طلوعِ فجر- طلوع فجر (2014)

1

افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا پیام ہے کہ خدا صرف ایک ہے
خالق ہے سب کا، سب کا ہے روزی رساں بھی وہ
جس نے فلک پہ چاند ستارے سجائے ہیں
جس نے اُفق اُفق پہ بکھیری ہے کہکشاں
جس نے سمندروں کو عطا کی ہے زندگی
جس نے کھلائے شاخِ سخن پر چمن ہزار
پیدا کیے ہیں جس نے دھنک، چاندنی، ہوا
پانی کی چھاگلوں سے بھرا دامنِ سحاب
تسخیرِ کائنات کے کھولے ہیں جس نے دَر

ہر چیز سجدہ ریز ہے اُس کی جناب میں
وہ بولتا ہے آج بھی اُم الکتاب میں

2

افلاک پر ہے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا خدا، خدائے رحیم و کریم ہے
جس کی عنایتوں کا نہیں ہے کوئی شمار
اذنِ سفر ہواؤں کو دیتا ہے رات دن
دامانِ آرزو میں سجاتا ہے وہ گلاب
ہر سانس اُس کے قبضۂ قدرت میں ہے مری
اپنی تمام خلق پہ وہ مہربان ہے
اُس کی نہ ابتدا ہے کوئی اور نہ انتہا
جاری ہے اُس کی حمد لبِ کائنات پر
روزِ جزا کا مالک و مختار ہے وہی

معبود کوئی اور سوائے خدا نہیں
کوئی مرے نبیؐ کے خدا سے بڑا نہیں

3

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن پر خدا بھی بھیجتا ہے ہر گھڑی درود
سارے ملائکہ کا وظیفہ بھی ہے یہی
جن کے حصار رحمت و الطاف میں ریاضـؔ
میرا بدن ہے جرعۂ شبنم بنا ہوا
جن کے سپرد حشر تلک سب قیادتیں
صادق بھی ہیں، امین بھی، میرے وہی رسولؐ
روزِ ازل سے منبر و محراب میں، حضورؐ
کرنیں لٹا رہے ہیں ہدایت کے نور کی
مقصودِ کائنات ہیں اللہ کے وہ حبیبؐ

اپنے قلم سے نعتِ پیمبرؐ لکھا کروں
اپنی زباں سے ذکرِ محمدؐ کیا کروں

4

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تکمیلِ شخصیت کا ہیں جو آخری نصاب
جن کی کوئی مثال نہ کل تھی نہ آج ہے
تا حشر ہے جواب نہ جن کے کمال کا
جن کے وجود سے شرف انساں کا ہے بحال
روئے زمین پہ جو بشرِ بے مثال ہیں
جن کی نظیر ارض و سما میں کوئی نہیں
تخلیق کارِ اول و آخرف کا شاہکار
میرے حضورؐ، میرے پیمبرؐ، مرے نبیؐ
سردارِ کائناتؐ کی خلعت انہیں ملی

اُنؐ کے درِ خلوص پہ جھکتی ہے کائنات
اسوہ مرے حضورؐ کا ہے باعثِ نجات

5

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر چیز جن کے دستِ تصرف میں دی گئی
رحمت بنا کے دہر میں بھیجا گیا جنہیں،
جاری ہے جن کے نقشِ قدم پر ابھی سفر
جو آگہی کا آخری روشن چراغ ہیں
قرآن جن کی ذات پہ نازل کیا گیا
معراجِ مصطفیؐ کا تصدق ہے، ہمسفر!
انسان عظمتوں کے سفر پر رواں ہوا
مجھ سے کہا ہے شاخِ ازل کے گلاب نے
آقائے محتشمؐ کا تصوّر بھی روشنی

اُنؐ کے سوا کرم کا کوئی سائباں نہیں
میرے برہنہ سر پہ کوئی آسماں نہیں

6

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے لیے ملائکہ پڑھتے ہوئے درود
اتریں فلک سے شام و سحر، روزِ حشر تک
کنکر عدد کے ہاتھ میں پڑھتے ہیں لا اِلہ
انگلی اٹھے تو چاند بھی آجائے وَجد میں
جن کا وجود سایہ ہے ہر اک وجود پر
عنوان زندگی کا ہیں میرے وہی حضورؐ
اُنؐ کے کرم کے پھول کھلے ہیں روش روش
تقدیس و احترام کے ہر پیرہن میں آپؐ
جلوہ فروز مسندِ ارشاد پر ہوئے

آنکھیں طوافِ گنبدِ خضرا کیا کریں
آبِ خنک حضورؐ کے در سے پیا کریں

7

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سکّہ چلے گا جن کی قیادت کا تا ابد
جن کے لیے سجائی گئی بزمِ کائنات
جن کے لیے ہوائیں ادب سے چلا کریں
محبوبیت کی خلعتِ تحسین میں حضورؐ
تقسیم کررہے ہیں اُجالے نفس نفس
ہر ذی نفس پہ آپؐ کی تعظیم فرض ہے
حسن و جمال جن کا بنا محورِ سخن
جن کا ہے آسمانی صحائف میں تذکرہ
تشریف آج لاتے ہیں میرے وہی حضورؐ

ہر خیر کا عمل ہے شریعت حضورؐ کی
ہے حشر تک، ریاضؔ، حکومت حضورؐ کی

8

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
حکمِ خدا سے، ظلم و ستم کے غبار میں
حوّا کی بیٹیوں میں جو بانٹیں گے زندگی
نافذ نظامِ عدل کریں گے زمین پر
گرتے ہوئے بشر کا سہارا بنیں گے آپؐ
فرمانِ مصطفیؐ کے مطابق یہ طے ہوا
تقویٰ فضیلتوں کی ہے بنیاد حشر تک
تعلیم جن کی ہے سرِ لوح و قلم یہی
ارضِ خدا پہ خوفِ خدا حکمراں بنے
جن کی کوئی مثال نہ جن کی کوئی نظیر

آقا حضورؐ رحمتِ پروردگار ہیں
گلزارِ زندگی میں ازل کی بہار ہیں

9

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو آگہی کا نور بکھیریں گے حشر تک
خاکِ درِ حضورؐ کی اترن ہے کہکشاں
دھوون ہے، اُنؐ کے نقشِ قدم کا، دھنک کے رنگ
زندہ مرے رسولؐ ہیں، زندہ ہے اُنؐ کا نام
تقدیس و احترام نگاہِ ادب میں ہے
محتاج ہم ہیں جن کے وسیلے کے ہر گھڑی
قندیلِ مصطفیؐ کا اجالا سحر میں ہے
پرچم کھُلا رہے گا شفاعت کا حشر تک
اُنؐ کے قدم قدم کا تصدق ہے زندگی

میرا قلم حضورؐ کے در پر پڑا رہے
کرنوں کا پھول بن کے ورق پر کھلا رہے

10

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر دلکشی ہے جن کے تکلم کا پیرہن
ہر حسن جن کے نقشِ کفِ پا کی دھول ہے
ثانی نہیں ہے جن کا رسولوں میں بھی کوئی
تقلید جن کی باعثِ اذنِ نجات ہے
بعد از خدا حضورؐ ہی سب سے قدیم ہیں
وہ عالمی افق پہ ستارا ہیں خیر کا
ذکرِ جمیل اُنؐ کا ہے ام الکتاب میں
تخلیقِ لازوال ہیں پروردگار کی
ہر دور کی ریاضؔ، قیادت بھی آپؐ ہیں

آدم کی نسل کا قد و قامت حضورؐ ہیں
اور امنِ دائمی کی ضمانت حضورؐ ہیں

11

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رحمت ہے جن کی ارض و سماوات پر محیط
جن و بشر، ملائکہ جن کو کریں سلام
تکریم جن کی فرض ہے ہر ایک چیز پر
جن کے قدم سے آج بھی روشن ہے کائنات
جنت بنی ہے جن کے غلاموں کے واسطے
اصحابؓ جن کے شہرِ عمل کی ہیں روشنی
جن کو ملے گا اذن شفاعت کا حشر میں
محمود ہے مقام اُنہیؐ کے عروج کا
محشر طلوعِ مہرِ محبت کا نام ہے

برگِ نجات شاخِ کرم پر کھلا رہے
میرا بھی سلسلہ اسی در سے ملا رہے

12

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
کردار جن کا نکہتِ گلزارِ ہست و بود
ارض و سما ہیں جن کے شمائل کی روشنی
جن کے درِ عطا سے ازل تا ابد سدا
انسانیت کا چشمۂ رحمت رواں ہوا
خوفِ خدا ہے جن کے فرامین کا نچوڑ
ہر سانس جن کے اسمِ منّور سے فیض یاب
جن کے طفیل ارضِ بشر رشکِ صد ارم
قندیل عافیت کی فروزاں اُنہیؐ سے ہے
اک کیفِ سرمدی ہے ثنائے رسولؐ میں

اک جشن سا بپا مرے لوح و قلم میں ہے
ہر سانس اُنؐ کے حیطۂ ابرِ کرم میں ہے

13

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مخلوقِ کرد گار میں جو لا شریک ہیں
محبوبیت میں جن کے برابر نہیں کوئی
ارض و سما ہیں جن کی غلامی پہ مفتخر
جن کو ازل ابد کی حکومت عطا ہوئی
ملبوس معجزات کی چادر میں آپؐ ہیں
ہر سانس اُنؐ کی ضامنِ نقاشئی حیات
موسم بہار کا ہے تصدق حضورؐ کا
حسن و جمال جتنا بھی ارض و سما میں ہے
خیرات ہے حضورؐ کی نعلینِ پاک کی

ہم پر کرم ہے کتنا خدائے رحیم کا
بابِ عطا کھلا ہے رسولؐ کریم کا

14

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
نسبت ہے جن کی سارے حوالوں سے معتبر
قرآن جن کی نعتِ مسلسل کی ہے مثال
فرمان ہے حضورؐ کا فرمان آخری
ام الکتاب جن کے محاسن کا آئینہ
سردارِ شش جہات ہیں میرے وہی حضورؐ
ہر سمت اُنؐ کی نکہتِ انفاس کا جمال
وہؐ افتخارِ نوعِ بشر، حسنِ آرزو
روزِ ازل سے وسعتِ کون و مکاں میں ہے
چرچا مرے حضورؐ کے حسن و جمال کا

میرے حضورؐ صاحبِ لطفِ عمیم ہیں
کون و مکاں میں نائبِ ربِّ کریم ہیں

15

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے تمام لفظ ہیں چشمے علوم کے
تاریخ جن کے نقشِ قدم پر ہے گامزن
وہؐ ارتقا کی آخری منزل کی آرزو
ساری بشارتوں کا وہی مرکزِ سخن
سارے تمدنوں کی تمنا حضورؐ ہیں
ساری بصیرتوں کا وہی نقطۂ کمال
ساری بصارتوں کا وہی حسنِ دلنشیں
سورج کرے حضورؐ کی دہلیز کو سلام
خوشبو پڑی رہے درِ آقاؐ پہ آج بھی

سردارِ کائناتؐ کا بے حد ادب کرو
اللہ سے مصطفی کا وسیلہ طلب کرو

16

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر انقلاب جن کی قیادت کے واسطے
ارضِ دعا پہ چشمِ تمنا بچھائے ہے
اس کو ازل سے اُنؐ کے تمدن کی ہے تلاش
اُنؐ کے لیے ہوائیں ادب سے کھڑی رہیں
اُنؐ کا وجود باعثِ تسکینِ قلب و جاں
لکھنے لگا ہوں آپؐ کی توصیف آج بھی
بادِ صبا گلاب بکھیرے سرِ قلم
ہر حسن اُنؐ کی راہ گزر میں ہے منتظر
آئیں حضورؐ اُنؐ کے قدم چوم چوم کر

محشر تلک مَیں اپنا مقدر سنوار لوں
خود کو نقوشِ پائے نبیؐ میں اتار لوں

17

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خلعت ملی ہے جن کو درود و سلام کی
جن کو ردائے عفو و کرم بھی عطا ہوئی
نقشِ جمیل جن کا ہے معراجِ آرزو
وہؐ آگہی کے سرمدی پیراہنوں میں ہیں
نوعِ بشر کو دیں گے ہدایت کی روشنی
کشتِ عمل میں خیر کے سورج اگائیں گے
اک انقلاب لائیں گے رحمت کا آپؐ ہی
حوّا کی بیٹیوں کو ملے گی برابری
انسان کے حقوق کا ہوگا علَم بلند

رعنائیِ خیال طوافِ قلم کرے
تشنہ لبوں پہ اسمِ گرامی رقم کرے

18

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر چیز جن کے حیطۂ دستِ عطا میں ہے
تخلیقِ کائنات سے تخلیقِ حشر تک
آمد یہ اُنؐ کی سب سے بڑا واقعہ تو ہے
داعی ہیں امنِ دائمی کے حشر تک وہی
اُنؐ کے لیے بنائی گئی بزمِ رنگ و بو
اُنؐ کے لیے خدا نے مسخر کئے جہاں
اُنؐ کے لیے فلک پہ جلائے گئے چراغ
اُنؐ کے لیے قلم کو ملا آگہی کا نور
؎اُنؐ کے لیے زمیں کو مصوّر کیا گیا

روشن ہر ایک سَمت ہے چہرہ حضورؐ کا
ہر حسنِ کائنات ہے صدقہ حضورؐ کا

19

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سورج طلوع جن کا ہوا ہے افق افق
ظلماتِ کفر و شرک کے بادل چھٹے تمام
ارض و سما کا مالک و مختار ہے خدا
وہ لا شریک ساری خدائی کا حکمراں
آقا حضورؐ اُس کے رسولوں کے ہیں رسولؐ
عظمت کا تاج ہے سرِ اقدس پہ ضوفشاں
ساری بلندیاں درِ عالی کی دُھول ہیں
معراج ہم غلاموں کی اُنؐ کا درِ عطا
چشمہ رواں ہے اُنؐ کے کرم کا ابد تلک

ہر احترام ہے مرے آقاؐ کے واسطے
سب اہتمام ہے شہِ بطحاؐ کے واسطے

20

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی جبینِ پاک میں ہے بندگی کا نور
جن کا مقام عرشِ معلی سے بھی پرے
جن کا وجودِ پاک ازل سے ہے محترم
خلدِ بریں ہے جن کے غلاموں کی منتظر
جن کے ریاضؔ، دامنِ صد رنگ میں کھلے
حکمِ خدا سے لاکھوں مہکتے ہوئے گلاب
آقاؐ مرے وہ جن کا تصوّر ہے چاندنی
سرکار کے وسیلۂ اقدس سے ہم نفس
توبہ قبول حضرتِ آدمؑ کی بھی ہوئی

ننگے سروں پہ سایۂ رحمت خدا کرے
مجھ کو ہنر ثنائے نبیؐ کا عطا کرے

21

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے درِ عطا کی سلامی کے واسطے
طیبہ میں تتلیوں نے نشیمن بنائے ہیں
کلیوں نے شاخ شاخ پہ آنچل بچھائے ہیں
قوسِ قزح نے رنگ سخن کے لٹائے ہیں
خوشبو نے جام آبِ خنک کے لنڈھائے ہیں
شبنم نے موتیوں کے سمندر بہائے ہیں
بادِ صبا نے حرفِ تمنا سجائے ہیں
صلِّ علیٰ کے پھول غزل نے کھلائے ہیں
پلکوں نے جھک کے نقشِ کفِ پا اٹھائے ہیں

جگنو کتابِ شوق کے الٹیں ورق تمام
از بر ہوں زندگی میں عمل کے سبق تمام

22

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا کرم محیط ہے ہر ایک عہد پر
جن کا علَم ازل سے ابد تک ہے پرفشاں
جن کا وجودِ پاک ہے ہر چیز کی سند
جن کی برابری کا بھی دعویٰ غلط، غلط
ہر دور اُنؐ کی نسبتِ نوری سے مستنیر
ہر اعتبار اُنؐ کے درِ پاک کی عطا
ہر دور کو ہے دامنِ سرکارؐ کی طلب
ہر دور کی، ریاضؔ، ضرورت حضورؐ ہیں
ہر دور اُنؐ کے حیطۂِ لطف و کرم میں ہے

ہر ذرّہ کائنات کا ہونٹوں کو وا کرے
میرے لیے حضورؐ کے در کی دعا کرے

23

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر حسن جن کے حسنِ تکلم کی آبرو
ہر روشنی ہے جن کے تبسم میں جلوہ گر
ہر آگہی ہے جن کے تخیّل کا عکسِ نو
جن کے درِ نجات کو بوسہ دیئے بغیر
میرے لیے تو سانس بھی لینا محال ہے
دامانِ اشکِ چشمِ تمنا میں آج بھی
روضے کی جالیوں کا تبسم ہے موجزن
کس نے لکھا ہے اسمِ گرامی سرِ ورق
اُنؐ کی ثنا کے پھول لبوں پر کھلے رہیں

قندیلِ آرزو مرے دل میں جلی رہے
روشن حریمِ ذہن میں اُنؐ کی گلی رہے

24

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
چوکھٹ پہ جن کی ہے مہ و انجم کا جمگھٹا
جن کے طفیل ارض و سما میں ہے روشنی
مقصودِ کائنات ہے جن کا وجودِ پاک
جن کے بغیر ارض و سما کا نہیں وجود
سردارِ کائناتؐ ہیں تخلیقِ لنشیں
اُنؐ کا خدا ہے اُنؐ کا محافظ ابد تلک
اُنؐ کو عطا ہوا ہے نصابِ نظامِ صبح
ذکرِ نبیؐ حرارتِ قلبِ ریاض ہے
پرچم ہے عافیت کا فضاؤں میں زر فشاں

ہر روشنی ہے نورِ مجسم کی ذات میں
انسان مطمئن رہے راہِ نجات میں

25

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مہکے ہیں جن کے دامنِ صد رنگ میں گلاب
کب سے کھڑی ہے در پہ فضاؤں کی دلکشی
وہؐ امنِ دائمی کی ہیں سب سے بڑی دلیل
وجہِ سکونِ قلبِ پریشاں بھی آپؐ ہیں
اُنؐ کا مقام عرشِ معلی پہ ہے ریاضؔ
روئے زمیں پہ اُنؐ کی نہیں ایک بھی مثال
روشن چراغ بن کے ہیں آئے مرے حضورؐ
میلاد کی یہ صبحِ درخشاں تھی، جب ہوا
کہنے لگی حضورؐ کی آمد پہ جھوم کر

سرکارؐ ہر بشر کو خدا سے ملائیں گے
کاغذ کی کشتیوں کو بھی ساحل دکھائیں گے

26

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر انقلاب جن کے تلاشے گا نقشِ پا
ہر فلسفہ حیات کا ہے جن کا خوشہ چیں
الجھے ہوئے خیال کی گرہیں بھی کھول دیں
وہم و گماں کے دامنِ صد چاک چاک میں
کلیاں یقین و عزم کی مہکی ہیں ان دنوں
میرے حضورؐ محسنِ انسانیت بھی ہیں،
میرے حضورؐ سارے زمانوں کی روشنی
میرے حضورؐ عالمِ بالا کے ہیں سفیر
ہیں درگذر پہ ہر گھڑی مائل مرے حضورؐ

