دو حمدیہ:خدا ہے، مالک و مختار ہے، ارض و سما دے گا- لامحدود (2017)

وہی مجھ کو قلم دے گا، وہی حرفِ ثنا دے گا
وہی اوراقِ تشنہ کو سمندر کی ہوا دے گا

مگر یہ شرط ہے سرکارؐ کے قدموں کی نسبت ہو
مدینے اور مکّے کا وہی نقشہ دکھا دے گا

خدائے روز و شب جس نے نئے موسم بنائے ہیں
وہی مجھ کو مدینے کی خنک آب و ہوا دے گا

درِ تفہیم کے ہر راستے سے آشنا کر کے
بیاضِ نعت دے گا جو مجھے وہ لب کشا دے گا

کرم کے پھول رکھّیں گے وہ ہر سائل کے ہاتھوں پر
شفاعت کا علم مَحشر کے دن اُنؐ کو خدا دے گا

محمدؐ کے وسیلے سے مَیں جب مانگوں گا تو مالک
مجھے طشتِ محبت میں زرِ خاکِ شفا دے گا

وہی دے گا سلیقہ مانگنے کا میر و سلطاں کو
وہی سائل کی جھولی میں حروفِ التجا دے گا

مَیں اک چھوٹا سا گھر مانگوں گا بچّوں کے لئے لیکن
خدا ہے، مالک و مختار ہے، ارض و سما دے گا

کتابِ ارتقا دے کر وہ ہر بندے کے ہاتھوں میں
در و دیوار میں اوہام کا موسم چھپا دے گا

مرے کھیتوں پہ ہریالی کی دے کر پھول سی چادر
مرے گندم کے خوشوں کو ستاروں کی ضیا دے گا

بیاضِ نعت میں پڑھ کر کہانی چشمِ پرنم کی
مجھے ہر شخص طیبہ میں حضوری کی دعا دے گا

مری عمرِ رواں کو سجدہ ریزی کی تمنا ہے
خدائے روز و شب مجھ کو خیابانِ وفا دے گا

مری مٹی بھی مجھ سے منحرف ہوجائے گی لیکن
وہ مٹی کا دیا میری ہتھیلی پر جلا دے گا

کبھی تو جاگنا ہو گا مرے اندر کے انساں کو
وگرنہ وقت ہر پہچان کی مشعل بجھا دے گا

غبارِ روز و شب سے وہ نکالے گا مجھے اک دن
مرے زندہ مسائل کی وہ دیواریں گرا دے گا

مجھے اپنی اکائی کے تحفظ کا جنون دے کر
فضائے عجز میں لپٹی ہوئی دلکش ردا دے گا

کسی دن پھر مقدر کے ستارے جھوم اٹھیں گے
کسی دن ہاتفِ غیبی مدینے سے صدا دے گا

سکھائے گا مجھے آداب پیغمبرؐ کی محفل کے
مجھے بھی جاں نثارانِ نبیؐ کی اقتدا دے گا

مری نسلوں کو رکھّے گا حصارِ ا برِ رحمت میں
مرے بچّوں کو وہ عشقِ امام الانبیاؐ دے گا

وہی خالی کٹوروں پر گرائے گا کبھی شبنم
مری تشنہ زمینوں کو وہی کالی گھٹا دے گا

تلاشِ عظمتِ رفتہ میں نکلوں تو سہی گھر سے
مجھے وہ ہر قدم پر روشنی کا دائرہ دے گا

وہی چھوٹے ممالک کا سہارا ہو گا مقتل میں
وہی جبر و تشدد کی فضا میں حوصلہ دے گا

وہی پھولوں سے بھر دے گا جلی شاخوں کے دامن کو
وہی بستی کے ہر نادار کو صبر و رضا دے گا

بچھا دے گا وہ نخلستان تپتی ریت پر لاکھوں
یقینا قافلے والوں کو وہ بانگِ درا دے گا

وہ چاہے تو ستارے گر پڑیں بستی کی گلیوں میں
وہ چاہے تو ہتھیلی پر ابھی سرسوں جما دے گا

