آبرو ہیں ہر تمدّن کی، شریعت کے چراغ- آبروئے ما (2014)

آبرو ہیں ہر تمدّن کی شریعت کے چراغ
تا ابد روشن رہیں گے نور و نکہت کے چراغ

جب چلے گی شرک کی آندھی سرِ شام و سحر
ہم قلم کے ہاتھ پر رکھیں گے وحدت کے چراغ

قادرِ مطلق کی ہم حمد و ثنا کرتے ہوئے
رکھ رہے ہیں ہر مصّلے پر عبادت کے چراغ

آپؐ کے کردار کی خوشبو تشخّص کا کمال
آپؐ کے نقشِ کفِ پا ہیں قیادت کے چراغ

آمدِ سرکارؐ کی ارض و سما میں دھوم ہے
آسماں پر جگمگا اٹھے ہیں قدرت کے چراغ

رُو سیہ مجھ سا کھڑا ہے آپؐ کی دہلیز پر
ذہن نے تخلیق کر ڈالے ہیں حیرت کے چراغ

نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں پھر دیکھ کر
جل اٹھے ہیں خود بخود لاکھوں ندامت کے چراغ

بے ضمیروں کا یہ سارا فلسفہ حرفِ غلط
ہاتھ میں جھوٹی انا کے ہیں اذیّت کے چراغ

ہر طرف توصیفِ ختم المرسلیںؐ کا تذکرہ
نعت میں روشن رہیں بزمِ رسالت کے چراغ

اکتسابِ نور کرتا ہوں کلامِ پاک سے
قبر میں بھی کام آئیں گے یہ مدحت کے چراغ

اپنے ماضی کو کہاں ڈھونڈے گا ناکارہ ضمیر
بیچ ڈالے کس نے آباء کی وراثت کے چراغ

سازشی ذہنوں میں ابھرے لاکھ تاریکی، مگر
بجھ نہ پائیں گے قیامت تک شہادت کے چراغ

اُسوۂ سرکارؐ سے نسبت اگر رکھتے ہو تم
بانٹنے نکلا کرو لوگوں میں خدمت کے چراغ

آدمی لڑتا رہے شامِ جہالت سے ریاضؔ
اس لئے طیبہ میں روشن ہیں مشیّت کے چراغ

کیا مقدّر سا مقدّر مَیں نے پایا ہے، ریاضؔ
چشمِ تر میں جلتے رہتے ہیں مؤدت کے چراغ