ابرِ کرم حضورؐ کا برسا ہے آج بھی
روشن دلوں میں آپؐ کا چہرہ ہے آج بھی

27

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تعمیر جو کریں گے محبت کے قَصر کو
اپنے عمل سے لکھیں گے تاریخِ ارتقاء
تحریرِ بے مثال ہیں لوحِ جمال کی
ہر عہد میں چراغ جلائیں گے عِلم کے
وہ جستجو کو کشتِ تمنا میں بوئیں گے
کتنا میں خوش نصیب ہوں اے کلکِ بامراد
لکھتا ہوں مَیں بھی سرورِ کونینؐ کی ثنا
نسبت مجھے بھی مرسلِ کون و مکاںؐ سے ہے
ادنیٰ سا اک غلام ہوں مَیں اہلِ بیت کا

میرا یہ افتخار گدا مصطفیؐ کا ہوں
توصیف گر مَیں ہادیٔ ارض و سما کا ہوں

28

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو عطا ہوئیں شبِ اسریٰ کی عظمتیں
سدرہ نے جن کے نقشِ کفِ پا کو حشر تک
اپنی جبینِ شوق کا جھومر بنا لیا
جن کی بلندیوں کی کوئی حد ہے نہ حساب
جن کے مقام و مرتبہ کا ذکر کیا کروں
میری زبانِ عجز جھکی ہے جھکی رہے
میرے قلم کو اپنی ہے اوقات کا بھی عِلم
لیکن مرے خدا مری پہچان نعت ہو
طالب نہیں ریاضؔ کسی اور چیز کا

جتنے بھی لفظ درج کتابِ ثنا میں ہیں
شامل ازل سے تشنہ لبوں کی دعا میں

29

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آدمؑ سے لے کے حضرتِ عیسیٰؑ کے دور تک
سب انبیاء نے آپؐ کی آمد کی دی خبر
مطلوب اُنؐ کی عظمت و توقیر ہے اُسے
اُنؐ کے لیے زمیں کو ہے مسجد بنا دیا
میرِ اممؐ کو خلعتِ صد احترام میں
مبعوث سر زمینِ عرب پر کیا گیا
اشکوں کے پھول دامنِ صد چاک میں لیے
آیا ہے ایک شاعرِ گمنام، یاخدا
حرفِ ثنا ہیں جس کے لبوں پر سجے ہوئے

مولا، حضورؐ ہیں، مرے آقا حضورؐ ہیں
نبیوں میں سب سے افضل و اعلیٰ حضورؐ ہیں

30

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بانٹیں گے جو یقین کی دولت نفس نفس
احسان کے چراغ جلا کر قدم قدم
آدم کی نسل کو نیا رستہ دکھائیں گے
وحدانیت کے جس پہ ہیں روشن دیے ہزار
فکر و نظر میں رنگ بکھیرے گی روشنی
دی ہے صدا یہ ہاتفِ غیبی نے آج بھی
کہہ دیجئے کہ کوئی برابر نہیں مرے
شہ رگ سے بھی قریب ہوں ہر لمحہ ہر گھڑی
میرے سوا نہیں کوئی معبود آپؐ کا

سرکارؐ کے بلند خدا نے علَم کیے
روشن قدم قدم پہ نقوشِ قدم کیے

31

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا عمل ازل سے ابد تک کا ہے نصاب
جن کے نقوشِ پا کی بہاریں ہیں ہر طرف
لوحِ یقیں پہ برسی ہے امشب بھی چاندنی
امشب بھی آنکھ بہر سلامی جھکی رہی
امشب بھی میری چشمِ تمنا نے لب بہ لب
رکھے ہیں حرفِ نعتِ شہِ مرسلاں کے پھول
اس میں گھلی ہوئی ہے سلاموں کی نغمگی
اُنؐ کی ثنا کے چاند ستارے لیے ہوئے
کلکِ ریاضؔ ہے درِ عالی پہ سرنگوں

حکمِ خدا اساس ہے نعتِ رسولؐ کی
خوشبو ہے حرف حرف میں طیبہ کے پھول کی

32

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
حرفِ عروج جن کے مراتب کا خوشہ چیں
جن کے مقام و مرتبہ کو کیا سمجھ سکے،
کوئی بشر جو الجھا ہوا رہگذر میں ہے
اپنے بدن کی بھول بھلیوں میں جو ہے گم
مفہومِ زندگی سے بھی جو آشنا نہیں
قرآں کی آیتوں میں محاسن حضورؐ کے
اُنؐ کے خدا نے درج کئے ہیں ورق ورق
اُنؐ کا ہے ذکر اُنؐ کے خدا نے کیا بلند
تعظیمِ مصطفیٰؐ کا ہمیں حکم ہے دیا

جلتی رُتوں میں جامِ محبت پیا کرو
ہر وقت اُنؐ کا اسمِ گرامی لیا کرو

33

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
افلاسِ نامراد کے اجڑے دیار میں
آسودگی کا موسمِ دلکش جو لائیں گے
ہر جبرِ ناروا کا مٹائیں گے جو نشاں
بنجر زمیں میں پھول کھلیں گے گلاب کے
آبِ خنک سے کوہ و دمن ہوں گے فیض یاب
میلادِ مصطفیٰؐ کے تصدق میں ہم نفس
ارض و سما کو نور کی چادر عطا ہوئی
خوشبو کا پیرہن ہے ملا شاخ شاخ کو
آبِ شفا کے لاکھ سمندر ابل پڑے

لب احترام سے مرے دونوں ملے رہیں
سانسوں میں پھول صلِّ علیٰ کے کھلے رہیں

34
؎
افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بچپن بھی جن کا عدل کی روشن مثال ہے
شاداب ساعتیں ہیں ازل ہی سے ہمرکاب
ہر لمحہ ہر گھڑی مرے آقاؐ پہ پڑھ درود
پتھر سلام کرنے کو بے تاب تھے بہت
تھا موسموں کو حکم خدائے رحیم کا
بادل مرے رسولؐ پہ سایہ کیا کرے
آنکھوں میں عصبیت کے اندھیرے تھے موجزن
ورنہ عدو جنابِ رسالت مآبؐ کے
یہ جانتے تھے مرسلِ آخرؐ ہیں آپؐ ہی

ہر دور میں ہے زندہ شریعت حضورؐ کی
اب حشر تک رہے گی قیادت حضورؐ کی

35

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے ہر ایک نقش کی تعظیم کے لیے
بنجر زمیں پہ بادِ خنک خیمہ زن ہوئی
جھولا ملائکہ بھی جھلاتے تھے آپؐ کا
آقا حضورؐ کا تھا کھلونا یہ ماہتاب
آغوش میں حلیمہ نے سرکارؐ کو لیا
حاجت رہی نہ دیپ جلانے کی پھر اُسے
دستِ عطا حضورؐ کا دستِ شفا بھی ہے
سایہ فگن ہیں رحمتیں ذاتِ حضورؐ پر
اُنؐ کی بلندیوں کا کروں تذکرہ مَیں کیا

سنجیدگی کا نور تھا بچپن سے ہمرکاب
تہذیب ہورہی ہے کفِ پا سے فیض یاب

36

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
فریاد جن سے کرتے تھے مظلوم جانور
ہر پیڑ جن کے حکم کا پابند تھا ریاضؔ
ہر شاخ جن کو جھک کے کیا کرتی تھی سلام
اتنا شعور اُڑتے پرندوں کو تھا ضرور
سب کے لیے حضورؐ کی رحمت ہے مضطرب
ادراک تھا حضورؐ کی عظمت کا بھی انہیں
وہ جانتے تھے آپؐ ہیں سردارِ کائناتؐ
وہ جانتے تھے آپؐ کرم کا ہیں سائباں
وہ جانتے تھے آمنہؓ کے لالؐ ہیں عظیم

ہر فلسفہ غلط ہے جہانِ فتور کا
اک معتبر فقط ہے حوالہ حضورؐ کا

37

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر سانس جن کی بخشش و رحمت کا ہے جواز
ہو گا صدور آپؐ ہی سے معجزات کا
ہر لمحہ اُنؐ کی عمرِ مقدّس کا محترم
اُنؐ کی حیاتِ پاک ہے تفسیر نور کی
میرے رفیق! معجزۂ شقِّ صدر سے
روشن ہوئے تھے سینۂ اقدس میں آفتاب
آقاؐ مرے، حضورؐ مرے، شامِ حشر تک
اپنے عمل سے قریۂ فسق و فجور میں
روشن کریں گے دانش و برہان کے چراغ

سجدے میں گر کے نام خدا کا لیا کرو
پھر کلکِ لب سے اسمِ محمدؐ لکھا کرو

38

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اوصاف جن کے حاصلِ تحریرِ آسماں
اعمال جن کے رشکِ گلستانِ آرزو
کردار جن کا باعثِ تقلیدِ ہر بشر
ہر لمحہ معجزاتِ خدا کا امین ہے
اُنؐ کی دعا پہ ابرِ کرم جھوم کر اٹھا
بنجر زمین، پیاس کی ماری ہوئی زمیں
میرے نبیؐ کے حرفِ دعا کی تھی منتظر
مَیں حرفِ التجا ہوں خداوندِ دوجہاں!
صدقے میں اُنؐ کے میری دعائیں قبول ہوں

ہر حسن میں ریاضؔ شمائل اُنہیؐ کے ہیں
ہر حرفِ معتبر میں فضائل اُنہیؐ کے ہیں

39

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
باطل کا ہر نشاں جو مٹائیں گے دہر سے
خود ساختہ خداؤں کی جھوٹی خدائی پر
کاری لگا کے ضربتیں، نافذ کریں گے عدل
انسان کو نجات کا رستہ دکھائیں گے
اُنؐ کے جمال و حسن کے انوار سے ریاضؔ
روزِ ازل سے قریۂ شب میں ہے روشنی
کرنوں کے پھول شاخِ دعا پر کھِلے ہزار
اُنؐ کا وجودِ پاک جوازِ حیات ہے
اُنؐ کا خیال گرمیٔ بازارِ آرزو

میرے حضورؐ پیکرِ عشقِ خدا بھی ہیں
آقاؐ ازل سے رونقِ ارض و سما بھی ہیں

40

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے حریمِ لطف و عطا میں ہے ہر نفس
جن کے نقوشِ پا کا تصدق ہے زندگی
جن کے حصارِ نطق میں ہر حسنِ گفتگو
جن کے نفس نفس پہ مقرر ہے کہکشاں
اوجِ فلک بھی جن کے قدم پر نثار ہے
ہستی ہے جن کی ارضِ دل و جاں میں بے مثال
ہوش و خرد ہیں جن کی غلامی پہ مفتخر
وحدانیت کے نور سے معمور ہر عمل
اسمِ حضورؐ اسمِ خدا کے ہے ساتھ ساتھ

شامل نماز میں مرے آقاؐ کا نام ہے
اُنؐ پر کروڑوں بار درود و سلام ہے

41

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو ابتدائے حسن و جمال و کمال ہیں
جو انتہائے حسن و جمال و کمال ہیں
جو عظمتِ بشر کا بھی ہیں نقطۂ عروج
اسوہ ہے جن کا حشر تلک باعثِ نجات
کھِلتے ہیں جن کی راہ گذر میں کرم کے پھول
سردار انبیاء کے ہیں سردارِ کائناتؐ
مصدر ہے شش جہات کا جن کا وجودِ پاک
رحمت لقب ہے جن کا ازل سے ابد تلک
جن کی برابری کا تصور بھی کفر ہے

وہ شاہکارِ ربِ علیم و قدیم ہیں
مخلوقِ کردگار میں سب سے عظیم ہیں

42

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
چرچا ہے آسمانوں میں جن کے ظہور کا
روزِ ازل سے منتظر ہے اُنؐ کی کائنات
جن کے وجودِ پاک کی تعظیم کے لیے
خوشبو چراغ لے کے کھڑی ہے قدم قدم
تخلیقِ کائنات کا باعث ہے اُنؐ کی ذات
میثاق ایک محفلِ میلاد ہی تو ہَے
سرکارؐ کے ظہور کا مژدہ لیے ہوئے
صلِّ علیٰ کے حیطۂ انوارِ سبز میں
سارے رسولؑ شاہدِ عادل بنے رہے

میلاد مصطفیٰؐ تو دلوں کی بہار ہے
ہر عید اس بہارِ ازل پر نثار ہے

43

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل ہوتی ہے سب کی دعا قبول
جن کا اگر وسیلۂ رحمت نہ ہو تو پھر
ممکن نہیں رسائی درِ کردگار تک
ممکن نہیں گلاب سرِ شاخ پھر کھلیں
ممکن نہیں ہو قَصرِ تمنا میں روشنی
ممکن نہیں چراغ جلیں رہگذار میں
ممکن نہیں نجات کا دروازہ کھل سکے
ممکن نہیں فلک پہ ستارے کریں ہجوم
ممکن نہیں یقین کی اترے دھنک کہیں

جو کچھ ملا ریاضؔ ملا آپؐ کے طفیل
ہر ہر قدم پہ پھول کھلا آپؐ کے طفیل

44

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
داعی ہیں انقلاب کے جو عہدِ جبر میں
فکر و نظر کو دیں گے وہ جامہ شعور کا
فرسودگی خیال کی رخصت عمل سے ہو
قندیل آرزو کی دلوں میں جلا کے آپؐ
تاریکیوں کو ارضِ خدا سے مٹائیں گے
خیرالبشر حضورؐ ہیں، خیرالوریٰ حضورؐ
ہر دورِ انحطاط میں دیں گے نیا نصاب
کرنوں کے پھول دامنِ دل میں سمیٹ کر
اُنؐ کی گلی میں شوق سے سورج کرے قیام

مہکا ہَے لب پہ اسمِ گرامی حضورؐ کا
موسم کھُلا ہے آج بھی کیف و سرور کا

45

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تاریخ جن کے نقشِ قدم چومتی رہے
ہر شخص جن کے اسوۂ حسنہ کے نور سے
تا حَشر اپنے دل میں اجالا کیا کرے
آمد ہَے اُس رسولِ معظمؐ کی آج رات
جس کے وجودِ پاک کا صدقہ ہَے زندگی
آؤ کہ اُس رسولؐ کی باتیں کریں ہزار
آؤ کہ چشمِ تر کے ابھی ہاتھ تھام لیں
آؤ کہ ہو ہوائے مدینہ سے گفتگو
راہیں سجی ہوئی ہیں مدینے کی ہمسفر!

روزِ ازل سے ہَے جو کھڑی انتظار میں
پلکیں بچھائیں ہم بھی اُسی رہگذار میں

46

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رحمت کی شال جن کے ہَے شانوں پہ مفتخر
چرچا ہَے جن کے عفو و کرم کا نفس نفس
جن کے تمام نقشِ قدم کہکشاں بنے
ضرب المثل ہیں اُنؐ کی عطاؤں کی بارشیں
حسنِ سلوک اِنؐ کا ہَے اوجِ کمال پر
وہؐ عافیت کی چادرِ رحمت لیے ہوئے
مخلوقِ کردگار میں آسودگی کا کیف
تقسیم کررہے ہیں ازل سے افق افق
یہ رات تو حضورؐ کی آمد کی رات ہے

اس رات کی جبیں پہ ستارے سجایئے
گھر گھر چراغ عشقِ نبیؐ کے جلایئے

47

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو ازل سے چادرِ رحمت عطا ہوئی
جن کو تصرّفات کا حق بھی دیا گیا
تقسیم کر رہے ہیں خدا کی وہ نعمتیں
خالی درِ حضورؐ سے لوٹا نہیں کوئی
اُنؐ کا درِ عطا ہَے غلاموں کی آرزو
مَیں بھی ضرور تھام کے چوکھٹ حضورؐ کی
دامانِ آرزو میں بھروں روشنی کے پھول
عہدِ حضورؐ سارے زمانوں کی آبرو
وہ عہدِ پاک روزِ ابد پر بھی ہَے محیط

میری ہر اک سانس میں خوشبو گلاب کی
ہر عہد ہر صدی ہَے رسالت مآبؐ کی

48

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تخلیقِ کائنات کا تنہا ہیں جو جواز
ہر حسن اُنؐ کے نقشِ کفِ پا کا ہے غبار
سب کچھ خدا نے خلق کیا اُنؐ کے واسطے
اللہ کے وہ حبیبؐ ہیں، اللہ کے وہ رسولؐ
اُنؐ کی جبینِ پاک میں ہَے بندگی کا نور
اُنؐ کا مقام اُنؐ کے خدا کے سوا ریاضؔ
ارض و سما میں اور کوئی جانتا نہیں
گجرے بنا بنا کے درود و سلام کے
اُنؐ کے درِ عطا سے مرادوں کے پھول چن

حرفِ ثنا لحد میں بھی لب پر کھلا رہے
میرے کفن میں اشکِ ندامت بنا رہے

49

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سِکّہ چلے گا جن کی حکومت کا حشر تک
ساری قیادتوں کی قیادت حضورؐ ہیں
جن و بشر کے ننگے سروں پر ہیں سائباں
محشر کے بعد بھی یہی پرسانِ حال ہیں
کردار اُنؐ کا زندہ و پائندہ ہے ریاضؔ
جاری ہَے اُنؐ کے در پہ عطاؤں کا سلسلہ
روشن ہَے آفتابِ کرم اُنؐ کا آج بھی
لو دے رہے ہیں اُنؐ کے عمل کے دیے تمام
زندہ مرے حضورؐ ہیں زندہ مرے نبیؐ

دنیا مرے حضورؐ کے دامن کو تھام لے
سب کچھ لٹا کے اب تو تدبر سے کام لے

50

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہجرت کا نور جن کی جبیں پر ہَے ضوفشاں
مکّے کی سرزمینِ محبت نے جس گھڑی
چومے قدم حضورؐ کے تو محترم ہوئی
فرمانِ کردگار ہَے قرآنِ پاک میں
کھاتا قسم ہوں مکّے کی مَیں اس لیے حبیبؐ
اس میں دکھائی تُو مجھے دیتا ہے ہر گھڑی
طیبہ کی سر زمیں کو بھی حاصل ہے یہ شرف
پلکوں پہ رکھ لیے قدم اس نے حضورؐ کے
بانہوں میں لے لیا مرے آقا حضورؐ کو

اس پر نزولِ رحمتِ پروردگار ہے
خلدِ زمیں ہَے، روزِ ازل کی بہار سے

51

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اس شان سے جو حَشر میں تشریف لائیں گے
ستر ہزار ہوں گے فرشتے بھی ہمرکاب
حمدِ خدا کا ہاتھ میں پرچم لیے ہوئے
کھولیں گے در نجات کا اُمت کے واسطے
بخشش کے شامیانے میں سب انبیا کے ساتھ
بانٹیں گے اہلِ حَشر میں وہ مغفرت کے پھول
پہلے ملے گا سب سے شفاعت کا حق انہیں
پرچم کھلیں گے اُنؐ کے کرم کے قدم قدم
جنت کا در حضورؐ کے چومے گا نقشِ پا

ہر اُمّتی کو اپنے گلے سے لگائیں گے
کوثر کے جام تشنہ لبوں تک بھی آئیں گے

52

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی ہَے ذات دانش و حکمت کا آئینہ
جن کا کلام حسنِ بلاغت کی انتہا
تخلیقِ اوّلیں ہیں وہؐ ربِ کریم کی
بعد از حضورؐ کوئی پیمبرؐ نہیں ریاضؔ
بعد از وصال زندہ و پائندہ ہیں حضورؐ
سنتے ہیں وہؐ درود غلاموں کا رات دن
ہر چیز اُس نے آپؐ کے دامن میں ڈال دی
اُنؐ کی رضا خدا کو ہَے مطلوب ہر گھڑی
لکھّا گیا ہَے عرشِ معلی پہ اُنؐ کا نام

یارب! عطا وہ رات ہو کیف و سرور کی
جس رات میں ہو مجھ کو زیارت حضورؐ کی

53

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
پہچان جن کی قبر میں بھی کام آئے گی
برزخ میں بھی کرم ہی کرم ہوگا آپؐ کا
حُبِّ رسولؐ دے گی چراغِ ادب مجھے
لمحاتِ قربِ سایۂ سرکارؐ حَشر میں
ہر خوف سے نجات کا مژدہ سنائیں گے
سورج سروں پہ آگ لگاتا پھرے، مگر
آبِ خنک بنے گا حوالہ حضورؐ کا
میرا قلم بھی جھک کے سرِ لوحِ جان و دل
لکھّے گا روزِ حَشر قصیدے حضورؐ کے

مَیں عظمتِ رسولؐ کا پرچم اٹھاؤں گا
محشر میں بھی حضورؐ کی نعتیں سناؤں گا

54

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
نسبت ہَے جن کی دونوں جہانوں میں معتبر
ہستی ہَے جن کی سارے رسولوں سے محترم
عظمت کا تاج ہَے سرِ انور پہ ضوفشاں
ہر احترام ہَے مرے آقاؐ کے واسطے
رعنائیِ خیال بھی جھک کر کرے سلام
دوزخ کی آگ جن کے صحابہؓ پہ ہَے حرام
راضی ہوا ہَے جن سے خدائے رحیم بھی
رحمت کے ہیں حصار میں اصحابِؓ مصطفیٰؐ
نبیوں کے بعد اُن کو بزرگی عطا ہوئی

آلِ نبیؐ کے حق میں دعا ہر قبول ہو
ہر خلعتِ درود کا ان پر نزول ہو

55

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تہذیب کو جو دیں گے نئے دن کی روشنی
دیں گے شعور جن و بشر کو وہ دین کا
جو دین آسمانِ ہدایت کا نور ہَے
اُمّی لقب رسولؐ سرِ بزمِ علم و فن
لائے تمدنوں کے لیے آخری نصاب
اقراء کے دائرے کو عمل پر کیا محیط
فکر و نظر میں آپؐ نے روشن کئے چراغ
غارِ حرا کے جاگتے لمحوں میں آج بھی
خوشبو مرے حضورؐ کی ہَے پرفشاں ریاضؔ!

