گنبدِ خضرا کا ہے عکسِ منَّور رو برو- آبروئے ما (2014)

گنبدِ خضرا کا ہے عکسِ منَّور رو برو
اس لئے رہتی ہے چشمِ تر ہمیشہ باوضو

مَیں اندھیروں کے کسی بھی نام سے واقف نہیں
نعتِ ختم المرسلیںؐ ہے روشنی کی آبجو

کون رکھتا ہے بھرم میری غریبی کا حضورؐ
نعت کرتی ہے مرے چاکِ گریباں کو رفو

ہر گھڑی رہتے ہیں مصروفِ ثنا دیوار و در
ان گنت سجدوں سے ہے آباد شہرِ آرزو

کون محبوبؐ خدا ہے؟ کون مقصودِ حیات؟
کون ہے آقاؐ کے چہرے سے زیادہ خوبرو؟

صاحبِ قرآںؐ بھی ہیں وہ صاحبِ لولاکؐ بھی
کون ہے اُنؐ کے سوا ہر بے نوا کی آبرو؟

پیکرِ لطف و عطا ہیں، پیکرِ رحم و کرم
آپؐ ہی کی روشنی پھیلی ہوئی ہے چار سو

حشر کی گرمی میں مرجھاتی نہیں شاخِ قلم
گل کو رکھتی ہے سدا تازہ ہوائے مشکبو

اُنؐ کے قدموں کا ہے دھوون بہتر از آبِ حیات
اُنؐ کے قدموں کا تصّدق ہے جہانِ رنگ و بو

میرے بچوّں کو عطا ہو پرچمِ خیبر شکن
ہر گلی کے موڑ پر ہے خیمہ زن میرا عدو

آپؐ کے در پر حضوری کی دعا کرتے ہوئے
ایک بندہ اپنے خالق سے ہے محوِ گفتگو

علم سے اعمال تک ہر سو ادھورے آدمی
سرد خانوں میں پڑا ہے منجمد کب سے لہو

مانگ ہے اجڑی ہوئی میرے گلستاں کی، حضورؐ
بانجھ پن کی زد میں ہے مدت سے ہر شاخِ نمو

آرزوئے نکہتِ اسمِ محمدؐ میں ریاضؔ
خوشبوؤں کے قافلے پھرتے رہیں گے کو بکو