تابندہ و رخشندہ ہے ایوانِ محمد- کائنات محو درود ہے (2017)

تابندہ و رخشندہ ہے ایوانِ محمدؐ
چہرہ ہے خدائی کا دبستانِ محمدؐ

صد شکر مجھے یاد نہیں اپنی کہانی
بس یاد ہے اتنا کہ ہوں دربانِ محمدؐ

ہر لفظ خدا کا لبِ اقدس پہ سجا ہے
گنجینۂ انوار ہے قرآنِ محمدؐ

ہیں کارِ جہالت میں ملوث مری آنکھیں
جب علم کا مخزن ہے قلمدانِ محمدؐ

مغرب تو سناتا ہے تعصب کا فسانہ
ہے امن کا گہوارہ شبستانِ محمدؐ

بے پر کی اڑاتے رہیں باطل کے حواری
وہ خالق و مالک ہے نگہبانِ محمدؐ

مخلوقِ خدا میں سے مجھے کوئی بتا دے
کس کو نہیں ملتا زرِ احسانِ محمدؐ

آنکھیں نہیں رکھتے انہیں آئے گا نظر کیا
ایندھن ہیں جہنم کا حریفانِ محمدؐ

مولا! یہی خواہش ہے، رہوں اُنؐ کی گلی میں
حاصل ہے مری عمر کا ارمانِ محمدؐ

یہ اُنؐ کا کرم شاملِ احوال ہے ورنہ
ہم جیسے کہاں ہوتے غلامانِ محمدؐ

موسم یہ خنک خلدِ مدینہ کی عطا ہے
شاداب ازل سے ہے گلستانِ محمدؐ

پھر آنکھ میں اشکوں کے سسکنے کا ہے منظر
طیبہ سے جدا ہوتا ہے مہمانِ محمدؐ

میرا تو اندھیروں سے تعارف ہی نہیں ہے
منظر میں فقط ہے رخِ تابانِ محمدؐ

یہ بات الگ قعرِ مذلت میں ہیں ورنہ
ہر تخت کے وارث ہیں گدایان محمدؐ

دریاؤں میں پانی کا نہیں ایک بھی قطرہ
یارب! جلے کھیتوں پہ ہو بارانِ محمدؐ

محشر میں صدا آتی ہے مقطع ہو مکرّر
مرکز ہے نگاہوں کا سخندانِ محمدؐ

مَیں اور کہاں، میرا قلم، میری کتابیں
قرآن کی آیات ہیں شایانِ محمدؐ

اصحابِؓ پیمبرؐ تو ہیں اصحابِؓ پیمبرؐ
ہر دور کی پہچان ہیں خاصانِ محمدؐ

سرکارؐ کی نسبت کا تقاضا ہے غلامی
ایمان کی بنیاد ہے ایمانِ محمدؐ

لب پر ہے ریاضؔ اپنی تمناؤں کا جھرمٹ
محشر میں ہو ہر ہاتھ میں دامانِ محمدؐ