آؤ اُسی رسولؐ کی ہم اقتدا کریں
ہر قریۂ جہول سے پھر انخلا کریں

56

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
چشمِ قلم میں جن کا ہَے ہر عکسِ دلربا
شاخِ سخن پہ جن کی ثنا کے کھِلے گلاب
حرفِ دعا بھی اُنؐ کے وسیلے کا منتظر
لوحِ ازل پہ اسمِ گرامی ہے جلوہ گر
رعنائیِ خیال بھی اس گھر کا ہَے چراغ
ہر لفظ اُنؐ کی نعتِ مسلسل کا ہَے سفیر
خلدِ زمیں ہَے آپؐ ہی کا شہرِ بے مثال
اُنؐ کی ثنا لبوں پہ سجائے ہوئے ریاضؔ
ناقہ مرے شعور کی محوِ سفر رہے

موسم رہے حضورؐ کے حسن و جمال کا
دامن سجا رہَے مری بزمِ خیال کا

57

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
چہرہ ہَے جن کا مصحفِ قرآن کی مثال
ہاتھوں پہ معجزاتِ خدا کا صدور ہے
ہر ذرہ کائنات کا اُنؐ پر پڑھے درود
اشجارِ سایہ دار ہوں سب سنگِ رہگذر
اذنِ خدا سے حکمِ نبیؐ پر عمل کریں
سر تا قدم ہیں عجز کے پیکر بنے ہوئے
کہتے ہیں احترام سے ہم جھوم جھوم کر
آقا حضورؐ، آپؐ کی ذاتِ عظیم پر
لاکھوں درود اور کروڑوں سلام ہوں

اوراقِ جان و دل کو گلستاں کیا کرو
ذکرِ نبیؐ سے گھر میں چراغاں کیا کرو

58

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تخلیق کائنات ہوئی جن کے واسطے
تعمیر شخصیت کی کریں گے وہ خُلْق سے
محنت کے سر پہ رکھیں گے دستارِ آگہی
وہؐ آئنے بشر کی جبیں پر سجائیں گے
گہوارہ امن کا وہؐ بنائیں گے دہر کو
آقاؐ مرے، حبیبؐ ہیں پروردگار کے
دجل و فریب کے ہیں لبادے میں آج ہم
جھوٹے خدا ہیں، جھوٹے نبی ہیں زمین پر
ہر فرد ان کے پنجۂ جَبر و قضا میں ہے

پیشِ نظر حضورؐ کی روشن گلی رہے
وارفتگی کے نور کی مشعل جلی رہے

59

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اللہ کی بارگاہِ جلال و جمال سے
جاری ہوئی ہَے جن کو سند امتیاز کی
ارض و سما کے مالک و مختار نے جنہیں
قاسم بنا کے بخشا ہَے اعزازِ بندگی
اس بندگی کے نور سے روشن ہَے کائنات
روشن فقط نجات کا ہَے راستہ یہی
نکلا ہَے جو حضورؐ کی چوکھٹ کو چوم کر
جس پر نقوشِ پائے نبیؐ ثبت ہوگئے
جس راستے کی گرد پہ سجدوں کے ہیں نشاں

کرتا ہَے رشک چاند بھی جس کے غبار پر
ہر قافلہ رواں ہو اُسی رہگذار پر

60

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر عہد جن کے ذکر سے روشن ضمیر ہے
لوحِ سما پہ درج ہیں اوصاف آپؐ کے
قرآن اُنؐ کی نعتِ مسلسل کی ہَے مثال
اُنؐ کا خدا ہَے ارض و سماوات کا خدا
ہر ابتدا سے پہلے بھی وہ حکمران تھا
ہر انتہا کے بعد بھی مختارِ کل ہَے وہ
لاریب وہ خدا ہے مگر ناخدا بھی ہے
خالق بھی اُسکی ذات ہے رازق بھی اُسکی ذات
ہر چیز کا ریاضؔ وہ پروردگار ہے

لاکھوں کرم ہیں ربِ رحیم و کریم کے
محتاج ہم ہیں ایسے خدائے عظیم کے

61

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بانٹیں گے شفقتوں کی جو بچّوں میں چاندنی
رکھیں گے ان کے ہاتھ پہ وہؐ جستجو کے پھول
علم و ہنر کی ان کو کریں گے عطا لگن
کردار میں چراغ جلائیں گے عزم کے
صدق و صفا کی تتلیاں خوابوں میں آئیں گی
تسخیرِ کائنات کا دے کر انہیں شعور
آقاؐ کریں گے راہِ عمل پر انہیں رواں
سینوں میں آرزو کے جلیں گے نئے چراغ
لکھیں گے تختیوں پہ حروفِ ثنا کے پھول

جگنو کرم کے آپؐ کریں گے عطا انہیں
بانہوں میں لے گی جھوم کے بادِ صبا انہیں

62

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر نوع کی غلامی کی توڑیں گے جو حدود
ہر ظلم کی لکیر کو یکسر مٹا کے آپؐ
انسان کی خدائی پہ قدغن لگائیں گے
توڑیں گے رنگ و نسل کے ہر بت کو مصطفیٰؐ
ہر آدمی کو دیں گے نصابِ کرم کے پھول
ہر احترام ہوگا غلاموں کے واسطے
ان کو برابری کی کریں گے سند عطا
دیں گے سماج میں وہؐ حقوق ان کو برملا
تضحیک آدمی کی کرے گا نہ پھر کوئی

قولِ عمرؓ خلوص کی روشن مثال ہَے
سردار و رہنما مرا آقا بلالؓ ہَے

63

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر راستے پہ رکھیں گے جو عِلم کے چراغ
تفہیمِ کائنات کا دیں گے ہمیں سبق
اخلاق کے گلاب وہؐ بانٹیں گے دہر میں
اُنؐ کے عمل سے پھوٹے گا چشمہ یقین کا
تہذیب کے شعور کی پھیلے گی روشنی
نافذ کریں گے عدل و مساوات کا نظام
توڑیں گے وہؐ جمودِ مسلسل کی ہر چٹان
وہ بے حسی کی قید سے دیں گے ہمیں نجات
ہر رہگذار خیر کی منزل کو جائے گی

عزم و عمل کے قافلو! اُنؐ کو کرو سلام
چلتے رہو، نہ راہ میں ہر گز کرو قیام

64

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ہر ایک لفظ ہَے پیغام امن کا
جو عافیت کی چادرِ رحمت بھی لائے ہیں
فتنوں کے سرخ پانی میں ڈوبی ہوئی انا
سردارِ کائناتؐ کے قدموں میں بیٹھ کر
باندھے گی اپنے سر پہ عمامہ شعور کا
اور عجز و انکسار کی بکھریں گی خوشبوئیں
مہکیں گے شاخ شاخ پہ آسودگی کے پھول
میری زمیں پہ اترے گی زر تاب چاندنی
ڈنکا بجے گا اُس کی خدائی کا ہر طرف

توحیدِ کردگار کا پرچم بلند ہو
الحاد و کفر و شرک کا دروازہ بند ہو

65

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
حوّا کی بیٹیوں کے برہنہ سروں پہ جو
رکھیں گے دستِ اقدس و رحمت سے اوڑھنی
جینے کا حق حضورؐ کریں گے انہیں عطا
آنچل میں دیں گے آپؐ انہیں عافیت کے پھول
سردارِ کائناتؐ کے دربارِ نور سے
عزت، وقار اور تحفّظ بھی پائیں گی
ان کو ملے گی زندہ تمدن کی دلکشی
ممنون ہوگی دخترِ حوّا حضورؐ کی
ہر شب کرے گی ورد درود و سلام کا

سر پر ردائے عظمت و رفعت لیے ہوئے
مائیں کھڑی ہیں پاؤں میں جنت لیے ہوئے

65

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خوشبو طواف جن کا کرے گی ابد تلک
اللہ کے سائبانِ کرم میں رہیں گے آپؐ
دلجوئیِ رسولؐ کرے گی خدا کی ذات
ہر دلکشی ہَے اُنؐ کے نقوشِ قدم کی دھول
ہر روشنی ہَے صاحبِ غارِ حراؐ کا نقش
ہر حسنِ کائنات ہَے خیرات آپؐ کی
آقاؐ ہمارے مخبرِ صادق ازل سے ہیں
سردارِ کائناتؐ کو ربِ عظیم سے
محبوبیت کی چادرِ عظمت عطا ہوئی

میرے حضورؐ کے لیے سب احترام ہیں
جنت میں دست بستہ اُنہیؐ کے غلام ہیں

67

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رحمت ہَے جن کے پیکرِ اقدس کا پیرہن
پاکیزگی کا نور ہَے سایہ کیے ہوئے
ہر روشنی ہَے محوِ سفر اُنؐ کے ساتھ ساتھ
انسان گمرہی کی جو دلدل میں کب سے ہے
آقاؐ اسے صراطِ محبت دکھائیں گے
آداب بندگی کے بھی اِس کو سکھائیں گے
ذہنوں میں حسنِ خیر کی مشعل جلائیں گے
ہر اُمتّی کو اپنے خدا سے ملائیں گے
خوابیدہ ساعتوں کو ابد تک جگائیں گے

ہر رہگذارِ کفر کو آقاؐ کریں گے بند
اُس کی ربوبیت کے کریں گے عَلَم بلند

68

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل ہوتی ہَے سب کو شفا نصیب
جن کے طفیل ارض و سما میں ہَے دلکشی
جن کے طفیل پائیں گے ہم مغفرت کے پھول
جن کے طفیل ملتی ہے آنکھوں کو روشنی
جن کے طفیل دودھ کے چشمے رواں ہوئے
جن کے طفیل حرفِ دعا مستجاب ہَے
جن کے طفیل ارضِ مدینہ ہَے محترم
جن کے طفیل رہتا ہَے آبِ خنک رواں
جن کے طفیل چاند کو اجلی قبا ملی

پروردگار! تُو ہی ہَے ہم سب کا دستگیر
اُنؐ کے طفیل زندہ ہو انسان کا ضمیر

69

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر عہد پر محیط ہیں جن کے نقوشِ پا
جن کی تلاش میں ہیں نجومِ فلک تمام
جن کے لیے صبا ہے گلستاں میں منتظر
اُنؐ کے لیے نماز میں حکمِ درود ہے
اُن کے لیے نماز میں حکمِ سلام ہے
زندہ ہیں جس حصارِ محبت میں ہم ریاضؔ
اللہ کرے وہ ہر کسی گھر کو نصیب ہو
سانسیں درود پڑھتی ہیں جس شہرِ نور میں
اُس شہرِ بے مثال پر لاکھوں سلام ہوں

آؤ اُسی رسولؐ کا ہم تذکرہ کریں
طیبہ کی حاضری کی خدا سے دعا کریں

70

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
امت ہَے جن کی مسندِ عظمت پہ جلوہ گر
اعمالِ مختصر پہ ملے گا کثیر اَجر
خیرالامم ہَے ملتِ بیضا حضورؐ کی
لیکن ہمارے جرمِ ضعیفی کی ہَے سزا
چھائی ہوئی ہَے جبرِ مسلسل کی تیرگی
غیروں کے ہاتھ میں ہیں مقدر کے فیصلے
ہر فرد اپنی ذات کے مدفن میں قید ہے
آقاؐ عطا ہو امتِ عاصی کو عزمِ نو
چشمِ کرم سے رحمتِ حق کا نزول ہو

اس کو وقار و تمکنت اللہ عطا کرے
کرب و بلا کی شامِ قفس سے رہا کرے

71

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رحمت ہَے جن کی سارے زمانوں کے واسطے
جن کے وجودِ پاک کا صدقہ ہَے زندگی
جن کے وجودِ پاک سے روشن ہَے ہر افق
جن کا وجودِ پاک کرم کا ہَے سائباں
جن کا وجودِ پاک ہَے تخلیق کا کمال
جن کے وجودِ پاک کے فیضاں سے ہر طرف
ٹوٹے ہیں قفل کفر کی تاریک رات کے
اُنؐ کا وجودِ پاک ہَے ہر آئنے کا حسن
اُنؐ کا وجودِ پاک ہَے مقصودِ ارضِ جاں

خیرات بانٹتے ہیں وہ اپنے جمال کی
حاجت درِ نبیؐ پہ نہیں ہَے سوال کی

72

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے لیے فلک پہ ستارے رقم ہوئے
جن کے لیے قلم کو جواھر ہوئے عطا
جن کے لیے ورق پہ دھنک کا ہوا ظہور
جن کے لیے زمین پہ اتری ہَے کہکشاں
جن کے لیے کھِلے مرے لب پر ثنا کے پھول
خورشید اُنؐ کے نقشِ قدم کی تلاش میں
نکلے افق کی گود سے لے کر اُنہیؐ کا نام
اس نام پر نثار کروں جان و دل ریاضؔ!
حرفِ دعا کے ہاتھ میں ہجرت کا ہَے علَم

لوٹے گا تَو گلاب مرادوں کے لائے گا
تکمیلِ آرزو کی بشارت سنائے گا

73

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن پر ہوا ہَے ختم نبوت کا سلسلہ
تکمیلِ دینِ حق کی ملی ہَے اُنہیںؐ نوید
بعد از حضورؐ بھی مرے آقا حضورؐ ہیں
بعد از حضورؐ بھی ہَے حکومت حضورؐ کی
نافذ ابد تلک ہَے شریعت حضورؐ کی
سرکارؐ حرفِ اول و آخر ہیں عِلم کا
ہر آگہی کا مرکز و منبع بھی آپؐ ہیں
ہر چیز منتظر ہَے رسالت مآبؐ کی
زندہ حضورؐ ہیں مرے زندہ حضورؐ ہیں

سردارِ کائناتؐ ہمارے رسولؐ ہیں
ہم سے گناہ گار بھی اُنؐ کو قبول ہیں

74

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دنیا کی نفرتوں سے جو گردن چھڑائیں گے
انساں کرے گا تفرقہ بازی سے اجتناب
حاصل شعور ہوگا اخوت کا بھی اسے
ہوگا شرف جو حضرتِ انسان کا بحال
انسانیت کے چہرے پہ آئیں گی رونقیں
محوِ سفر ہوائے خنک ہوگی دشت میں
لیکن ریاضؔ آج کا منظر کچھ اور ہے
ہاتھوں پہ جل رہے ہیں مفادات کے چراغ
ہر شخص اپنی جھوٹی انا کا غلام ہے

معبد بنا لیا ہَے جو فسق و فجور کو
خانوں میں بانٹ رکھا ہَے ہم نے حضورؐ کو

75

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مقروض ہوگا جن کی عنایات کا بشر
احسان مند آپؐ کی ہوگی تمام خلق
ممنونیت کی چادرِ جذبات میں فلک
سجدے لٹائے گا مری اجلی زمین پر
لے گا بلائیں اس کی کہ مسکن ہَے آپؐ کا
ہر ذی شعور کے لبِ تشنہ پہ ہَے ریاضؔ
آبِ خنک حضورؐ کی انگشتِ پاک کا
بنجر زمیں پکارے گی میرے حضورؐ کو
تشنہ لبوں کی پیاس بجھائیں گے آپؐ ہی

سیراب کررہے ہیں وہؐ ذہنوں کی خاک کو
چوما کرو حضورؐ کی نعلینِ پاک کو

76

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر شکل جرم کی جو مٹائیں گے دہر سے
ذہنوں کو نورِ حق سے منوّر کریں گے آپؐ
نافذ نصابِ نو کو کریں گے بصد یقیں
اِس خارشی سماج کی پاتال میں ریاضؔ
ہر رسمِ بد کو آپؐ نے متروک کردیا
حرفِ غلط پہ کھینچ دی تنسیخ کی لکیر
جھوٹے خدا زمین پہ سجدے میں گر پڑے
خود ساختہ خداؤں کا ٹوٹا حصارِ شر
ثابت ہوا کہ لائقِ سجدہ ہَے اُس کی ذات

ہر انحصار کرنا ہَے ربِ جلیل پر
توحید کے چراغ جلاؤ فصیل پر

77

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تصدیق جن کی عالمِ بالا میں کی ریاضؔ!
سب انبیاء نے اپنے خدا کے حضورؐ میں
روشن ہَے اُنؐ کے نور سے یہ ساری کائنات
اُنؐ کے سوا شفاعتِ کبریٰ کسے ملے
بعد از خدا حضورؐ کی تعظیم کیجئے
سینوں میں اپنے روحِ محمدؐ کرے قیام
حرفِ ثنا ہیں آپؐ کی توصیف کے لیے
مدحت نگار مَیں بھی ہوں اپنے حضورؐ کا
میرے بھی سر پہ تاجِ غلامی ہَے حشر میں

