غبارِ شب کی گرفتِ ناروا سے رہائی- خلد سخن (2009)

غبارِ کرب مسلط تھا میری سوچوں پر
مَیں اضطرابِ مسلسل کے ریگ زاروں میں
تلاشِ رزقِ سکوں میں بھٹک رہا تھا ریاضؔ
مرا وجود، مری کائناتِ حرفِ وفا
کہ جیسے برف ہو لفظوں کی بند مُٹھی میں
ہر ایک سَمت اندھیروں کی راجدھانی تھی
حصارِ خوف میں گم تھا شعور کا نغمہ
یہ کیا کہ وقت کی عدالت میں
میں اپنے ہونے کا کوئی جواز دے نہ سکا
یقیں کا دامنِ صد چاک
میرے ہاتھوں میں
ازل سے میری ہی محرومیوں کا مظہر تھا
مگر یہ اشکِ ندامت سحر میں پلکوں پر
دیے جلانے کا منصب سنبھال کر بولے

’’حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضور مرسلِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دستِ عطا کی نوازشِ پیہم
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! دامنِ اُمید میں گریں موتی
غبارِ کرب و بلا سے رہائی دیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بہت اُداس ہے شاعر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شاعر
یقیں کی دولتِ بیدار اس کے دامن میں
گلاب بن کے مہکنے لگے مرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ارضِ بدن پر کرم کی بارش ہو‘‘

غبارِ شب میں ہجومِ نجوم اُتر آیا
فصیلِ لب بھی چراغوں سے اَٹ گئی میری
وہ اضطرابِ مسلسل
جو خوں کے آخری قطرے کا تھا تمنائی
فصیلِ جاں سے اُترنے کے بعد
زمیں کا رزق بنا
جمالِ گنبدِ خضرا ہے میرے سینے میں
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمِ گرامی کی سر پہ چادر ہے
غبارِ شب کی گرفتِ غضب سے نکلا ہوں
برہنہ سر نہیں میرا ہوا کے ہاتھوں میں