چراغاں کب ہوا تھا آمدِ سرکارؐ سے پہلے- آبروئے ما (2014)

چراغاں کب ہوا تھا آمدِ سرکارؐ سے پہلے
اندھیرا تھا جہاں میں آپؐ کے انوار سے پہلے

زمیں جھوٹے خداؤں کی عملداری میں شامل تھی
بشر آسودہ کب تھا سیّدِ ابرارؐ سے پہلے

تصّور چاند راتوں کا کہاں تھا ذہنِ انساں میں
ستارے مضطرب تھے احمدِ مختارؐ سے پہلے

حجازِ عشقِ پیغمبرؐ میں رہنا ہے تو پھر لوگو!
اتارو داغ دھبے سیرت و کردار سے پہلے

مدینے کی طرف ہی کیا رواں ہے کارواں اپنا
یہ سب کچھ پوچھ لینا تھا علم بردار سے پہلے

فقط دعویٰ محبت کا کہاں تسلیم ہوتا ہے
غلامی کی خریدو ہتھکڑی بازار سے پہلے

فلک قدموں کو پلکوں پر سجا کر رقص فرمائے
ملائک باوضو ہوں آپؐ کے دیدار سے پہلے

وہ بچّے جن کے ہاتھوں کے ہوائیں بوسے لیتی ہیں
کھجوریں بانٹنے نکلے ہیں پھر افطار سے پہلے

چلو گے کیا ہمارے ساتھ تم طیبہ کی گلیوں میں
کسی نے آج تک پوچھا؟ در و دیوار سے پہلے

خدا سے ہمکلامی کا شرف سرکارؐ نے پایا
زباں پر پھول کھلتے تھے زرِ گفتار سے پہلے

وضو کر لے مری چشمِ ادب اشکوں کے پانی سے
اٹھو خلدِ مدینہ کے ملو آثار سے پہلے

تمہاری ہر دعا کو دے خدا موسم کی شادابی
علاجِ غم ہے کیا؟ پوچھو‘ کبھی بیمار سے پہلے

ہزاروں تختیوں پر نعت کے اشعار لکھوّں گا
ہَوس کا زنگ تو اترے مرے افکار سے پہلے

ریاضِؔ خوشنوا رہتا ہے خوش مدحت نگاری میں
چھَپی ہے نعت دل پر‘ آج کے اخبار سے پہلے