تارا چمک رہا ہَے کسی کے نصیب کا
روشن کرو چراغ ثنائے حبیبؐ کا

78

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر روز پانچ وقت اذانوں میں جن کا ذکر
تاحشر ہوگا ایسے ہی ذکرِ خدا کے ساتھ
اسمِ حضورؐ اسمِ خدا سے جدا نہیں
وہ خالقِ عظیم ہَے یہ مرسلِ عظیم
بندے ہیں یہ خدائے رحیم و کریم کے
تعظیمِ مصطفیٰؐ کا اُسی نے دیا سبق
آداب حاضری کے بھی اُس نے سکھائے ہیں
قرآن اِس کی زندہ و پائندہ ہے مثال
کس شان کے رسولؐ ہمارے حضورؐ ہیں

اُنؐ پر سلامتی کی دعائیں ہزار ہوں
اُنؐ پر درود شام و سحر بے شمار ہوں

79

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا مقام اوجِ ثرّیا سے ہَے بلند
تاریخ جن کے نقشِ قدم پر ہَے گامزن
گردش ہَے آسمانوں کی جن کی تلاش میں
امت، حضورؐ، قعرِ مذلّت کا رزق ہَے
امت نے بانٹ رکھا ہَے خانوں میں اپنا جسم
متروک اس کے قول و عمل کا ہَے ہر ہدف
گویا بدن پہ پھیلا ہوا ہَے سراب سا
نسبت مرے حضورؐ کی حاصل نہیں رہی
دامن کا تار تار ہوائے غضب میں ہے

آقاؐ کی نسبتوں کا جو پرچم اٹھاؤ گے
سورج سروں پہ تم بھی قیادت کا پاؤ گے

80

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سکّہ چلے گا جن کا قیامت کے بعد بھی
رہتا ہَے لب پہ جن کے محاسن کا تذکرہ
تہذیب کا ہیں حُسن فرامین آپؐ کے
اُنؐ کے بغیر کوئی مکمل نہیں خیال
سارے تصورات کی ہیں آبرو حضورؐ
آقاؐ، یہی نظام سجے تا قیامِ حَشر
ہر اشک میں ہو گنبدِ خضرا کی روشنی
آنکھیں فصیلِ شہرِ نبیؐ میں سجی رہیں
احساس ہر گھڑی رہے زندہ یہی ریاضؔ

وہ اور ہوں گے کوچہ و بازار کے غلام
ہم ہیں فقط حضورؐ کے دربار کے غلام

81

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سدرہ بھی جن کی راہ گزر کا پڑاؤ ہَے
ساری بلندیوں کی ہَے منزل درِ حضورؐ
شاہوں کے تاج آپؐ کی چوکھٹ کی خاک ہیں
ہر اعتبار اُنؐ کے وسیلے سے معتبر
امت، حضورؐ امن کی خیرات کے لیے
غیرو ںکے در پہ سجدے گزارے گی کب تلک
کب تک رہے گی جرمِ ضعیفی میں مبتلا
کب تک لہو نچوڑیں گے اس کے وجود کا
اہلِ ہوس کہ جن کے ہَے ہاتھوں میں اختیار

آقا حضورؐ، پہلی سی عظمت نصیب ہو
ماضی کی ہم کو شوکت و رفعت نصیب ہو

82

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تخلیقِ بے مثال ہَے جن کا وجودِ پاک
انوارِ مصطفیٰؐ ہیں ازل ہی سے پر فشاں
کردارِ مصطفیٰؐ کا اجالا ہَے ہر طرف
گفتارِ مصطفیٰؐ ہَے تکلّم کی آبرو
خیرالبشرؐ ازل سے ہمارے حضورؐ ہیں
آقا حضورؐ، چشمِ کرم اس طرف بھی ہو
آنکھوں میں حیرتوں کے سمندر ہیں موجزن
آقاؐ، حصارِ تشنہ لبی میں ہَے زندگی
آبِ خنک شعور کا ہم کو عطا کریں

ہر سَمت آفتابِ رسالت مآبؐ ہو
سر پر اُنہیؐ کے شہرِ کرم کا سحاب ہو

83

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اوصاف جن کے سینۂ ارض و سما کا نور
اخلاق جن کے ربط و مراسم کی چاندنی
آدم کی نَسل جن کی ہَے مقروض آج بھی
خوفِ خدا اساس ہَے قولِ رسولؐ کا
ہر فلسفے کی جان ہَے فرمان آپؐ کا
محتاج ہر بشر ہَے عطائے رسولؐ کا
آقاؐ، عجیب خوف مسلّط ہَے اِن دنوں
سورج سروں پہ اپنے سجایا گیا تھا جو
پاؤں تلے نہ روند دے اس کو شبِ سیاہ

کب تک بنیں گے اشک یہ گھر کے بجھے چراغ
اپنی ہتھیلیوں پہ جلاؤ نئے چراغ

84

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
روشن ہَے جن کے زندہ فرامین کی کتاب
تاباں ہَے جن کے زندہ تمدن کی روشنی
رخشاں ہَے جن کے طرزِ عمل کی کرن کرن
جاری ہَے جن کے فیض کا چشمہ قدم قدم
آنکھیں تلاشِ رزق میں رہتی ہیں مضطرب
آقا حضورؐ، ایک بھی آنسو نہیں بچا
گھر میں یقین و عزم کی قندیل پھر جلے
رختِ سفر سمیٹ لے قسمت کی تیرگی
بزمِ تصورات میں ہو شہرِ بے مثال

سر پر غبارِ شہرِ مدینہ سدا رہے
مامور ہر چراغ پہ ٹھنڈی ہوا رہے

85

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
قدموں میں جن کے ٹوٹے گی زنجیر جَبر کی
حسنِ سلوک کی نئی مشعل جلائیں گے
دیوارِ شب کے برجِ نحوست گرائیں گے
انسان کو صراطِ محبت دکھائیں گے
وہ دورِ انقلاب تھا تہذیب کا جمال
آقا حضورؐ، آج پھر انساں ہَے مضطرب
قاتل کے سرخ ہاتھ سرِ ریگِ کربلا
کب تک لکھیں گے جھوٹے تفاخر کی داستاں
انصاف آج پھر سرِ مقتل ہَے جاں بلب

ہم پھر حضورؐ، زر کے عذابوں میں قید ہیں
جھوٹی انا کے جھوٹے سرابوں میں قید ہیں

86

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو انقلاب لائیں گے ارضِ جمود پر
ذہنوں کو دیں گے آپؐ نئے دن کی روشنی
اُنؐ کے وجودِ پاک کو اور اُنؐ کی آل کو
بھیجیں درود اور سلاموں کی ڈالیاں
ہم قریۂ فریبِ نظر میں ہیں، یاخدا
جگنو بھی کوئی راہ میں آتا نہیں نظر
ہر راستے پہ کب سے تسلّط ہَے رات کا
زخموں سے چور چور ہَے اُمّت حضورؐ کی
پرسانِ حال کوئی بھی اس حال میں نہیں

یارب! ہمیں نجات کا رستہ دکھا کوئی
کشتِ دعا میں عِلم کا سورج اُگا کوئی

87

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو بحال کرنا ہَے انسان کا شرف
انسانیت کو دیں گے شعورِ حیاتِ نو
لیکن حضورؐ، مصحفِ شامِ زوال پر
ہر حرفِ انحطاط کے معنیٰ لکھے گئے
آنسو ہیں درج میری کتابِ شعور میں
منظر ہَے کربناک ہواؤں کے دوش پر
اُمّت بَرہنہ سر ہَے سرِ مقتلِ حیات
گرد و غبارِ زر میں تشخص ہَے کھو چکی
آقاؐ، ہنر کے پھول ہر اک شاخ پر کھلیں

آکر ہماری آج بھی چارہ گری کریں
ذہنوں کی تنگناؤں میں پھر روشنی کریں

88

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر ہر ورق پہ جن کے محامد کا رتجگا
دامن میں جن کے رحمتِ حق کے گلاب ہیں
رہتی ہَے چاندنی درِ اقدس کے سامنے
آنکھیں طواف کرتی ہیں شہرِ حضورؐ کا
ہر لمحہ لب پہ مدحتِ سرکارؐ ہو رقم
کہتی رہیں سلام یہ رنگین تتلیاں
نغماتِ سرمدی مرے ہونٹوں پہ ہوں سدا
صلِّ علیٰ کے پھول ہیں ہاتھوں میں آج بھی
مَیں اور کس مقام کی اب آرزو کروں

ہونٹوں پہ میرے اسمِ گرامی لکھا رہے
دل میں چراغِ مِدحتِ آقاؐ جلا رہے

89

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
فتنوں سے جو بچائیں گے آدم کی نَسل کو
چمکے گی ہر قدم پہ روابط کی کہکشاں
بکھریں گے ہر قدم پہ دھنک کے تمام رنگ
سر کو جھکائے کب سے کھڑی ہَے مری لغت
روشن ہیں لفظ لفظ میں تحسین کے چراغ
مدحت نگار ہوں مَیں رسولِ عظیمؐ کا
مَیں بھی بہارِ شہرِ ادب میں بصد خلوص
پرچم لیے حضورؐ کی توصیف کا ریاضؔ
ہر موڑ پر کھڑا ہوں بڑے احترام سے

یہ احترام میرے مقدر کا پھول ہے
اس پھول پر نقوشِ کفِ پا کی دھول ہے

90

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آدم کی نَسل کو جو دکھائیں گے روشنی
ہَے منحرف دنوں کا شبِ تار میں قیام
مدت سے انحراف کی راہِ فرار میں
دنیا ہماری مرکزِ شر ہَے بنی ہوئی
حرفِ صراط لکھ دیا جائے عمل کے ساتھ
بھٹکے ہوئے بشر کو ہدایت کی رہ ملے
اس کا بدن بھی جبرِ مسلسل کا ہے ہدف
آقا حضورؐ، اس کو کرم کی ردا ملے
انساں کو پھر سے امنِ حقیقی کے ہَے تلاش

دنیا مرے حضورؐ کی چوکھٹ کو تھام لے
آکر درِ رسولؐ پہ اللہ کا نام لے

91

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو عہدِ بے اماں سے دلا کر ہمیں نجات
دورِ خزاں کی تیرہ شبی سے بچائیں گے
جو عافیت کے پھول کھلائیں گے ہر طرف
ہر بے نوا کے لب پہ سجائیں گے حرفِ نو
آقا حضورؐ، گھات میں رہتی ہَے پھر انا
کتنے یزید مسندِ شر پر ہیں جلوہ گر
مَیں کربلائے عَصر کے گرد و غبار میں
آقاؐ، کھڑا ہوں اپنے لہو کا علَم لیے
منظر بجھا ہوا ہے سرِ شامِ کربلا

تنہا کھڑی ہَے اُمّتِ مضطر حضورؐ کی
ہَے منتظر امامِ زماں کے ظہور کی

92

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے بغیر ارض و سما کو نہیں ثبات
جن کے وجودِ پاک کی خیرات کے بغیر
اس خاکداں میں خاک بھی اڑتی نہیں کہیں
بعد از خدا وہی تو خدا کے رسولؐ ہیں
بعد از خدا، ہمارے نبیؐ کا ہَے احترام
بعد از خدا، حضورؐ کرم کی ہیں انتہا
بنجر زمین رہتی ہَے ہر لمحہ منتظر
دستِ دعا اٹھیں مرے آقا حضورؐ کے
مجھ پر نزول موسمِ ابرِ کرم کا ہو

سوکھی ہوئی زمین کو کالی گھٹا ملے
گجرے ثنا کے ہاتھ میں لے کر صبا چلے

93

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بعد از قیامِ حَشر بھی عظمت کا ہر چراغ
روشن ہَے جن کے نقشِ قدم کے غبار میں
نوعِ بشر ہَے آج بھی سائے میں آپؐ کے
صدیقؓ کے عمرؓ کے ہیں عثمانؓ کے رسولؐ
آقاؐ ہیں وہ علیؓ کے جو شیرِ خدا بھی ہیں
کیا آمنہؓ کے لالؐ کی توصیف ہو بیاں
سوچیں لباسِ عجز میں مَحشر کے بعد بھی
دونوں ہتھیلیوں پہ لیے نعت کے چراغ
جی چاہتا ہَے خلدِ مدینہ میں گم رہوں

جی چاہتا ہَے اشکِ رواں سے وضو کروں
دیدارِ مصطفیٰؐ کی فقط آرزو کروں

94

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر دور کے اندھیروں کو جو دیں گے آفتاب
وہ خوئے انقلاب کریں گے اسے عطا
اور آشنا کریں گے اسے اضطراب سے
یہ اضطراب پھول اگائے گا ذہن میں
یہ ذہن اُنؐ کے در پہ سلامی کو آئے گا
ہر راستے کو راہِ مدینہ دکھایئے
دامانِ آرزو میں سجائے ہوئے گلاب
کب سے کھڑا ہوں زائرِ طیبہ کی راہ میں
ہاتھوں میں مَیں سلام کی ڈالی لیے ہوئے

توصیفِ مصطفیٰؐ کے جلاتے چلو چراغ
اُنؐ کے نقوشِ پا سے اٹھاتے چلو چراغ

95

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو عظمتِ بشر کی ہیں روشن مثال خود
ہر اک بشر کے ہیں وہی دکھ درد میں شریک
صد شکر نقشِ پا کی مجھے بھی تلاش ہے
خوش بخت ہوں کہ گنبدِ خضرا ہَے سامنے
بختِ رسا کی کیوں نہ بلائیں لیا کروں
چمکا ہَے آج پھر مری قسمت کا آفتاب
نعتِ نبیؐ ہَے عشقِ پیمبرؐ کا آئنہ
نعتِ نبیؐ ہَے پیکرِ شعری درود کا
نعتِ نبیؐ ہے سجدۂ لوح و قلم کا نام

میرا قلم ہَے جامِ محبت پئے ہوئے
نعتِ نبیؐ کا تاج ہَے سر پر لیے ہوئے

96

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تکیہ ہے جن کا صرف خدائے رحیم پر
غارِ حرا کے معبدِ صد احترام میں
توحید کے چراغ جلائے حضورؐ نے
مَیں بھی ریاضؔ آپؐ کا ادنیٰ سا ہوں غلام
بادِ صبا کے ہاتھ پہ رکھتا ہوں روشنی
جو روشنی ہَے مدحتِ خیر البشرؐ کی ہے
میرا قلم حصارِ کرم میں ہَے آج بھی
طاقِ دعا میں جل اٹھی قندیلِ آرزو
دنیا مری ہَے نعتِ پیمبرؐ کا رتجگا

اللہ کے پاک نام سے ہر ابتدا کرو
اُس کے اِسی رسولؐ کو تم رہنما کرو

97

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن و بشر کے واسطے جن کا پیام ہَے
مخلوق ہر زماں کی اسی دائرے میں ہَے
یہ دائرہ حضورؐ کے ابرِ کام کا ہَے
اس دائرے میں پھول نچھاور صبا کرے
سردارِ کائناتؐ کے پیشِ نظر، ریاضؔ
مقصد فقط رضائے الہٰی کا ہَے حصول
آقا حضورؐ کے درِ اقدس کے آس پاس
تہذیب دست بستہ ابد تک کھڑی رہے
اس کی بقا کا ہوگا اسی در پہ اہتمام

روزی رساں ہمارا خدائے رحیم ہے
سب سے عظیم ہَے وہی سب سے عظیم ہے

98

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے در عطا پہ مچلتی ہَے کہکشاں
رکھتی ہَے اپنے دامنِ صد رنگ میں چراغ
میلادِ مصطفیٰؐ کی شبِ نور میں ابھی
بچے سجا رہے ہیں فصیلوں پہ تتلیاں
کب سے ہوائے خلدِ مدینہ ہَے پر کشا
شہرِ حضورؐ میں کرے صبحِ ازل قیام
رعنائیِ خیال کے جھرمٹ میں ہو قلم
اوراقِ جان و دل پہ اتر آئے چاندنی
ہونٹوں پہ پھول مدحتِ سرکارؐ کے کھِلیں

میلاد کی یہ شب ہَے دریچے سجایئے
اِس پوری کائنات میں خوشیاں منایئے

99

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل مہکے گا دامن بہار کا
سیراب ہوں گی تشنہ زمینیں قدم قدم
بہرِ سلام اٹھے گی ہر شاخِ آرزو
ہر ہاتھ پر گلاب سجائے گا آسماں
جنت سے لے کے آئیں گی حوریں دھنک کے رنگ
پلکوں پہ میری چاند ستارے کریں ہجوم
آنگن میں رنگ و بو کے ہیں خیمے لگے ہوئے
محفل سجی ہوئی ہَے پیمبرؐ کی نعت کی
دنیا رہے گی وَجد کے عالم میں رات بھر

بادِ صبا درود کے گجرے بنائے گی
خوشبو چراغ شہرِ سخن میں جلائے گی

100

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے درِ خلوص پہ آسودگی کے پھول
رہتے ہیں منتظر کسی سائل کے رات دن
قاسمؐ بھی ہیں، حبیبؐ بھی سرکارِ دو جہاںؐ
پرچم کھُلے ہوئے ہیں فصیلوں پہ آپؐ کے
اُنؐ کا درِ عطا تو کھُلا ہَے مگر ریاضؔ
آیا نہ مانگنے کا سلیقہ کبھی مجھے
کشکولِ آرزو لیے ہاتھوں میں ہر گھڑی
رہتا ہَے اُنؐ کے در پہ ستاروں کا اژدہام
کاسہ بکف کھڑے ہیں دعاؤں کے قافلے

اللہ سے مصطفیٰؐ کا وسیلہ طلب کرو
آقائے محتشمؐ کی گلی کا ادب کرو

101

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
الحاد و کفر و شرک کے تاریک غار میں
توحید کے چراغ جلائیں گے ہر طرف
یہ رات اُس رسولؐ کی آمد کی رات ہَے
اِس رات کے ریاضؔ مقدّر کی بات کر
اِس کے ہر ایک لمحے میں سورج ہیں ضوفشاں
کرنوں کے پھول اس کے ہیں آنچل میں صد ہزار
ہر وقت عافیت کا ہَے خیمہ سجا ہوا
سر پر رہِ مدینہ کے گرد و غبار کا
میلاد مصطفیٰؐ کا مناتے ہو، خوش رہو

ہر ہر قدم پہ چاند ستارے بچھایئے
کشتِ ادب میں نور کے پودے لگایئے

102

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا مقام اوجِ ثرّیا سے ہَے بلند
رفعت ہر آسمان کی ہَے جن کے ہمرکاب
ننگے سروں پہ اُنؐ کے کرم کا سحاب ہے
محبوبِؐ کردگار ہیں سلطانِ شش جہات
سایہ فگن ازل سے ہَے رحمت حضورؐ کی
ہر خیر کا عمل ہَے نقوشِ قدم کی دھول
ہر انحطاط سے مرا محفوظ ہَے چمن
کھِلتے ہیں اس میں صلِّ علیٰ کے ہزار پھول
پڑتی ہے اس پہ کوثر و تسنیم کی پھوار

