پیمبرؐ کی بدولت شہرِ جاں رشکِ گلستاں ہے- کائنات محو درود ہے (2017)

پیمبرؐ کی بدولت شہرِ جاں رشکِ گلستاں ہے
بیاضِ نعت کا ہر ہر ورق خوشبو بداماں ہے

بفیضِ نعت عمرِ مختصر کی شامِ حیرت میں
جہاں تک یاد پڑتا ہے چراغاں ہی چراغاں ہے

مہذب ساعتیں آدم کی نسلوں کا مقدر ہیں
کڑی اس دھوپ میں سب کے سروں پر دستِ قرآں ہے

ندامت کے بہت سے اشک شامل ہیں دعاؤں میں
لرزتے سے مرے ہاتھوں میں بس چاکِ گریباں ہے

خدا کا شکر ہے جھوٹے خداؤں کو نہیں مانا
محمدؐ کا خدا، میرا خدا میرا نگہباں ہے

حضوری کی بشارت لے کے آئے آپؐ کا قاصد
مرے گھر کا ہر اک بچّہ کئی دن سے پریشاں ہے

تحفظ کی ردائیں مانگنے آیا ہے طیبہ میں
حصارِ خوف میں سہما ہوا کب سے مسلماں ہے

بہت مشکل ہے دن میں آئنوں کا سامنا کرنا
حضورؐ، امت کا ہر پیر و جواں دل سے پشیماں ہے

ہوا کو کیا خبر ہے یارسولِ محتشمؐ، کل شب
سرِ مقتل گرا تھا جو وہی خونِ رگِ جاں ہے

غلامی کی سند ہاتھوں میں ہو گی حوضِ کوثر پر
ریاضِؔ خوشنوا آلِ نبیؐ کا ایک درباں ہے