چہار نعتیہ: امید کی ہے کشتی ایماں کے پانیوں میں- کائنات محو درود ہے (2017)

امید کی ہے کشتی، ایماں کے پانیوں میں
اک عکسِ دلربا ہے مدحت کے آئنوں میں

تھے ہمرکاب جگنو، خوشبو بھی ہمسفر تھی
مَیں نے گلاب بانٹے بطحا کی وادیوں میں

گردابِ ابتلا میں سرکارؐ نا خدا ہیں
انسان مطمئن ہے کاغذ کی کشتیوں میں

اُنؐ کے کرم کی بارش میں بھیگتا ہوں جب مَیں
کچھ اور بھی اضافہ ہوتا ہے حیرتوں میں

سب کھڑکیاں کھُلی ہیں طیبہ میں روشنی کی
سورج اُگے ہوئے ہیں گھر گھر کی ممٹیوں میں

زخمی ہیں فاختائیں امن و اماں کی لیکن
ملتا ہے امنِ عالم رحمت کے جمگھٹوں میں

کچھ مختلف ہے میرا ہر زاویہ نگہ کا
ہر پیڑ بھی ہے شامل طیبہ کے دوستوں میں

رم جھم ہے چشمِ تر میں اس نام کی بدولت
اسمِ نبیؐ ہوا نے لکھّا ہے بادلوں میں

ہر سانس آتے جاتے لیتی ہے نام اُنؐ کا
عشقِ نبیؐ کا دریا ہے موجزن رگوں میں

تو بھی ریاضؔ چپو، رکھ دے درود پڑھ کر
ہر آبجو ہے گرتی طیبہ کے ساحلوں میں

٭٭٭

پلکیں بچھا دیں ہم نے طیبہ کے راستوں میں
موتی چمک رہے ہیں پاؤں کے آبلوں میں

ذکرِ جمیل اُنؐ کا ہے ہر ورق پہ روشن
مفہوم ہے مصوَّر مضموں کے حاشیوں میں

بھٹکے ہوئے بشر کو شاید خبر نہیں ہے
ہر عافیت ہے ملتی آقاؐ کی محفلوں میں

یہ جشنِ مصطفیؐ ہے رحمت کی انتہا ہے
اترے ہیں آسماں سے انوار بستیوں میں

میلاد کا ہے موسم شادابیوں کا مظہر
افضل تریں نبیؐ ہیں سارے پیمبروں میں

سارے علوم اُنؐ کے در پر ہیں دست بستہ
رونق تمام تر ہے آقاؐ کے مکتبوں میں

اوقات اپنی بھولا ہر رہنما ہمارا
اب ہے ہوا مقیّد زر کی تجوریوں میں

عشقِ نبیؐ کا موسم ہر سَمْت پرفشاں ہے
رقصاں صبا ہمیشہ رہتی ہے رتجگوں میں

سب منحرف یہ چہرے گمراہ ہو چکے ہیں
گم صم کھڑے ہیں کب سے تاریک جنگلوں میں

موسم ریاضؔ اُترا شاداب ساعتوں کا
جگنو درود پڑھتے اترے ہیں جھاڑیوں میں

٭٭٭

ہے تذکرہ نبیؐ کا قرآں کی آیتوں میں
ہر لفظ لب کُشا ہے قاری کے آنسوؤں میں

طیبہ کی یاد آئی اشکوں کے ہار لائی
آنکھیں برس رہی ہیں میری بھی ساونوں میں

یہ بھی عطا ہے اُنؐ کی، یہ بھی کرم ہے اُنؐ کا
شامل قلم ہے میرا رحمت کے سلسلوں میں

چھیڑا ہے ذکر اُنؐ کا ہر مصرعِ ثنا نے
ہے انقلاب برپا سینے کی دھڑکنوں میں

تفہیم کے دیے ہیں روشن درِ نبیؐ پر
الجھی ہوئی ہے دنیا بے کار مخمصوں میں

محرابِ جان و دل میں نقشِ قدم ہیں اُنؐ کے
افکارِ نو ہیں اترے ذہنوں کی وسعتوں میں

سرکارؐ کی گلی میں انجام میرا ہوگا
مژدہ ہے مغفرت کا سانسوں کی نکہتوں میں

خوشبو کے ہاتھ میں ہے میری بیاضِ مدحت
صد شکر ہوں مسلسل آقاؐ سے رابطوں میں

اللہ کی بندگی سے انوار پھوٹتے ہیں
انصاف کے ہیں جھرمٹ قرآں کے ضابطوں میں

تُو بھی ریاضؔ شامل ہو کر دیے اٹھا لے
ہر شخص وَجْد میں ہے طیبہ کے قافلوں میں

٭٭٭

ہر عکس لب کشا ہے مدحت کے آئنوں میں
خوشبو ہے کب سے رقصاں طیبہ کے منظروں میں

تشنہ لبی مقدر ہرگز نہیں ہمارا
بھیگا ہوا ہے آنگن رحمت کی بارشوں میں

فرصت نہیں ہے اس کو، نظریں اٹھا کے دیکھے
میرا قلم ملے گا اکثر مراقبوں میں

امن و اماں کا پرچم لہرا رہا ہے ہر سو
سرکارؐ کا ہے روضہ پھولوں کے جھرمٹوں میں

کشکول اپنا لے کر آؤ چلیں مدینے
بٹتی ہے خوش نصیبی اُنؐ کے گداگروں میں

اُنؐ کے سوا کسی کو پہچانتا نہیں ہوں
توصیفِ مصطفیٰؐ ہے میرے مکالموں میں

پرسانِ حال اس کا کوئی نہیں خدایا!
امت ترے نبیؐ کی کب سے ہے مشکلوں میں

ہر بات میں تعصّب کی سرخ آندھیاں ہیں
فکری مغالطے ہیں مغرب کے تبصروں میں

قاتل عدالتوں میں منصف بنے ہوئے ہیں
کیسی ہوا چلی ہے آقاؐ تمدنوں میں

مَیں ہوں ریاضؔ اُنؐ کا گمنام ایک شاعر
محشر میں نام آئے میرا سخنوروں میں