صلِّ علیٰ کے نور سے معمور ہَے فضا
کیف و سرورِ نعت سے مخمور ہَے فضا

103

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شہرِ عظیم جن کا ہَے ہر حسن کا فروغ
خطّہ ہَے یہ ازل سے بہاروں کی آرزو
خطّہ ہَے یہ حضورؐ کے قدمَین کا امین
طیبہ نگر ہَے مسکنِ رعنائیِ خیال
میرے کفن کا پھول ہَے گردِ رہِ حضورؐ
ہر ذرّہ رہگذارِ نبیؐ کا ہَے محترم
ہَے مرکزِ نگاہِ فلک اس کا ہر مکاں
اور اس کے ہر مکین کو میرا سلام ہو
یہ شہرِ بے مثال ہَے میرے حضورؐ کا

موجِ خیال وادیٔ بطحا میں چاہیے
چھوٹا سا ایک گھر مجھے طیبہ میں چاہئے

104

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے درِ نجات کو بوسہ دیئے بغیر
سورج افق کی گود سے نکلا نہیں کبھی
شبنم دھنک کے رنگ سجائے تو کس طرح
ہوتی نہیں بہار گلستاں میں خیمہ زن
وہ کیا ہَے جو عطا نہیں ربِ کریم کی
سب کچھ دیا ہَے صاحبِ کوثرؐ کے ہاتھ میں
پرچم مخافظت کا ہَے اُنؐ کو عطا ہوا
وہ حشر تک خدا کے خزانوں کے ہیں امیں
اُنؐ پر ہزار لاکھ درود و سلام ہوں

کیا چیز ہَے ریاضؔ ترے فن کی روشنی
ہر روشنی ہَے آپؐ کے دامن کی روشنی

105

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر حسن جن کے در کا ہَے دریوزہ گر ریاضؔ
کلیاں سمٹ رہی ہیں ہواؤں کی گود میں
شبنم لٹا رہی ہَے حسیں موتیوں کے ہار
اور رتجگے مناتی ہیں پھولوں پہ تتلیاں
ہر سَمت خوشبوؤں کا ہَے میلہ لگا ہوا
بادِ خنک شریکِ سفر ہَے قدم قدم
نازل ہوئے ہیں جتنے صحائف وہ ہیں سبھی
میلادِ مصطفیٰؐ کی بشارت لیے ہوئے
سرکارؐ کی ثنا کے کھلاتے رہے ہیں پھول

یارب! ہمیں حضورؐ کے نقشِ قدم مِلیں
دونوں ہتھیلیوں پہ چراغِ حرم مِلیں

106

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے وجودِ پاک سے پھوٹی ہے ہر کرن
دہلیز جن کی تھام کے عجز و نیاز سے
لے کر صبا، ازل سے کھڑی ہے، مرا سلام
وہ اک کھلی کتاب ہیں قرآن کی طرح
ہر لفظ جن کا باعثِ صد افتخار ہے
ہر حکم جن کا حکمِ خدائے رحیم ہے
سب کچھ اُنہیؐ کے نام کا صدقہ ہَے اس لیے
سب کچھ نثار کرکے بھی تُو مطمئن نہ ہو
میرے حضورؐ اس کا صلہ دیں گے ایک دن

کشکولِ آرزو ترا خالی ہَے مانگ لے
میرے حضورؐ کا درِ عالی ہے مانگ لے

107

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر لفظ جن کا حسنِ فصاحت کی کہکشاں
اسمائے پاک جن کے بلاغت کے سبز پھول
مَیں کتنا خوش نصیب ہوں، بادِ صبا کہ تُو
اِمشب بھی میری نعت کے گجرے لیے ہوئے
حاضر ہوئی ہَے سیدِ ابرارؐ کے حضور
اور نام لے رہی ہَے بڑے شوق سے مرا
نعتیں سنا رہی ہے مری تُو حضورؐ کو
آنچل میں بھر رہی ہَے تُو خاکِ درِ حضورؐ
یہ خاک میری چشمِ طلب میں لگائے گی

مَیں تیری واپسی کا ہر رستہ سجاؤں گا
پلکوں پہ احترام سے تجھ کو بٹھاؤں گا

108

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی ردائے نور کے سائے میں آسماں
دامن میں اپنے چاند ستارے سجائے گا
ارض و سما میں نور کے سکّے لٹائے گا
رستہ صبا کو اُنؐ کی گلی کا بتائے گا
انگلی پکڑ کے آج بھی بادِ صبا، ریاضؔ
لائی ہَے بارگاہِ رسالتؐ میں آپ کو
شہرِ نبیؐ کی خاکِ معطّر سلام ہو
سوغات لے کے آیا ہوں اشکوں کی یانبیؐ
آنگن میں عافیت کی ہوائے کرم چلے

ہر ہر قدم پہ رات نے مقتل سجائے ہیں
نقش و نگار میرے لہو سے بنائے ہیں

109

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
حاصل ہَے جن کا ذکر مقدّس کتاب کا
ہر آگہی ہَے جن کے لب پاک کی عطا
ہر شے طواف کرتی ہَے اُنؐ کے خلوص کا
عقل و خرد کو ملتی ہَے خیرات آپؐ سے
مخزن شعور و دانش و حکمت کا ہیں حضورؐ
اِمشب بھی بابِ مدحتِ خیرالبشرؐ کھُلا
امشب بھی لب پہ اسمِ محمدؐ رقم ہوا
چادر مرے خیال کی پھولوں سے بھر گئی
رعنائیوں کے قافلے اترے سرِ ورق

میرے سپرد اپنی ثنا کا حرم کریں
آقا حضورؐ، مجھ پہ کرم ہی کرم کریں

110

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ارض و سما میں جن کا ہَے کردار ضوفشاں
روئے زمیں پہ جن کی ہَے ہر سَمت روشنی
پاکیزگی کے نور کے ہالے میں ہیں حضورؐ
مرکز تجلّیات کا دہلیز آپؐ کی
دہلیز وہ جو سجدہ گہِ قدسیاں بھی ہَے
خوشبو کنیزِ قصرِ رسالت مآبؐ ہَے
رعنائیِ خیال ہَے باندی حضورؐ کی
ابرِ کرم ہَے اُنؐ کی گذرگہ کا سائباں
بادِ خنک ہَے خلدِ مدینہ کی اوڑھنی

ہر چیز آرزوئے مدینہ کیا کرے
حُبِّ نبیؐ کے جام ابد تک پیا کرے

111

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تا حَشر ہوگا جن کے محاسن کا تذکرہ
طاقِ دعا میں جن کے وسیلے سے نور ہے
جن کے ریاضؔ عہدِ محبت پہ رات دن
شاداب ساعتوں کا تواتر سے ہَے نزول
وہؐ حشر تک خدائے محبت کے ہیں سفیر
خوشبو، چراغ، رنگ، دھنک، چاندنی، ہوا
اُنؐ کے نقوشِ پا کی تمنا لیے ہوئے
روزِ ازل سے روزِ ابد تک رہیں رواں
آؤ چلیں نقوشِ قدم کی تلاش میں

نقشِ قدم ہَے آپؐ کا سینوں میں ضوفشاں
نقشِ قدم سے آج بھی روشن ہَے آسماں

112

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رحمت کی شال جن کے ہَے شانوں پہ زرفشاں
ہر اک عمل ہَے اُنؐ کے کفِ پا سے معتبر
ہر لمحہ بھی ہوائے کرم سے ہے ہمکلام
ہر شب چراغِ طاقِ اخوت سے مستنیر
ہر دن درِ حضورؐ پہ کاسہ بکف ملا
ہر عہد اُنؐ کے سایۂ ابرِ کرم میں ہے
لوحِ افق پہ روزِ ازل سے یہ ثبت ہَے
نقش و نگارِ بزمِ ثریا سرِ فلک
تعظیمِ مصطفیٰؐؐ میں ابد تک کھڑے رہیں

بادِ صبا گلاب لٹایا کرے ریاضؔ
ہر گل کو میری نعت سنایا کرے ریاضؔ

113

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا نَسبَ ہَے حرفِ منّزہ کا آئنہ
پاکیزگی کے اجلے چراغوں کی روشنی
سایہ کرے گی حَشر تک آلِ رسولؐ پر
صدقہ ملے گا آلِ نبیؐ کا مجھے ضرور
تا حَشر جلتی رہنی ہَے قندیلِ آرزو
دیدار مصطفیٰؐ کا مجھے بھی نصیب ہو
اسوہ ہَے اُس رسولؐ کا ہر دور کا نصاب
ہستی ہَے اُس نبیؐ کی وسیلہ نجات کا
پرچم کھُلا ہوا ہَے نبیؐ کا افق افق

ہر ذرہ سجدہ ریز ہَے اِس کائنات کا
احسان مند ہَے مرے آقاؐ کی ذات کا

114

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا نصابِ عشق قیامت کے بعد بھی
نافذ رہے گا اہلِ محبت پہ تا ابد
لفظِ زوال درج نہیں بابِ عشق میں
سردارِ کائناتؐ کے دامن کو تھام لو
فرسودگی سے پاؤ گے تا حَشر پھر نجات
سر پر رہے گی جادۂ رحمت کی سبز شال
مجھ سے کہا ہَے ہاتفِ غیبی نے آج بھی
خود ساختہ خداؤں کے دن ہو چکے تمام
توقیرِ نسلِ آدمِ خاکی ہوئی بحال

انسان کو عروج کا پرچم عطا ہوا
اس کا ہَے نام لوحِ عمل پر لکھا ہوا

115

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ابرِ کرم ہَے جن کا افق تا افق محیط
جن کے درِ نجات پہ کشکولِ جاں لیے
شاعر پڑا ہوا ہَے کرم کے حصار میں
آقا حضورؐ، اِس کو عطا کیجئے قلم
ایسا قلم فقط جو لکھے نعت آپؐ کی
اوراقِ آرزو پہ کرے جھک کے جو سلام
بنجر پڑی ہوئی ہَے زمینِ غزل ابھی
اپنے حضورؐ کے درِ اقدس کے سامنے
اس کو ہوائے شہرِ نبیؐ کا گداز دو

نعتِ نبیؐ عروسِ سخن ہے، اِسے سلام
اوراقِ جاں پہ دستِ ہنر بھی لکھے سلام

116

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر چیز جن کے حیطۂ جود و سخا میں ہے
جو بانٹتے ہیں رحمت و بخشش کی چادریں
ہر ذرہ جن کے شہرِ مقدّس کا آفتاب
رحمت جہاں برستی ہَے شام و سحر ریاضؔ
بادِ صبا کھلاتی ہَے ہر شاخ پر گلاب
شہرِ نبیؐ میں اذنِ سکونت مجھے ملے
طیبہ کے بام و در سے لپٹنے کی آرزو
رکھتی ہَے شب کے پچھلے پہر مضطرب مجھے
آنکھوں میں حیرتوں کے ہیں روشن دیئے ہزار

آنکھوں کو آج کیوں نہ سپردِ ہوا کروں
دیدارِ مصطفیٰؐ کی خدا سے دعا کروں

117

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رحمت ہَے جن کی سارے زمانوں کا سائباں
چادر ہَے جن کے عفو و کرم کی جہان پر
اِمشب بھی یادِ سرورِ کونینؐ کے چراغ
ہر طاق میں جلیں گے مری چشمِ تر کے ساتھ
دیوار و در درود پڑھیں گے حضورؐ پر
رہتا ہوں شہرِ ہجر میں مانندِ اشک تر
آقا حضورؐ شاعرِ بے دام کو کبھی
خلدِ زمیں کی سَمت بھی اذنِ سفر ملے
شہرِ خنک کی آب و ہوا مانگتا ہوں میں

طیبہ نگر میں سایۂ دیوار چاہئے
چھوٹا سا ایک گھر مجھے سرکارؐ چاہئے

118

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ذہنوں کو یاسیت کے بھنور سے نکال کر
ہر آدمی کو دیں گے جو لمحاتِ عافیت
تکذیبِ حرفِ حق کی سیہ پوش رات میں
جو آگہی کے چاند ستارے اگائیں گے
شہرِ ہنر میں عزم کے موتی لٹائیں گے
سوئے ہوئے نصیب بشر کے جگائیں گے
انسان اپنی ذات کے زنداں میں قید ہے
آقاؐ، اِسے یقین کی دولت عطا کریں
ہاتھوں میں اس کے پرچمِ امن و سکوں کھُلے

سر پر، حضورؐ، جَبر کے کانٹوں کی شال ہے
امن و امان میری صدی کا سوال ہے

119

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مرہم بنے گا زخم پہ جن کے کرم کا ہاتھ
کملی میں وہؐ چھپائیں مرے معصیت کے داغ
ہر اک گناہ گار کو جائے پنہ ملے
سورج نے ڈوبتے ہوئے مجھ سے کہا، ریاضؔ!
تاریک رات تیرے تعاقب میں ہَے ابھی
میرے حضورؐ، میرے اِن احوال پر نظر
زخموں سے چور چور ہَے پندارِ آرزو
ارضِ بدن پہ زندہ مسائل ہیں، یانبیؐ
طیبہ سے آنے والی ہواؤں کے منتظر

میری گلی کے بند دریچے کریں سلام
ان میں ہوائے خلدِ مدینہ کرے قیام

120

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
لوحِ طلب پہ رکھیں گے جو آگہی کے پھول
توصیف جن کی درج کرے گا افق افق
ہر ذرہ کائنات کا جو خود سفر میں ہے
جھک کر افق افق پہ لکھے نامِ مصطفیٰؐ
بادِ صبا کے ہاتھ پہ رکھو چراغِ نعت
کلیاں بھی چشمِ تر سے مکمل کریں درود
اے کلکِ خوش نصیب ذرا وجد میں تَو آ
لکھ آج بھی تُو اسمِ گرامی حضورؐ کا
دامانِ آرزو میں کھِلا سرخ سرخ پھول

بوئے چمن قلم کا کرے آج بھی طواف
شب بھر ورق ورق کا کرے روشنی طواف

121

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بچّوں کے سر پہ ہاتھ جو رکھیں گے نُور کا
ان کی ہتھیلیوں پہ ستارے سجائیں گے
عزم و عمل کے تخت پہ اِن کو بٹھائیں گے
ان ہونہار بچّوں کے سینوں میں دیکھنا
تسخیرِ کائنات کی مشعل جلائیں گے
توصیفِ مصطفیٰؐ کے اٹھائے ہوئے چراغ
بچے کھڑے ہیں نور کے گجرے لیے ہوئے
میلاد آج، آپؐ کا کون و مکاں میں ہے
آقاؐ، سلام اپنے غلاموں کا ہو قبول

میلاد کا یہ موسمِ دلکش سدا رہے
میری زباں پہ موجزن آبِ ثنا رہے

122

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو ہر لغت میں رکھیں گے تفہیم کے چراغ
تہذیبِ نو کو دیں گے نئے دن کی روشنی
مکتب میں آگہی کا اجالا کریں گے آپؐ
علم و ہنر کا نور بکھیریں گے ہر طرف
آقاؐ، کتابِ زیست کی تفسیر کے لیے
اپنے عمل کے چاند ستارے اُگائیں گے
تخلیق آج تک ہوئے ہیں جس قدر علوم
پہلے وضو وہ کوثر و تسنیم سے کریں
پھر نام چوم لیں مرے آقا حضورؐ کا

ارض و سما میں کلکِ مصّوِر کا نور ہیں
آقا حضورؐ ہیں مرے آقا حضورؐ ہیں

123

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شاہوں کے تاج و تخت کو پاؤں میں روند کر
انسان کو گرفتِ انا سے چھڑائیں گے
مسمار کر کے دہر میں ایوان جَبر کے
جمہوریت کی راہگذر میں رکھیں گے پھول
آزادیوں کی صبحِ درخشاں کرے گی راج
خود ساختہ خداؤں کا ماتم ہوا کرے
تشنہ لبی کے موسمِ صبرِ جمیل میں
رہ رہ کے نام آتا ہے ہونٹوں پہ آپؐ کا
کاسہ بکف حضورؐ کے در پر کھڑے رہو

تشنہ لبوں پہ آپؐ کا اسمِ جمیل ہَے
بخشش کی، مغفرت کی یہ روشن دلیل ہے

124

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بھٹکے ہوؤں کو راہ جو سیدھی دکھائیں گے
جھوٹی اَنا کے جھوٹے صنم منہ کی کھائیں گے
ہر نقش آپؐ ظلمتِ شب کا مٹائیں گے
دیں گے کدال عزم کی انساں کے ہاتھ میں
محنت کے سر پہ رکھیں گے آقاؐ پرِ ہُما
قلب و نظر میں جوت جگائیں گے عِلم کی
شہرِ سخن میں بادِ جہالت کے باوجود
کلکِ ثنا گلاب سجائے ورق ورق
جلتا رہے بساطِ ادب پر چراغِ جاں

پرچم کھُلے رہیں مرے آقا حضورؐ کے
جلتے رہیں چراغ عقیدت کے نور کے

125

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بعد از خدا ہَے جن کی محبت کا دائرہ
ہر آسماں کی عظمت و رفعت پہ بھی محیط
دامانِ مصطفیٰؐ میں ہَے ہر عافیت کا پھول
ہر روشنی ہَے نقشِ قدم کی تلاش میں
ہر حسنِ کائنات اِسی در کا ہَے فقیر
ہر حسنِ کائنات کی تخلیق کا جواز
مَیں مطمئن ہوں حَشر کے میداں میں ہم نفس
پرچم شفاعتوں کا ہَے آقاؐ کے ہاتھ میں
میری نجات کا بھی وسیلہ حضورؐ ہیں

ہر شخص اُنؐ کے نام کا پرچم اٹھائے گا
مَحشر کا دن حضورؐ کی عظمت دکھائے گا

126

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خوشبو ہَے جن کے شہرِ معنبر کی ہر طرف
رحمت ہَے جن کے دامنِ صد رنگ کا نکھار
مَیں بھی اُنہیؐ کے سایۂ ابرِ کرم میں ہوں
مَحشر کی دھوپ کیا مرا دامن جلائے گی
کوثر کا جام دستِ طلب میں بھی آئے گا
آقا حضورؐ رکھیں گے میرا بھرم ضرور
تاریک ساعتوں کا کھنڈر ہَے مرا بدن
ابرِ سیاہ چھائے ہوئے ہیں قدم قدم
روشن چراغ صرف زمانے میں آپؐ ہیں

شہرِ خنک میں اذنِ سکونت مجھے ملے
آقا حضورؐ، چادرِ رحمت مجھے ملے

127

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
امداد جن سے مانگنے نکلیں گے حَشر میں
سب انبیاء کہ آپؐ ہی مقصود اُن کا ہیں
محمود کے مقام پہ ہوں گے مرے حضورؐ
ہر ہاتھ پر سجائیں گے وہؐ مغفرت کے پھول
موتی شفاعتوں کے لٹائیں گے مصطفیٰؐ
تشنہ لبوں کی پیاس بجھائیں گے مصطفیٰؐؐ
پروانۂ نجات دلائیں گے مصطفیٰؐؐ
دامن میں روسیہ کو چھپائیں گے مصطفیٰؐؐ
کیا شان ہَے جنابِ رسالت مآبؐ کی

پڑھتے ہوئے درود ہوائیں کریں سلام
تشنہ لبی میں بھیگی دعائیں کریں سلام

128

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی حیاتِ پاک کا ہر لمحہ نور ہے
آقاؐ رشید بھی ہیں ہدایت کی راہ میں
دکھ درد کا علاج کریں گے مرے حضورؐ
خاکِ شفا ہَے اذنِ محمدؐ کی منتظر
باطل کے سارے نقش مٹائیں گے آپؐ ہی
روکیں گے ہر برائی سے انسان کو حضورؐ
رستہ اسے نجات کا آقاؐ دکھائیں گے
آقاؐ مرے رسولؐ ہیں، آقاؐ مرے نبیؐ
اذنِ خدا سے غیب کی باتیں بتائیں گے

