی میرا ضمیر

رحمتِ یزداں! مرے دامن میں بھی ماہ و نجوم
میری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے اشکوں کا ہجوم

یا خدا! اپنے محمدؐ کے غلاموں پر نظر
ختم ہو غیروں کے در پر التجائوں کا سفر

بیکراں تیرا کرم ہے، تیری رحمت بے کنار
ذہنِ انسانی سے بھی اترے تکبُّر کا خمار

عافیت کا سائباں عہدِ پریشاں کو ملے
یا خدا! اس حال میں چاکِ گریباں بھی سلے

تیری رحمت کا مسلسل میرے گھر میں ہو نزول
اپنے بندوں کی دعائوں کو تُو کرتا ہے قبول

پرکُشا ہے وسعتِ افلاک میں تیرا جمال
میرے دل پر نقش ہیں تیرے نقوشِ لازوال

سسکیاں بھرنے لگا ہے اب تو ہر حرفِ دعا
ارضِ پاکستان میں، یارب، چلے ٹھنڈی ہوا

ہر طرف محرومیوں کی راکھ ہے اڑنے لگی
پھول سے، صرصر مصائب کی ہے پھر الجھی ہوئی

میرے ہاتھوں کی لکیروں میں خزانہ ہے اگر
یا خدا! نقشہ جزیرے کا عطا مجھ کو بھی کر

تیر مشکیزوں پہ برسے ہیں سرِ ریگِ رواں
رہ گئی ہے بس مری چھاگل میں میری ہی زباں

تیرے در پر ہوں کھڑا حاجت روائی کر مری
سخت مشکل میں ہوں تُو مشکل کشائی کر مری

امتِ سرکارؐ کے احوال پر چشمِ کرم
چھن گیا ہے اس کے ہاتھوں سے عزائم کا عَلَم

یا خدا! رعنائیوں کے سب دریچے کھول دے
ہر مصلّے پر اتر آئیں دعا کے رتجگے

دے شعورِ بندگی بھٹکے ہوئے انسان کو
خوف دے اپنا ’’خدا‘‘ بنتے ہوئے سلطان کو

ہر ورق پر جھوٹ کے تحریر ہیں سب تبصرے
یا الہٰی! سچ ہی لکھنے کی ہمیں توفیق دے

آج بھی قانون جنگل کا رہے نافذ یہاں؟
ضابطہ اخلاق کا بھولی ہوئی ہے داستاں

یا خدا! خالی کٹورے نور سے بھرتا رہوں
شہرِ طیبہ کی ہوا سے گفتگو کرتا رہوں

حُبِّ ختم المرسلیںؐ کی دولتِ بیدار دے
سر برہنہ ہوں مجھے بھی سایۂ دیوار دے

کشتیاں کاغذ کی نکلی ہیں سمندر میں ہزار
ہر مسافر کو حفاظت سے کنارے پر اتار

سر پھری پاگل ہوائوں کو بھی خوئے اعتدال
یاخد! نظمِ گلستانِ ادب کو کر بحال

ایک جرعہ بھی نہیں تیرے کرم کا، آفتاب
تیری رحمت کی فراوانی کا کیا ہو گا حساب

خوشۂ گندم کا آدم زاد کو ہے انتظار
اپنی ہر مخلوق کا تُو ہی تو ہے پروردگار