وہی ابنِ علیؓ کی استقامت کے حوالے سے
ریاضؔ آدم کے بیٹوں کو شعورِ کربلا دے گا

٭٭٭

مجھے میرا خدا برزخ میں بھی اذنِ ثنا دے گا
قلم دے گا، ورق دے گا، حروفِ التجا دے گا

وہی جو روشنی تخلیق کرتا ہے اندھیروں میں
دھنک، خوشبو، ستارے، تتلیاں، جگنو، صبا دے گا

وہی ہے قادرِ مطلق، وہی ہر شے کا مالک ہے
وہی خلدِ مدینہ کی فضائے دلکشا دے گا

مجھے اپنے مقدّر پر بڑا ہی رشک آتا ہے
خدائے لم یزل عشقِ نبیؐ کی انتہا دے گا

وہی اثمار کی دولت لٹاتا ہے درختوں پر
خزاں کے زرد پتوں کو وہ حکمِ انخلا دے گا

وہی ذہنِ رسا پر عِلم کی برسات کرتا ہے
وہی ہر آبگینے کو تحفظ کی ردا دے گا

فصیلِ ارضِ جاں پر جو دیے رکھتا ہے دانش کے
چراغِ آرزو ہر ہر دریچے میں جلا دے گا

نصابِ زندگی دے کر پیمبرؐ جس نے بھیجے ہیں
وہی نقش و نگارِ ظلمتِ شب کو مٹا دے گا

اُسی کا نور صبحوں کے اجالوں میں برستا ہے
اُسی کا نام گہری نیند سے اک دن جگا دے گا

جزیروں کی نئی دنیا جو دیتا ہے سمندر کو
وہی کاغذ کی کشتی کو کنارے سے لگا دے گا

ازل سے مہرباں ہے اپنی ہر مخلوق پر مالک
مرے ہر عیب کو رحمت کی چادر میں چھپا دے گا

اُسی کی ذات لامحدود ہے، وہ ربِ اکبر ہے
مرے دل میں وہ عکسِ گنبدِ خضرا بنا دے گا

جنابِ سیدِ ساداتؐ کے قدموں کے صدقے میں
خزانہ جو بھی دے گا وہ خدائے مصطفی دے گا

خدا محفوظ رکھّے گا مرے لفظوں کی رعنائی
مجھے مدحت نگاری کا صلہ میرا خدا دے گا

پذیرائی کے موسم کی دعائیں مانگتے رہنا
مرے اسلوبِ مدحت کو وہی آبِ بقا دے گا

وہی غالب وہی قادر وہی روزی رساں سب کا
وہی ہر ایک مشکل کام کو آساں بنا دے گا

مصلّے پر کھڑے ہو کر کبھی زنجیر تو کھینچو
وہ ہر اک مانگنے والے کو عشقِ مصطفی دے گا

وہی میری ثقافت کا محافظ ہے سرِ محفل
وہی آبِ خنک، آبِ بقا آبِ شفا دے گا

وسیلہ آپؐ کا شامل ہے میری التجائوں میں
خدائے آسماں میری طلب سے بھی سوا دے گا

ہوائے عدل آئے گی مدینے کے گلستاں سے
مرا منصف اگر قاتل کے حق میں فیصلہ دے گا

اگر سفّاک لمحے چاٹ لیں گے میری بینائی
غبارِ وادیٔ طائف مجھے بھی حوصلہ دے گا

ودیعت ہے کیا جس نے قلم میرے دبستان کو
لُغت میری میں جتنے لفظ دے گا لب کشا دے گا

کوئی مصرع مری سرکارؐ کی توصیف میں لکھّو
وہ موسم نعت گوئی کا بڑا ہی دلربا دے گا

مدینے کی طرف ہجرت کریں تہذیبِ نو والے
ہر اک رستہ مدینے کا چراغِ نقشِ پا دے گا

بھٹکنے جب لگوں گا راہِ حق سے تو خدا میرا
ریاضِؔ خستہ جاں کو راستہ سیدھا دکھا دے گا