ہر وقت لب پہ خوشبوئے اسمِ نبیؐ رہے
میرے غبارِ جاں میں یہی روشنی رہے

129

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خلقت کی مغفرت کا ہَے منصب جنہیں ملا
حاشر وہی رسولؐ ہیں مَحشر کے روز بھی
آقاؐ نذیر بھی ہیں کہ تائب ہو ہر بشر
مَہدی بھی میرے ہادیٔ برحق کا نام ہے
ہر فلسفہ حضورؐ کو جھک کر کرے سلام
ہے ہاشمی لقب مرے آقا حضورؐ کا
مکّہ عظیم شہرِ پیمبرؐ ہَے دوستو!
ارضِ یقیں کا مرکز و محور بھی ہَے یہی
رحمت خدا کی اس پہ برستی ہَے رات دن

اس سر زمیں سے پرچمِ توحید ہو بلند
آلودگی کا ذہن میں ہر راستہ ہو بند

130

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
صبحِ ازل ہَے جن کے اجالوں کی ہمسفر
سرکارؐ ہر زمانے کو دیں گے بشارتیں
اُمّی لقب، معلّمِ اعظم، وہی بشیر
سارے علوم و فن کا ہیں محور مرے حضورؐ
ہر آگہی کو لوح و قلم آپؐ نے دیئے
روشن چراغ فکر و نظر کے ہیں آپؐ ہی
ہر حرفِ آرزو بھی اسی در کا ہَے فقیر
سائل ازل سے مَیں بھی درِ مصطفیٰؐؐ کا ہوں
جنت کا در بھی حکمِ محمدؐ پہ ہوگا وا

مجھ پر کرم حضورؐ کا شام و سحر رہے
اِس بے نوائے شہر پہ اُنؐ کی نظر رہے

131

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
حرفِ دعا ہَے جن کے لبوں پر کھلا گلاب
احوال میرے اُنؐ کی نظر میں ہیں ہر گھڑی
داعی ازل سے سرورِ کونینؐ آپؐ ہیں
توحید کے چراغ جلائے ہیں آپؐ نے
ہر دور میں حضورؐ عزیزِ جہان ہیں
دکھ درد میں شریک شہِ مرسلاںؐ بھی ہیں
ہر دور کے بشر پہ وہی مہربان ہیں
رحمت کی سبز شال میں لپٹے مرا بدن
مجھ کو ملے غبارِ مدینہ کا پیرہن

اُنؐ کا درِ کرم ہَے ابد تک کھُلا ہوا
منظر ہَے آبِ جود و عطا سے دُھلا ہوا

132

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی ردائے نور ہَے ہر کہکشاں کا گھر
مشہودِ کائنات میں آقاؐ کی ذات ہے
ہادی مرے حضورؐ ہیں کونین کے لیے
ہر آتشِ مہیب سے آقاؐ بچائیں گے
ہر وقت مضطرب ہیں وہ امت کے واسطے
لب پر دعائے خیر کے اترے ہیں قافلے
جلتے رہے ہیں رحمتِ سرکارؐ کے دیے
جاری ہوئے ہیں چشمۂ رحمت کے سلسلے
روئے زمیں پہ عدل کا روشن چراغ ہیں

رہتا ہوں مَیں بھی راہِ نبیؐ کے غبار میں
رحمت کی ٹھنڈی ٹھار، حسیں آبشار میں

133

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
امت کی خیر خواہی کا رکھیں گے جو خیال
شدت کے ساتھ اس کی بھلائی کی آرزو
رکھے گی قلبِ سیّد عالمؐ کو مضطرب
ہر ذی نفس کے واسطے آقاؐ رحیم ہیں،
سارے مقرّبانِ خدا میں سے آپؐ کو
محبوبؐ چن لیا مرے پروردگار نے
ہَے طالبِ رضائے محمدؐ خدا کی ذات
اُنؐ پر نوازشات کی بارش سدا ہوئی
قربِ خدا نصیب ہَے میرے حضورؐ کو

سر پر ہمارے ابرِ کرم ہَے حضورؐ کا
صدقہ ملا ہے آج بھی صبحِ ظہور کا

134

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اللہ نے جن کو اسمِ مزملؐ عطا کیا
جن کو کہا گیا ہے مدثرؐ، قویؐ، مجیبؐ
آقائے محتشمؐ ہیں رسولِ کریمؐ ہیں
ناصر مرے حضورؐ ہیں، کامل مرے حضورؐ
منصور آپؐ، طیّب و قرشی بھی آپؐ ہیں
ممکن نہیں ہو قول و عمل میں کوئی تضاد
ہیں اک کھلی کتاب کے اوراقِ دلنشیں
نصرت خدا کی روزِ ازل سے ہے ہمرکاب
مجھ کو کفن غبارِ مدینہ کا چاہئے

مامور ہیں ہوائیں سلامی پہ آج بھی
ہر شخص مفتخر ہَے غلامی پہ آج بھی

135

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
امت کو جو حصارِ کرم میں چھپائیں گے
ہر اُمتّی کو اپنے گلے سے لگائیں گے
میرِ حجازؐ و حافظؐ و نورؐ و کلیمؐ ہیں
مژدہ ہمیں سنایا ہَے آقا حضورؐ نے
توبہ قبول کرتا ہَے بندوں کی ہر گھڑی
وحیٔ خدا کی کرتے ہیں تصدیق بھی حضورؐ
کامل ہیں اپنی ذات میں سردارِ کائناتؐ
بندے خدا کے اور خدا کے رسولؐ بھی
مخلوقِ کردگار میں سب سے عظیم ہیں

اللہ کے ہر پیام کو کرتے ہیں وہؐ قبول
کس شان کے نبیؐ ہیں وہؐ کس شان کے رسولؐ

136

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اصحابؓ جن کے اوجِ ثریّا سے بھی عظیم
وارفتگی کے زندہ مناظر کے ہم نشیں
وہ جاں نثارِ سرورِ کونینؐ ہیں ریاضؔ
اپنی مثال آپ ہیں اصحابِؓ مصطفیٰؐ
سلمان فارسیؓ نے تلاشِ حضورؐ میں
ہر رہگذارِ شوق بھی طے کی، قدم قدم
سالارِ کاروانِ محبت اویسؓ ہیں
سرکارؐ کے غلام سرِ ریگِ جسم و جاں
تعظیمِ مصطفیٰؐؐ کے جلاتے رہے چراغ

اصحابِؓ مصطفیٰؐؐ کے قدم چومتے چلو
تم بھی ریاضؔ اپنا قلم چومتے چلو

137

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
صدیقؓ جن کے دامنِ صد رنگ کے گلاب
فاروقؓ جن کے عہدِ محبت کی دلکشی
عثمانؓ جن کے جیشِ اخوت کی آبرو
مولا علیؓ ہیں آپؐ کی شمشیرِ بے نیام
حضرت بلالؓ عشق کی تفسیرِ جاوداں
حسنینؓ عزم و ضبط کی تصویرِ بے مثال
تاریخ جن کے خون سے تابندہ تر ہوئی
لاکھوں یزید آج بھی اُس کربلا میں ہیں
جو کربلا کہ مقتلِ آلِ رسولؐ ہَے

آؤ مرے حضورؐ کے دامن کو تھام لو
ہر کربلائے عَصر میں اللہ کا نام لو

138

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تعمیلِ حکم جن کے کریں گے درخت بھی
ہر شاخِ سبز جھک کے کرے گی جنہیں سلام
میں، کاش اُس کھجور کا ہوتا تنا ریاضؔ
مسجد میں جس سے ٹیک لگاتے تھے مصطفیٰؐؐ
ہجرِ رسولِؐ پاک میں اشکوں کے نور سے
لکھتا مَیں عشقِ میرِ اممؐ کی نئی کتاب
شفقت کا ہاتھ میرے بدن پر بھی پھیر کر
میرے حضورؐ دیتے دلاسہ مجھے، ریاضؔ
اس کیف کے حصار میں رہتا مَیں حشر تک

بے جان پتھروں میں بھی کتنا شعور تھا
حُبِّ نبیؐ کا چشمِ تمنا میں نور تھا

139

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر عِلم جن کے در پہ ہَے کاسہ بکف، ریاضؔ
ہر آگہی کا نور ہَے چوکھٹ پہ سرنگوں
ہر ارتقاء کے ہاتھ پہ قدموں کے ہیں نشاں
ہر روشنی بھی آپؐ کے گھر کی کنیز ہے
خوشبو درِ حضورؐ پہ رہتی ہَے رات دن
شبنم قدم قدم پہ کھڑی ہَے لیے گلاب
ہر ہر عمل پہ ثبت ہو مہرِ حبیبِ پاکؐ
ہر ہر زباں پہ جاری ہو توصیفِ مصطفیٰؐ
ہر ہر ورق پہ درج غلامی کا ہو سبق

بنیاد قصرِ دین ہَے الفت رسولؐ کی
بخشش کا سبز نور ہَے نسبت رسولؐ کی

140

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے کرم کی بھیک کا طالب ہے کل جہاں
حُبِّ رسولؐ لوح و قلم کی ہَے آبرو
طاعت میں جن کا آج کوئی نہیں جواب
اصحابِ مصطفیٰؐ کو سرِ روز و شب کبھی
ہجرِ نبیؐ کا ایک بھی لمحہ نہ تھا قبول
تقلید کے لیے ہَے صحابہؓ کا ہر عمل
ہر آئنہ بھی، عکَس نبیؐ کا سنبھال کر
رکھتا کہ ہر غلام کی تھی آرزو یہی
ہر وقت ہوں حضورؐ کے انوار سامنے

ہر آئنے میں اُنؐ کا ہَے چہرہ سجا ہوا
ہونٹوں پہ اسمِ پاک ہَے اُنؐ کا لکھا ہوا

141

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اصحابؓ جن کے عظمت و رفعت کی داستاں
جن کے نبیؐ ہیں باعثِ تخلیقِ دو جہاں
باطن بھی جن کا نام ہَے ظاہر بھی جن کا نام
مامون بھی، سراج بھی، جوّاد بھی حضورؐ
مخزن تمام حسن کا ہَے مصحفِ رسولؐ
سردارِ کائناتؐ کے ہر اک غلام کو
دیدارِ مصطفیٰؐ کی تمنا ہَے حَشر میں
سرکارؐ کی شفاعتِ کبریٰ کے منتظر
سارے رسول، سارے نبی ساری امتیں

ہر سر پہ سائبانِ کرم ہَے حضورؐ کا
وجہِ نجات نقشِ قدم ہَے حضورؐ کا

142

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آنکھیں بچھا رہی ہَے صبا جن کی راہ میں
گجرے لیے کھڑے ہیں ستاروں کے قافلے
خوشبو بڑے ادب سے بناتی ہَے دائرے
اترے دھنک کے رنگ بڑے احترام سے
کلیاں درود پڑھنے لگی ہیں چمن چمن،
ہر طائرِ خیال کے لب پہ ہَے اُنؐ کی نعت
دیوار و در بھی بہرِ سلامی جھکے رہیں
میلاد کی یہ صبحِ درخشاں کی ہَے بہار
ہر سمت جشنِ آمدِ سرکارؐ ہَے بپا

ہر لب پہ اسمِ سیدِ لولاکؐ ہَے رقم
لوحِ ثنا پہ دیدۂ نمناک ہَے رقم

143

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر جاں نثار جن کا شجاعت کی داستاں
معراج جن کی، نقشِ قدم ہیں حضورؐ کے
چہرہ مرے حضورؐ کا قرآں کا ہَے ورق
ان کو درِ حبیبؐ کا حسنِ ادب کہو
ان کے نقوشِ پا کو تلاشو، افق افق
ہر نقش، پا ہَے باعثِ تکریم، ہمسفر!
ہم بھی کبھی حضورؐ کی گلیوں میں جائیں گے
سرکارؐ کے بغیر یہ اصحابِؓ محترم
ہرگز طوافِ کعبہ بھی کرتے نہ تھے قبول

یہ خود سپردگی ہی کی روشن مثال ہے
آقا حضورؐ ہی کا یہ حسن و جمال ہے

144

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اصحابؓ جن کے عشق کی روشن کتاب تھے
چہروں پہ انحراف کی کوئی نہ تھی خراش
ہر جَبر کی فضا میں وہ ثابت قدم رہے
سانسیں تھیں اضطراب کے موسم سے آشنا
جاں تک لٹا کے آپؐ کے قدموں پہ وہ غلام
تھے مطمئن کہ اُن کے پیمبرؐ اماں میں ہیں
رسمِ وفا علیؓ کی ابد تک ہَے معتبر
حضرت بلالؓ! کشتۂ صبر و رضا، سلام
اللہ کا نام تیری زباں پہ رقم رہا

تیری اذان عشقِ پیمبرؐ کا ہَے جمال
تابندہ تر ہَے تیرا یہ ایثارِ بے مثال

145

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ارشاد جن کا ہَے کہ مَیں اللہ کا ہوں حبیبؐ
حکمِ خدا جو لائے ہیں ہر حال میں بجا
کامل تھے اپنی ذات میں آقائے محتشمؐ
رحمت بنا کے بھیجا گیا ہَے حضورؐ کو
معروف ہیں حضورؐ ہی اس کائنات میں
حق کے سوا حضورؐ نے فرمایا کچھ نہیں
آقا حضورؐ، راحتِ قلب و نظر بھی ہیں
تخلیق میں ہیں سب سے مقدّم مرے حضورؐ
میرے حضورؐ، مرسلِ آخرؐ خدا کے ہیں

بعد از حضورؐ کوئی رسولِ خدا نہیں
محبوبِؐ کردگار بجز مصطفیٰؐ نہیں

146

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اللہ سے ہمکلامی کا جن کو شرف ملا
راز و نیاز، خالق و مالک سے بھی کئے
ہر نکتہ کھول کھول کے کرتے رہے بیاں
مَحشر کے روز سب کا سہارا بنیں گے آپؐ
ہم کیا سمجھ سکیں گے مراتب حضورؐ کے
اسلوب منفرد ہے حیاتِ حضورؐ کا
شاداب ساعتوں کے وہی تاجدار ہیں
حکمت مرے حضورؐ کی ہر قول پر محیط
دانش مرے حضورؐ کے اعمال کا نچوڑ

لوحِ درود لکھ کے سپردِ ہوا کریں
آؤ نمازِ عشقِ محمدؐ ادا کریں

147

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اس پوری کائنات میں جن کا نہیں جواب
ہر اک عمل مصفّیٰ و معصوم آپؐ کا
شکرِ خدا حضورؐ کے لب پر تھا ہر گھڑی
مومن کی جان سے بھی ہیں، آقاؐ، قریب تر
عادل بھی ہیں، شہید بھی، اللہ کے بھی خلیل
عظمت کی ہر بلندی ہَے گردِ رہِ حضورؐ
دلکش ہر ایک نام ہَے میرے حضورؐ کا
صدیاں تمام بیت بھی جائیں مگر ریاضؔ
اوصافِ تاجدارِ عربؐ کا نہ ہو شمار

شب بھر اُسی رسولؐ کی توصیف ہو بیاں
آبِ ثنا میں ڈوبی رہے آج بھی زباں

148

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ظہور غلبۂ دیں کے ہَے واسطے
علم الیقیں حضورؐ کا کیا بے مثال ہَے
نسبت نبیؐ کے نام کی بخشش کا ہَے سبب
اللہ کے وہ سفیر ہیں، اللہ کے وہ نقیب
پرچم فصیلِ جاں پہ ہَے اُنؐ کا کھُلا ہوا
ہر حسن کا مرقّعِ زیبائی ہیں حضورؐ
سب انبیا کے جملہ محاسن ہیں آپؐ میں
پیکر ہیں آسمانی ہدایت کا آپؐ ہی
آقاؐ کو عبدیت کا ہَے پرچم عطا ہوا

پڑھ کر درود، شاخِ سخن پر لکھے سلام
ہر ذرہ کائنات کا اُنؐ کو کرے سلام

149

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مبعوث جو جہاد کا لے کر علَم ہوئے
باطل پہ ضرب کاری لگائی ہَے آپؐ نے
نام و نشاں ہی ظلم کا یکسر مٹا دیا
سرکارؐ کا صبا نے لیا اسمِ محتشمؐ
فرطِ ادب سے نیچی نگاہیں کرو ریاضؔ
بختِ رسا ہَے اوجِ ثریا سے ہمکنار
شہرِ نبیؐ کی خاکِ معطّر پہ آج بھی
سجدہ کروں میں عرضِ تمنا لیے ہوئے
توفیقِ نعت مانگ لوں پروردگار سے

اسمِ حضورؐ میری زباں پر رقم رہے
مصروف نعت گوئی میں میرا قلم رہے

150

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ختم الرسل کی جن کو ملی خلعتِ عزیز
اپنائے اعتدال کے رستے قدم قدم
کافی ہیں آپؐ امتِ عاصی کے واسطے
نعرہ بلند ہَے مرے آقاؐ کے نام کا
اِس نام کے وسیلۂ رحمت سے آج بھی
توبہ قبول ہوتی ہَے آدم کی نَسل کی
عرشِ بریں پہ آج بھی روشن ہیں وہ ستوں
اسمِ حضورؐ جن پہ ہَے لکھّا ہوا، ریاضؔ
لاکھوں سلام، رحمتِ عالمؐ! قبول ہوں

سردارِ کائناتؐ کے جلوؤں میں گُم رہو
چشمِ تصورات میں طیبہ میں تم رہو

151

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ذکرِ جمیل جن کا ہَے کون و مکاں کی جاں
سرکارِ بے مثالؐ کی مَیں کیا مثال دوں
ساری فضیلتوں کی فضیلت حضورؐ ہیں
ممکن نہیں کہ تابِ سحر لائے میری آنکھ
ناقص سی میری عقل یہ مکتب میں بیٹھ کر
ادراک کرسکے گی کیا شانِ حضورؐ کا
ذہنِ رسا سے یہ کبھی ممکن نہیں، ریاضؔ
اس سے کبھی ہو حیطۂ انوارِ مصطفیٰؐؐ
اظہارِ عجز، نطق و بیاں آج بھی کریں

محرومیوں کی راکھ بنے حرفِ التجا
صدقہ مجھے حبیبِ مکرّمؐ کا ہو عطا

152

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی ازل سے ذاتِ گرامی ہَے معجزہ
سرکارؐ ہی نویدِ مسیحائے محتشم
حضرت خلیلؑ کی بھی دعائے عظیم ہیں،
غارِ حرا ہے تاج، نبوت کے نور کا
ام القریٰ حضورؐ کا ہَے شہرِ محترم
وحدانیت کا نور ہَے اس شہر کی فصیل
خورشید انقلاب کا اس کے افق پہ ہے
اللہ کا گھر ہَے اس پہ کرم بار رات دن
رحمت ہَے اس کے دامنِ صد افتخار میں

