حضور ﷺ سارے زمانوں کا سرمدی چہرہ- خلد سخن (2009)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
آیہء رحمت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابرِ کرم
مَیں تشنہ لب سرِ ساحل
تلاش میں ہوں ابھی
طلب مجھے ہے اُسی سیپ کی سمندر سے
کہ جس میں حمد و ثنا کے ہزار موتی ہوں
مثالِ اشکِ محبت گریں جو آنکھوں سے
شعورِ مدحتِ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہو رمق جن میں
نئے اُفق پہ نئے زاویے سے لکھتے ہوں
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
آیہء رحمت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابرِ کرم
مَیں اپنے بختِ رسا کی بلائیں لیتا ہوں
مَیں اپنے دامنِ صد رنگ کے تفاخر میں
قلم کی نوک پہ سورج اُتارنے کے بعد
زباں پہ چاند ستاروں کے پھول رکھتا ہوں
ورق پہ رات کے پچھلے پہر میں اشکوں سے
شبیہہِ گنبدِ خضرا بناتا رہتا ہوں
جنابِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیتا ہوں
حصارِ اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میں پناہ میں ہوں
کبھی یہ خوفِ مسلسل جگائے رکھتا تھا
کہ میرا جسم ہوا میں بکھرتا جاتا ہے
بدن کا کانچ کسی سانحے کی زد میں ہے
مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا یہ تصدق ہے
ردائے خوفِ مسلسل اتار آیا ہوں
مرے بدن کی اکائی سدا سلامت ہے
چراغِ عشق پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے میرے ہاتھوں میں
ازل بھی میرا
ابد بھی مرا مقدر ہے
کہ نعتِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرا حوالہ ہے
کہ نعتِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرا تشخص ہے
میں اپنا نام بھی لینا اگر کبھی چاہوں
مرا شعور مرے ذہن کو جھٹک دے گا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
آیہء رحمت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابرِ کرم
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارے زمانوں کا سرمدی چہرہ