سرِ منزل، قلم میرا، چراغِ رہگذر نکلا- کائنات محو درود ہے (2017)

سرِ منزل، قلم میرا چراغِ رہگذر نکلا
اجالا ہی اجالا ہر قدم پر ہمسفر نکلا

مری آنکھیں جھکی رہتی ہیں پلکیں بھی نہیں اٹھتیں
مرا سایہ بھی طیبہ میں پسِ دیوار و در نکلا

زرِ حُبِّ پیمبرؐ کی بدولت شہرِ مدحت میں
برستی چشمِ تر سے جو بھی نکلا وہ گہر نکلا

نقوشِ علم روشن ہیں مدینے کی فضاؤں میں
خدا کا شکر ہے امت کے دل سے شب کا ڈر نکلا

یہاں صدیاں گذر جاتی ہیں لمحوں میں مرے ہمدم!
درِ آقاؐ! پہ ہر لمحہ بہت ہی مختصر نکلا

یہ مجھ سے کہہ رہی تھیں خوشبوئیں خلدِ مدینہ کی
ترا ذوقِ حضوری ہی ترا ہے نامہ بر نکلا

ترے فضل و کرم سے ایک دن پہنچے گا طیبہ میں
پرندہ آشیاں سے اے خدا! بے بال و پر نکلا

کبھی دستک نہیں دیتا کسی کے قصرِ شاہی پر
درِ آقاؐ کا ہر سائل بہت ہی معتبر نکلا

بروزِ حشر اپنی قبر کے ایوانِ مدحت سے
درودِ مصطفی لب پر سجا کر نغمہ گر نکلا

بہت ہی خوبصورت داستاں ہے میری آنکھوں کی
ثنا کرتے ہوئے ہر اشکِ تر شام و سحر نکلا

سرِ تسلیم خم ہے داورِ محشر سرِ محشر
ریاضِؔ بے نوا شہرِ ہنر میں بے ہنر نکلا

لُغت کے پھول اوراقِ ثنا پر کھل اٹھے لیکن
ریاضؔ اپنے قلم کی دلکشی سے بے خبر نکلا