ارض و سما کے سر پہ کرم کا سحاب ہَے
یہ شہرِ دلنواز تقدّس مآب ہَے

153

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا وجود عشق کی رعنائیوں میں ہے
وہ حسنِ اعتدال کا پیکر ہیں بے مثال
رعنائیِ خیال کا جھرمٹ ہَے جن کی گرد
اخلاقِ مصطفیٰؐؐ کی کوئی کیا مثال دے
اس حسنِ سرمدی کا تو ممکن نہیں بیاں
آنکھیں نثار صورتِ زیبا پہ ہوں مری
اوصاف اُنؐ کے میرا قلم کیا رقم کرے
عاجز پڑا ہَے میری لغت کا ہر اک ورق
ہر لفظ اُنؐ کا حکمت و دانش کی سلسبیل

ہر آگہی کا مرکز و محور حضورؐ ہیں
ہر معرفت کے علم کا مصدر حضورؐ ہیں

154

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو شاہکارِ دستِ خدائے عظیم ہیں
تخلیق کا جمال ہیں، خالق کا وہؐ کمال
لوح و قلم، نہ عرشِ معلی نہ آسماں
سورج، زمیں نہ چاند ستارے ہوئے تھے خلق
اُس وقت صرف ذاتِ خدائے قدیم تھی
چاہا خدا نے خلقتِ ارض و سما کا جب
پہلا ظہور تھا مرے آقا حضورؐ کا
ہمسر نہیں حضورؐ کا تخلیق میں کوئی
اپنی نظیر آپ ہیں آقاؐ مرے حضورؐ

سرکارؐ! جاں بھی آپؐ پر اپنی فدا کروں
طے عشقِ لازوال کا ہر مرحلہ کروں

155

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا جمال آنکھ سے اوجھل رکھا گیا
ہر آنکھ احترامِ نبیؐ میں جھکی رہے
اس حسنِ لازوال کا کیا تذکرہ کروں
خیرہ ہَے آنکھ جس سے فلک کی ابھی تلک
وہ حسن، وہ جمال ہَے میرے حضورؐ کا
کیا میری چشمِ تر کو ہو اس حسن کا شعور
جس آنکھ میں ہَے آج بھی دولت کی آب و تاب
اس کی نہیں مجال کہ دعویٰ یہ کر سکے
حسنِ حضورِ پاکؐ کا ادراک ہَے مجھے

صدیوں کی التجاؤں کو کل پر نہ ڈالیئے
جو مانگنا ہَے اُنؐ کے وسیلے سے مانگیئے

156

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو نقطۂ کمال ہیں ہر اک کمال کا
ہر عیب سے ہے پاک سراپا حضورؐ کا
ہر حسن لازوال ہے میرے رسولؐ کا
رفتارِ بے مثال ہے نورِ عظیم کی
شاداب ساعتوں کا ہَے ہالہ بنا ہوا
حسنِ حضورؐ، آئنہ گر دیکھ لے، ریاضؔ
بے ساختہ زبان سے نکلے گا، مرحبا
بے ساختہ وہ خود کو گلے سے لگائے گا
وہ مرکزِ نگاہ ہیں اِس کائنات کے

آنکھیں طوافِ گنبدِ خضرا کیا کریں
کوثر کا جام آپؐ کے در سے پیا کریں

157

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی ہَے ذات مظہرِ نورِ خدائے پاک
جن کی ہَے ذات سارے کمالات کا جمال
جن کی ہَے ذات حسن کی تخلیق کا جواز
حسنِ حضورؐ پرتوِ حسنِ خدا ہی ہے
آقاؐ ہیں حسنِ سیرت و صورت کا انتخاب
صبر و رضا کے پیکرِ اکمل بھی آپؐ ہیں
اور آپؐ ہی کے سر پہ شفاعت کا تاج ہَے
سرکارؐ بابِ حسن کا ہیں آخری کلام
ہر حسنِ کائنات درِ نور چوم لے

میرا کفن بھی شہرِ مدینہ کی دھول ہو
لب پر مِرے حضورؐ کی مدحت کا پھول ہو

158

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر اعتماد کا ہیں جو رخشندہ آفتاب
سب رفعتوں سے بڑھ کے ہَے رفعت حضورؐ کی
میرے حضورؐ، افضل و برتر رسولؐ ہیں
اترا عرب کا چاند حلیمہ کی گود میں
سرکارؐ کے لبوں پہ تبسم کی تھی لکیر
اور مثلِ ماہتاب تھا چہرہ حضورؐ کا
رخصت کے وقت اسودِ خوشِ بخت نے ریاضؔ
بوسہ دیا حضورؐ کے لب ہائے ناز پر
اسود! زمانہ تیری بلائیں نہ لے گا کیوں

یارب، ہوں دل میں عشق کے معبد کی تتلیاں
اڑتی رہیں ثنائے محمدؐ کی تتلیاں

159

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
زلفِ سیاہ جن کی ہَے انوار کی گھٹا
جی بھر کے دیکھنے کی تمنا دلوں میں تھی
لیکن کسی بھی فرد کی جرأت تھی یہ کہاں
نظارہ کرسکے رخِ انور کا بے حجاب
اور آنکھ بھر کے دیکھنا ممکن نہ تھا کبھی
بہرِ سلام آج بھی جھک جائے چشمِ تر
اشکِ رواں کے پھول سپردِ ہوا کرے
فرمان ہے رسولِؐ خدائے عظیم کا
اللہ کی معرفت کی طلب ہر گھڑی کرو

لے لے کے نام حَشر میں آقاؐ بلائیں گے
ہم روسیہ حضورؐ کو کیا منہ دکھائیں گے

160

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو عظمت و وقار کے ہیں حرفِ آخریں
ہر تمکنت حضورؐ کے در کی ہَے خاکِ پا
قرآں کے آئنے میں ہَے وہ مصحفِ جمال
عرفانِ مصطفیٰؐ کا تصور کرو گے کیا
اُنؐ کا خدا ہی اُنؐ کے مراتب ہَے جانتا
ہم پر ہَے فرض طاعتِ سردارِ کائناتؐ
تم بھی فضائے خلدِ مدینہ میں گُم رہو
لب پر درودِ پاک کا چشمہ رواں رہے
ہاتھوں میں ہوں ہزار سلاموں کی ڈالیاں

اُنؐ کو خبر تمام ہَے نزدیک و دور کی
ہر چیز بے مثال ہَے میرے حضورؐ کی

161

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر ضابطہ ہَے جن کے حوالے سے مستند
ہر واسطہ حیات کا جن کے عمل کی گرد
ہر دلکشی جمالِ محمدؐ کی دین ہے
ہر اعتبار جن کے نقوشِ قدم کی دھول
آقا حضورؐ کی ہیں عنایات اَن گنت
آدم کی نسل آج بھی مقروض اُنؐ کی ہے
دنیا کو دے دیا سبقِ امنِ دائمی
اور عافیت کا نور بکھیرا ہَے ہر طرف
انساں حصارِ شر میں مقیّد ہَے کس لیے

صدقہ اتارتا ہوں مَیں ذوقِ سلیم کا
مجھ پر کرم ہوا ہَے خدائے رحیم کا

162

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر حسن جن کے نقشِ کفِ پا کی ہَے عطا
نکہت قلم کی، بھیک درِ مصطفیٰؐؐ کی ہے
تخلیقِ کائنات بھی صدقہ ہَے آپؐ کا
سب کچھ ملے گا آپؐ کے قدمَین کے طفیل
کاسہ بکف چلیں درِ خیر الوریٰ پہ ہم
گٹھری اٹھا کے سر پہ گناہوں کی آج بھی
چشمہ کرم کا آپؐ کی چوکھٹ پہ ہَے رواں
رحمت کی سبز سبز گھٹائیں سروں پہ ہیں
تشنہ لبوں سے آج بھی مانگے کوئی دعا

شاخِ ثنا پہ پھول کھلاتا رہے قلم
ہر شب چراغِ نعت جلاتا رہے قلم

163

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو سرحدِ شعور کا ہیں آخری چراغ
ادراکِ روز و شب کا جو پہلا نصاب ہیں
تعلیمِ مصطفیٰؐؐ کا ہَے اسلوب منفرد
اِبلاغ ہَے حضورؐ کی ہر ایک بات میں
حکمت سے پُر ہَے دانش و برہان کی کتاب
انسان کے حقوق کی توثیق کس نے کی
قانون کی زمیں پہ کیا کس نے حکمراں
کس نے کتابِ عدل کے الٹے ورق تمام
کس نے ردائے نور برہنہ سروں پہ دی

ہر شب ہو رابطہ درِ آقاؐ کی خاک سے
سورج طلوع ہو مرے دامن کے چاک سے

164

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رکھیں گے انقلابِ محبت کی جو بِنا
بغض و عناد و جَبر کی تاریک رات میں
روشن کریں گے چشمِ تمنا میں آفتاب
سردارِ کائناتؐ کا ہَے پیکرِ جمیل
پہلا ورق کتابِ حیات و ممات کا
نقشِ قدم ہیں آپؐ کے معراجِ زندگی
فرمان ہَے حبیبِ مکرّمؐ کا ’’ایک بھی
انساں کا قتل، پوری ہَے انسانیت کا قتل‘‘
ہر ذرہ کائنات کا ہَے امن کا سفیر

بڑھ کر مجھے بھی اپنے گلے سے لگائے گی
ٹھنڈی ہوا، ریاضؔ، مدینے سے آئے گی

165

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ماضی بھی، جن کا، حال بھی، کل بھی اُنہیؐ کا ہے
محشر کے بعد، خلد کے ہر آسمان پر
روشن رہے گا جن کی نبوت کا آفتاب
جو آگہی کے نور کی ہیں کہکشاں عظیم
جود و کرم حضورؐ کا وصفِ جمیل ہے
ہر عہد اُنؐ کے حیطۂ لطف و عطا میں ہے
توفیق دے قلم کو خداوندِ دو جہاں
لوحِ افق پہ لکھّے محمدؐ کا پاک نام
نعتِ نبیؐ کا آئنہ بن جائے کائنات

مَیں اور نعت آپؐ کی، قسمت کی بات ہے
یہ سب مرے حضورؐ سے نسبت کی بات ہے

166

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو انقلابِ نو کی جلائیں گے مشعلیں
آزادیوں کی اجلی سحر مسکرائے گی
تہذیب کے نقوش اجاگر کریں گے آپؐ
دیں گے تمدنوں کو نئے دن کی روشنی
تاریخ ارتقاء کی کرے گی انہیںؐ سلام
نافذ کیا حضورؐ نے یوں عدل کا نظام
زنجیرِ جبر اپنے ہی قدموں میں آ گری
تازہ ہوا نے خیمے لگائے سرِ چمن
خوشبو درود پڑھتی رہے پھول پھول میں

ملکِ سخن میں نعتِ پیمبرؐ کا راج ہے
کلکِ ثنا پہ چاند کی کرنوں کا تاج ہے

167

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو جَبرِ ناروا کی مٹائیں گے تلخیاں
جو کربِ ناتمام سے دیں گے ہمیں نجات
انسان کا جو خوف سے دامن چھڑائیں گے
اور عافیت کے چاند ستاروں کے نور سے
روشن کریں گے کھول کے روزن شعور کا
تہذیب کی فصیل پہ رکھیں گے وہؐ گلاب
آقاؐ حضورؐ مجھ سے بھی ناکارہ شخص کے
اندر کے آدمی کو اجالوں میں لائیں گے
ممنون ہر بشر ہو رسولِؐ کریم کا

آتا ہَے آسمان سے شام و سحر سلام
کرتے رہیں حضورؐ کو قلب و نظر سلام

168

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ساعت ہر ایک جن کے گھرانے کی ہَے کنیز
کل بھی رسولِ اوّل و آخر کا عہد تھا
اور آج عہدِ نو بھی ہَے آقا حضورؐ کا
کل بھی مرے حضورؐ کا پرچم اٹھائے گا
ہر ہر افق پہ روزِ ازل سے ہَے یہ رقم
ہر عہد ہَے جنابِ رسالت مآبؐ کا
سلطانِ کائناتؐ کے دربارِ نور میں
لب پر گلِ درود کی خوشبو بکھیر کر
ہر لمحہ دست بستہ ابد تک کھڑا رہے

مینارِ نور ہَے قد و قامت حضورؐ کی
اب حَشر تک رہے گی قیادت حضورؐ کی

169

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ندرت، شعور و فکر کی، جن کی ہے گفتگو
ہر قول ہَے حضورؐ کا، پتھر پہ اک لکیر
ارض و سما کے مالک و مختار نے، سنو!
خیرِ کثیر آپؐ کے دامن میں رکھ دیا
ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہَے فقط
کوثر سے اُس نے شان بڑھائی حضورؐ کی
مخلوق کوئی آپؐ کی ہمسر نہ تھی، نہ ہے
منشا ہَے کردگار کا روزِ ابد تلک
کوئی برابری کا بھی دعویٰ نہ کرسکے

لوح و قلم حضورؐ کے دستِ عطا میں ہیں
انوارِ حرفِ نطق، حریمِ دعا میں ہیں

170

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے نقوشِ پا کے تخیّل کو چوم کر
خوشبو ہر آشیانے میں رکھتی ہَے روشنی
بادِ صبا کے ہاتھ پہ نسرین و نسترن
جھک کر بڑے ادب سے سجاتی ہیں برگِ گل
آدم، ابو محمدِؐ عربی کے نام سے
خلدِ بریں میں رکھیں گے پہچان منفرد
میرے حضورؐ سب کا حوالہ ہیں معتبر
ہم ہیں اسی وسیلۂ رحمت کے منتظر
نسبت اِسی رسولؐ کی ہم کو بھی ہو عطا

نعتِ حضورؐ شہرِ کرم کا جمال ہے
سجدہ مرے قلم کا ادب کی مثال ہے

171

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اوصاف جن کے درج ہیں قرآنِ پاک میں
ہر حسن جن کے دامنِ صد رنگ کا ہے عکس
ہر انتہا عروج کی جن کو کرے سلام
خوش بخت ہوں کہ منصبِ نعتِ نبیؐ ملا
لوح و قلم پہ اتری ہَے رم جھم خیال کی
پڑھنے لگا درود لغت کا ہر اک ورق
کھلنے لگے کواڑ حریمِ شعور کے
طشتِ ہنر میں پھول سجانے لگی ہوا
آئی صبا ثنائے نبیؐ کی دھنک لیے

لوحِ عمل پہ وصفِ پیمبرؐ رقم کرو
آنکھیں بڑے ادب سے سپردِ قلم کرو

172

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی حدیث قصرِ اخوت کا نظم و ضبط
اوصاف جن کے سبر نگینے سماج کے
ہر امتیاز میرِ اممؐ کا ہے بے مثال
وہ پیکرِ جمال ہیں ہر حسن کا جواز
زندہ معاشرت کا اجالا حضورؐ ہیں
ہر شاخ پہ درود کے کھلتے رہیں گلاب
توصیفِ مصطفیٰؐ کا ہَے خورشید سربلند
اتنی سی التماس ہَے پروردگار سے
دستِ بہار میں رہیں اسمِ نبیؐ کے پھول

میری زمیں کا صدقہ اتارے گا آسماں
اترے گی آسماں کی بلندی سے کہکشاں

173

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انوار جن کے ارض و سما پر محیط ہیں
ہَے ذکر آسمانی صحائف میں آپؐ کا
سب انبیاء کو اُنؐ کے تھا آنے کا انتظار
آئے زمیں پہ نور کے پیراہنوں میں آپؐ
لکھّوں تمام عمر حروفِ ادب، مگر
اک لفظ بھی کتابِ ثنا کا رقم نہ ہو
مَیں عجز و انکسار کے دامن میں چپ رہوں
ششدر رہے ازل سے لغت کا ورق ورق
توصیفِ مصطفیٰؐ میں قلم ٹوٹتے رہے

انداز مختلف مرے حرفِ دعا کے ہیں
محتاج کب حضورؐ کسی کی ثنا کے ہیں

174

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر اعتماد جن کے ہَے نقشِ قدم کا عکس
حرفِ یقیں ہَے لوحِ ادب پر لکھا ہوا
آقا حضورؐ کے درِ عالی سے آج بھی
عصرِ جدید اَمن کی خیرات مانگ لے
مانگے بصد ادب زرِ دستورِ زندگی
مانگے نجات جبرِ مسلسل کی رات سے
مانگے گلاب رحمت و بخشش کے صد ہزار
مانگے سند غلامیٔ آلِ بتول کی
مانگے گداز سجدۂ عجز و نیاز کا

مہکی ہوئی فضا ہَے محمدؐ کے نام سے
چومے فلک زمیں کو بڑے احترام سے

175

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ازل سے ہَے درِ رحمت کھُلا ہوا
رکھتے ہیں سب کے ہاتھ پہ وہ مغفرت کے پھول
دستِ کرم رسولِ مکرّمؐ کا سر پہ ہَے
ملتی ہَے اُس گلی سے تبسم کی چاندنی
گم ہوں، ریاضؔ، حلقۂ کیف و سرور میں
مَیں مدحتِ نبیؐ کے حصارِ ادب میں ہوں
خلقت جھکی رہے ابھی سانسوں کو روک کر
خوش بخت ہو، ریاض، ریاضِ رسولؐ میں
ہر روز فرطِ شوق سے لب چومتے رہو

سرشار مجھ کو ذکر پیمبرؐ کا کر گیا
دامن مرا گلاب کے پھولوں سے بھر گیا

176

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سردار انبیاء کا بنایا گیا جنہیں
تاریخ ارتقاء کی کرے اُنؐ سے اکتساب
انسان مرکزی ہیں وہ اس کائنات کے
آباد اُنؐ کے دم سے ہَے گلزارِ ہست و بود
ہر قریۂ شعور کے سر پر ہَے اُنؐ کا ہاتھ
یہ ہاتھ پھول بانٹے گا محشر کے روز بھی
سرکارؐ کا تھا صبر و قناعت بھی بے مثال
سانسوں میں عافیت کی تھیں کلیاں کھلی ہوئی
حمدِ خدا کی تھی لبِ اقدس پہ دلکشی

دونوں ہتھیلیوں پہ چراغِ حرم بھی ہے
سر پر ہمارے آپؐ کا نقشِ قدم بھی ہے

177

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دارالشفاء ہَے جن کے مدینے کی ہر گلی
اُس شہرِ دلنواز کی عظمت بیاں کروں
یارب، اِسی بیاں میں مری عمر ہو بسر
اس کی کھُلی فضا میں کھِلیں آرزو کے پھول
ہر ذرہ اس کا پیکرِ حسن و جمال ہے
چومے ہیں اس نے نقشِ کفِ پائے مصطفیٰؐ
آب و ہوائے خلدِ مدینہ، خدا کرے
محشر کے بعد خلدِ بریں میں کرے قیام
ہر ہر قدم پہ میرے بھی سجدوں کے ہیں نشاں

اُس شہرِ بے مثال کی کس سے مثال دوں
سارے حروف اپنی لغت سے نکال دوں

178

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
طاعت ہَے جن کی فرض غلاموں پہ ہر گھڑی
مَیں خطّۂِ شعورِ قلم میں ہوں آج بھی
فضلِ خدا ہَے میرے شب و روز پر محیط
جاری ہَے کائنات میں تخلیق کا عمل
سب کچھ مرے خدا کا ہَے، آقاؐ بھی اُس کے ہیں
ہر چیز اُس کے دستِ تصرّف میں ہَے، ریاضؔ
مَیں بھی اُسی خدا کے پیمبرؐ کا ہوں غلام
جن کے کرم کے ہاتھ ہیں حسنِ کلام پر
آنکھیں مری ہیں باندیاں عالم پناہؐ کی

