آبجوئے جان و دل میں آبِ مدحت ہے رواں- کائنات محو درود ہے (2017)

آبجوئے جان و دل میں آبِ مدحت ہے رواں
گویا ہیں دونوں کناروں پر کھڑے دونوں جہاں

ہاتھ میں کشکولِ شب لے کر پھروں تو کس لئے
روشنی نے کھول رکھّی ہے مدینے میں دکاں

لمحہ لمحہ آپؐ کے انوار و نکہت کی بہار
ہر صدی ہے آپؐ کے لطف و کرم کی داستاں

علم، حکمت اور دانائی کی بارش ہو، حضورؐ
آپؐ کے کردار و سیرت آخری حرفِ اذاں

دست بستہ ہیں حروفِ التجا دربار میں
مدحتِ خیرالبشرؐ اہلِ قلم کا امتحاں

نعت گوئی کی بدولت ہے، حیاتِ مختصر
گلفشاں ہی گلفشاں ہی گلفشاں ہی گلفشاں

یہ ضروری ہے قلم کو ہو غلامی کا شعور
ورنہ ہر قول و عمل ہے ماہ و سالِ رائیگاں

مَیں تو ہوں بس آپؐ کے شہرِ مقدس کا فقیر
کیا مجھے معلوم ہو، ہوتا ہے کیا سود و زیاں

آپؐ کے ایوانِ مدحت میں جلاتا ہوں چراغ
ہر گھڑی مصروف رہتے ہیں مرے نطق و بیاں

کھو گئے ہیں وادیٔ تشکیک میں لوح و قلم
کھو گیا ہے کس خرابے میں ادب کا کارواں

خوشبوؤں کا رقص جاری ہے حروفِ نعت میں
پھول لکھتی ہے سرِ اوراقِ جاں میری زباں

چن رہی ہیں مضطرب چڑیاں جلے تنکے، حضورؐ
جل رہا ہے ہر پرندے کا چمن میں آشیاں

زخم صدیوں میں نہیں بھرتے حصارِ درد میں
آنسو آنسو ہے ابھی شامِ غریباں کا دھواں

دھوپ میں بے خوف ہو کر آدمی نکلے ریاضؔ
اُن کی رحمت کا ازل سے ہے سروں پر سائباں