صبا کے ہاتھ مسلسل سلام بھیجا ہے- آبروئے ما (2014)

صبا کے ہاتھ مسلسل سلام بھیجا ہے
کرم کا ابر مرے کھیت پر بھی برسا ہے

یہی تو سیکھا ہے مَیں نے کتابِ سیرت سے
جو لفظ آپؐ کے لب پر کھِلا، صحیفہ ہے

سوال کرنے سے پہلے ہی بھر گیا دامن
عطا کا ایک سا منظر فلک نے دیکھا ہے

چھلک پڑی ہیں دریچوں میں سوچتی آنکھیں
یہ کس نے خلدِ مدینہ کا ذکر چھیڑا ہے

مرے نبیؐ کی رعایا میں یہ رہے شامل
قلم اُنہیؐ کی غلامی کے پھول چنتا ہے

ثنائے مرسلِ آخرؐ کے جب اڑیں جگنو
دیارِ دل میں چراغاں سا ہونے لگتا ہے

ہر ایک ذرّے میں سورج طلوع ہوتے ہیں
ہر ایک ذرّہ یہاں روشنی میں بہتا ہے

جوارِ گنبدِ خضرا میں دیں جگہ اس کو
بدن سے ایک پرندہ حضورؐ نکلا ہے

مرا بھی چشمِ محبت پہ اختیار نہیں
ہزار ضبط کیا، آنسوؤں کو روکا ہے

ہوائیں جب بھی درود و سلام پڑھتی ہیں
افق افق پہ گلابوں کا مینہ برستا ہے

یہ کس نے اُنؐ کو سنائی ہے داستاں میری
ابھی ابھی مرے آنگن میں چاند اترا ہے

مرا خدا سرِ محشر بھی چشمِ تر دے گا
مراقبے میں مکرّر کسی نے سوچا ہے

ہزار بار بلائیں قلم کی لیں مَیں نے
ہزار بار محبت سے اِس کو چوما ہے

حضورؐ بردہ فروشوں کے خوف سے مَیں نے
تمام بچوّں کو کمرے میں بند رکھا ہے

مرے مکان پہ آکر نہ دستکیں دینا
ریاضؔ طیبہ کی ریشم گلی میں رہتا ہے