فریاد میری، جانتا ہوں، مختصر نہیں
احوالِ چشمِ تر سے نبیؐ بے خبر نہیں

179

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سایہ ازل سے جن کا برہنہ سروں پہ ہے
جو بیکسوں کے حامی و مونس رسول ہیں،
مخلوقِ کائنات کے ہر غم میں ہیں شریک
صحرائے روز و شب کے نشیب و فراز میں
اُنؐ کے کرم کی بادِ بہاری ہَے خیمہ زن
کوہِ یقیں پہ ابرِ کرم کب سے ہَے مقیم
رکھتے ہیں ہم غلاموں کے دستِ طلب پہ پھول
سانسوں میں اُنؐ کے نام کی خوشبو بسی رہے
ارضِ بدن پہ چشمۂ رحمت بھی ہو رواں

تشنہ لبوں پہ نعتِ پیمبرؐ سجا کرے
شہرِ سخن میں بادِ بہاری چلا کرے

180

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تخلیق جو ہوا ہَے وہ صدقہ ہَے آپؐ کا
آقا حضورؐ پر اَب و جَد ہوں مرے نثار
سانسیں درود پڑھتی ہیں دن رات آپؐ پر
ادنیٰ سا ایک شاعرِ بے دام ہوں، حضورؐ
محشر کے روز بھی مری پہچان ہو یہی
’’رزقِ ثنا‘‘ ہو نامۂ اعمال میں رقم
’’کشکولِ آرزو‘‘ میں ’’زرِ معتبر‘‘ بھی ہو
’’خلدِ سخن‘‘ میں چاندنی اترے بصد ادب
ہاتھوں میں ہو ’’متاعِ قلم‘‘ کا ورق ورق

شاداب موسموں کی بشارت، حضورؐ، دیں
ہَے التماس آج بھی مجھ کو ضرور دیں

181

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو قریۂ شعورِ ازل کے ہیں تاجدار
مجھ بے نوا پہ سیّدِ لولاکؐ کا ریاضؔ
ذرہ نوازیوں کا تواتر سے ہَے نزول
مَیں سوچتا ہوں آپؐ کے دربارِ نور میں
مَیں نذر جان و دل کے سوا اور کیا کروں
اس جان و دل کی وقعت و توقیر بھی ہَے کیا
اہدافِ جَبر ہیں یہ سرِ مقتلِ حیات
آنسو رقم ہیں لوحِ تمنائے دید پر
ہچکی بندھی ہوئی ہَے پرندوں کی شاخ پر

جلتے ہوئے ہَے پیڑ پہ، صدیوں سے آشیاں
ٹوٹے ہوئے ہیں ہم پہ مصائب کے آسماں

182

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر دور کا نصاب جو لائے ہیں اپنے ساتھ
وابستگی کے نور میں ڈوبا رہے قلم
ہر لمحہ جن کے عہدِ مقدّس کا ہے نقیب
عہدِ حضورؐ ابرِ محبت ازل سے ہَے
سکّہ رواں تھا کل بھی جنابِ رسولؐ کا
سکّہ رواں ہَے آج بھی اُنؐ کا سرِ حیات
سکّہ چلے گا حَشر کے دن بھی حضورؐ کا
منشا، ریاض، مالکِ روزِ جزا کی ہے
مَحشر میں اختیارِ نبیؐ کا ظہور ہو

حرفِ ثنا ہَے دامنِ حسن و جمال میں
موسم کھُلا ہے وادیٔ فکر و خیال میں

183

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مقروض جن کے دستِ عطا کا ہَے ہر بشر
جن کے طفیل ارض و سما میں ہَے روشنی
جن کا وجودِ پاک ہَے ہر آگہی کا نور
سلطان ہیں وہ خطّۂ حسن و جمال کے
اس معجزے کا آج بھی دیکھے کوئی ظہور
اس عہد میں بھی زندہ ہَے انسان کا ضمیر
وہ عہد جس میں بہتا ہَے مجبور کا لہو
وہ عہد جس میں جبرِ مسلسل ہَے حکمراں
ہر عہد پھر حضورؐ کے دامن کو تھام لے

یہ ہونٹ اپنے بختِ رسا کی بلائیں لیں
شہرِ رسولِؐ پاک کی ٹھنڈی ہوائیں لیں

184

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر ذرہ جن کی خاکِ کفِ پا کا آفتاب
سوغات امن کی درِ اقدس کی ہَے عطا
انسان کے حقوق کی توثیق کے لیے
آئے ہیں آپؐ صلِّ علیٰ کے لباس میں
آئے ہیں آپؐ کفر کی زنجیر توڑنے
آئے ہیں آپؐ عِلم کے روشن حصار میں
آؤ اُسی رسولؐ کے قدموں کی خاک سے
تعمیر زندگی کا کریں قصرِ دلکشا
آنکھیں تلاشِ حسن میں مصروف ہیں مری

اِمشب گلابِ نعت کھِلے گا بہار میں
بادِ صبا کھڑی ہَے اِسی انتظار میں

185

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی تجلیات سے روشن ہَے ہر افق
ارض و سما میں شاھدِ عادل ہَے جن کی ذات
سانسوں میں اُنؐ کے نام کی اڑتی ہیں تتلیاں
آنکھوں میں رتجگے ہیں شبستانِ فقر کے
دل میں گدازِ عشقِ نبیؐ کے جلے چراغ
ہونٹوں پہ ذکرِ سیّدِ عالمؐ کی ہَے دھنک
گھر میں ہَے آج محفلِ میلادِ مصطفیٰؐؐ
برسیں گے آسمان سے لطف و عطا کے پھول
شاداب ساعتوں کا اتر آئے گا ہجوم

ہر احترام وقفِ پیمبرؐ کیا کرو
اسمِ نبیؐ بڑے ہی ادب سے لیا کرو

186

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو خدا نے نورِ تحمل عطا کیا
ہر روشنی کو ہَے زرِ زیبائی کی تلاش
ہر روشنی ہَے خاکِ مدینہ سے مستنیر
رستے تمام جاتے ہیں شہرِ حضورؐ کو
صدقہ ملے حضورؐ کے قدموں کا یاخدا
اِمشب کرم کی کالی گھٹائیں کریں ہجوم
اِمشب سلگتے اشکِ مسلسل کے درمیاں
تشنہ لبوں کی پیاس بجھاتی رہے ہوا
شہرِ خنک میں چشمِ تمنا کرے قیام

شہرِ حضورؐ کے مَیں مضافات میں رہوں
فضل و کرم کی آج بھی برسات میں رہوں

187

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دھوون ہَے بوئے گل بھی جنابِ رسولؐ کا
تہذیب چومتی رہے وہ راہِ اعتدال
چومے ہیں جس نے نقشِ کفِ پائے مصطفیٰؐؐ
جن کو فقط ملی ہَے سند اعتبار کی
ادراکِ حسن آپؐ کے عکسِ جمیل کا
یارب، عطا ہو، ہر کسی مدحت نگار کو
تخلیق جتنے لفظ بھی ہیں، آج تک ہوئے
اُن سب کو پیرہن، زرِ خاکِ قدم ملے
طیبہ کے قافلوں پہ کروڑوں سلام ہوں

دیکھے تو کوئی گرمیٔ بازارِ مصطفیٰؐ
سب ڈھونڈتے ہیں سایۂ دیوارِ مصطفیٰؐ

188

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انسانیت کے محسنِ اعظمؐ جنہیں کہو
ممدوحِ ربِ ارض و سما ہیں مرے حضورؐ
اسمِ حضورؐ، حرفِ تجمل کا آئنہ
سرکارؐ، بردباری کی روشن مثال ہیں
جب بھی خدا کے بعد کسی کا ہوا ہَے ذکر
بے ساختہ زباں پہ کھِلا ہَے گلِ درود
بے ساختہ ورق پہ ستارے رقم ہوئے
بے ساختہ دھنک نے سجائے افق پہ رنگ
بے ساختہ قلم سے محمدؐ لکھا گیا

ہر رہگذر کو نور کا دھارا لکھا کرو
طیبہ کے بام و در کو ستارا لکھا کرو

189

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
زندہ ہَے جن کے نام سے انسان کا ضمیر
حضرت اویسؓ عشقِ پیمبرؐ میں گُم رہے
اُن کو ملا تھا ہجرِ محمدؐ کا رتجگا
آئی قرَن سے آج بھی بھیگی ہوئی ہوا
جس نے درود پڑھتے ہوئے لوحِ عشق پر
آداب حاضری کے قلم کو سکھا دیئے
مجھ سے کہا قرَن کی ہوا نے یقین سے
دیدار کب کیا ہَے کسی نے حضورؐ کا
وہ پرتوِ حضورؐ تھا دیکھا گیا جسے

منکر ہَے جو حضورؐ کا، منکر خدا کا ہے
یہ فیصلہ بھی مالکِ روزِ جزا کا ہے

190

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا، کرے گا فقر، غنی کُل جہان کو
جن کی جبینِ نور پہ کوئی شکن نہیں
جن کا ادب سکھایا ہَے قرآن نے ہمیں
پتھر گدازِ پائے نبیؐ سے تھے آشنا
حسن و جمال ہَے رخِ انور کا بے مثال
رہ رہ کے آسمان کو تکنا حضورؐ کا
اتنا پسند آیا تھا پروردگار کو
کعبے کو اُس نے آپؐ کا قبلہ بنادیا
اُنؐ کی رضا، رضا ہَے خدائے عظیم کی

کب سے کھڑا ہوں وقت کے گرد و غبار میں
رکھیں مجھے حضورؐ کرم کے حصار میں

191

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
لازم ہَے ہم پہ جن کے وسیلے سے مانگنا
ارشاد ہَے خدا کا یہ قرآنِ پاک میں
جانوں پہ اپنی ظلم کے توڑے تھے جب پہاڑ
لازم مِرے رسولؐ کے در کی تھی حاضری
اس حاضری کے بعد معافی وہ مانگتے
کرتے نبیؐ بھی اُنؐ کے لیے مغفرت طلب
توبہ قبول کرتا کہ مَیں مہربان ہوں
مَیں ہی خدا ہوں، مَیں ہی رحیم و کریم ہوں
اپنے نبیؐ کے ذکر کو مَیں نے کیا بلند

پرچم اُڑے گا ارض و سما میں رسولؐ کا
وہ واسطہ ہیں میری رضا کے حصول کا

192

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اس بزمِ رنگ و بو کے عناصر سرِ فلک
ہر وقت ہوں گے جنؐ کے اشارے کے منتظر
اُنؐ کے کرم کے پھول کھلیں گے چمن چمن
ہوگا نزول رحمتِ حق کا قدم قدم
موتی دعا کے چمکیں گے جن کے صدف صدف
ہر ساعتِ عزیز کے آنچل میں، مصطفیٰؐؐ
حسنِ کلام کے نئے منظر سجائیں گے
حسنِ سلوک کی نئی شمعیں جلائیں گے
حسنِ عمل سے شہرِ محبت بسائیں گے

آقاؐ کو میرا حال بتانا، صبا، ضرور
خاکِ شفا مدینے سے لانا، صبا، ضرور

193

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
میثاقِ انقلاب ہَے جن کے عمل کا نور
کب تک تضاد فکر کا چاٹے گا روشنی
انسان کے ضمیر کو زندہ رکھیں گے آپؐ
آقائے محتشمؐ کی یہ تعلیم ہے، ریاضؔ
مثبت ہو آدمی کا رویہ نفس نفس
چشمِ طلب میں رہتی ہَے دہلیزِ مصطفیٰؐؐ
آدم کی نسل قریۂ جَبر و قضا میں ہَے
طرزِ عمل ہَے اہلِ ہوس کا لہو میں تر
قرطاسِ آرزو پہ پڑی نفرتوں کی دھول

فتنوں کی پرورش کا یہ فتنہ جگائیں گی
خود بھی غلام گردشیں گردش میں آئیں گی

194

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو بزمِ کائنات میں ہیں امن کے چراغ
بدلیں گے جو کتابِ عمل کا ورق ورق
غارتگری کا گرم تھا بازار اُن دنوں
جذبہ تھا انتقام کا اپنے عروج پر
رکھا گیا تھا جھوٹی اناؤں کے سر پہ تاج
فسق و فجور، ظلم و تعدی، ریا و بغض
تہذیبِ زر کی ساری خرافات عام تھیں
مکرو فریب و دجل کا موسم تھا ہر طرف
امن و اماں کی ایک بھی جائے پنہ نہ تھی

نکلو مفادِ عام کا لے کر کبھی چراغ
خوشنودیٔ خدا کا ملے گا تمہیں سراغ

195

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے سفر کی، امن ہَے منزل، ابد تلک
داعی، قیامِ امن کے، میرے حضورؐ ہیں
قرآں کتابِ امن ہے ہر ایک دور میں
وہ امن کے سفیر ہیں، روئے زمین پر
پیغام ہَے جنابِ رسالت مآبؐ کا
آدم کی نَسل میں کبھی تفریق مت کرو
ایثار کے چراغ جلاؤ روش روش
ہر دور میں سجاؤ مواخات کے گلاب
آقاؐ قیامِ امن کے ہیں آخری نقیب

تاریک راستوں میں رکھو امن کے گلاب
ہر ہر قدم پہ پاؤ گے خورشید و ماہتاب

196

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انسان کی ہوس پہ جو قدغن لگائیں گے
جو حدِ اعتدال میں رکھیں گے خواہشیں
دیں گے ہمیں جو ذہنی غلامی سے بھی نجات
امن و سلامتی کا وثیقہ، قلم لکھے
تہذیب ہوگی ایسے ضوابط سے آشنا
اجلی سحر، زمیں پہ، مراسم کی آئے گی
دامن بھرے گا وقت کا اعمالِ خیر سے
کلیاں سجیں گی شاخِ تبسم پہ صدا ہزار
دہلیزِ مصطفیٰؐ سے فقط رابطہ رکھو

احسان مند ہیں، سرِ مقتل، انا کے، ہم
ممنون ہیں حضورؐ کے دستِ عطا کے ہم

198

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آدم کی نَسل کو جو بتائیں گے راستہ
افسوس، آسمانی ہدایت کے باوجود
مغرب ابھی تلک ہَے جہالت کی اوٹ میں
اربابِ علم و فن بھی ہیں حیرت زدہ بہت
اسلام دینِ امن ہے، یہ مانتے بھی ہیں
لیکن ضمیرِ مردہ کے زنداں میں قید ہیں
دامن تعصبات سے خالی نہیں ہوا
لیکن وہ دن بھی آئے گا جب اہلِ شر ضرور
ڈھونڈیں گے سائبانِ کرم دشتِ جنگ میں

پڑھنا درود آپؐ پر آنکھو! تمام شب
اشکوں میں بھیگنا مری پلکو! تمام شب

198

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو انبیاء کی دیں گے گواہی بروزِ حَشر
دستِ عطا سے بانٹیں گے پروانۂ نجات
آبِ خنک کا نور رواں ہوگا ساتھ ساتھ
کوثر کے جام تشنہ لبوں کو پلائیں گے
لیں گے وہ امتوں کو کرم کے حصار میں
دامن مِرے نبیؐ کی شفاعت کا تھام کر
اک دن چلیں گے لوگ جو میدانِ حَشر میں
سایہ کرے گا ابر رسالت مآبؐ کا
محشر کا دن ہَے عظمتِ خیرالبشرؐ کا دن

لوحِ ثنا پہ چاند ستارے رقم کرو
آنسو تمام آج ہمارے رقم کرو

199

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اللہ کا ذکر جن کی نواؤں کا پیرہن
توحید کے عَلَم ہیں نشیب و فراز میں
دونوں ہتھیلیوں پہ جلائے ہوئے چراغ
حمد و ثنا کے سرمدی پرچم لیے ہوئے
خوشبو تلاشِ ذاتِ نبیؐ میں نکل پڑی
سانسوں میں اڑ رہی ہیں درودوں کی تتلیاں
دامن میں جگنوؤں کی قطاریں سجی ہوئی
آنکھوں میں رتجگوں کے مناظر کئی ہزار
بزمِ خیال میں ہَے ستاروں کا جمگھٹا

نکہت ہَے حرف و صوت کی مدحت حضورؐ کی
ہر دور کا نصاب ہَے سنت حضورؐ کی

200

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا کُل انحصار ہَے ربِ کریم پر
رسی بھی اونٹنی کی خدا سے طلب کرو
ہر اختیار آپؐ کا اللہ کی ہَے عطا
جتنے تصرفات ہیں میرے حضورؐ کے
وہ سب خدا کے فضل کی روشن مثال ہیں
محبوب آپؐ، خالقِ کون و مکاں کے ہیں
مقصودِ کائنات کا اُنؐ کو لقب ملا
اللہ کی بندگی کا وسیلہ حضورؐ ہیں
اُن کو درِ خدا سے بزرگی عطا ہوئی

ارض و سما میں صاحبِ قرآن آپؐ ہیں
اقلیمِ آرزو کے نگہبان آپؐ ہیں

201

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اندر کی روشنی کو جو دیں گے نیا وقار
انسان کو جو دیں گے حروفِ یقیں کا نور
اس نور سے تمدنِ ارضِ دعا کا دل
خورشید و ماہتاب کا مرکز بنا رہا
کایا پلٹ دی نوعِ بشر کی حضورؐ نے
گلہائے امن، خیر کی شاخوں پہ کھل اٹھے
لیکن حضورؐ، آج بھی ابلیسِ نامراد
مصروف پھر ہَے فتنہ و شر کے غبار میں
انساں کو ورغلانے کی سازش میں ہَے شریک

پیڑوں کی شاخ شاخ ہَے بے آب و بے ثمر
رحمت کے بادلوں کا اِدھر سے بھی ہو گزر

202

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
پرچم کریں گے حرفِ صداقت کا جو بلند
آقا حضورؐ، وقت کی ہم کربلا میں ہیں
امت ہوئی ہَے جرمِ ضعیفی میں مبتلا
آقا حضورؐ، ایسے ملیں ناخدا ہمیں
جو کشتیاں جلانے کی زندہ کریں رسوم
ملت کو سر اٹھا کے جو چلنے کا دیں ہنر
آقاؐ، ہو اعتماد کی دولت انہیں نصیب
عظمت کا تاج ان کا مقدّر کبھی بنے
زندہ کریں یہ اپنی خودی کے ضمیر کو

ہمدرد و غمگسار کا کوئی نشاں نہیں
کوئی سوائے آپؐ کے اپنا یہاں نہیں

203

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو ہر نشان ظلم و ستم کا مٹائیں گے
جھوٹی انا کو دفن کریں گے تمام لوگ
خود ساختہ خداؤں کا پردہ کریں گے چاک
آقا حضورؐ، آج کے خود ساختہ ’’خدا‘‘
انساں کو خود کشی کے دہانے پہ لائے ہیں
خود ساختہ خداؤں نے برپا کیا ہَے حَشر
رائج کئے ہیں خون کے سکّے زمین پر
دستِ قضا میں سانس بھی لینا محال ہے
تلوار پھر خدا کی کرے فیصلہ ابھی

تخلیق، اُنؐ کی سب سے بڑا شاہکار ہَے
دنیائے رنگ و بو میں ازل کی بہار ہے

204

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
لوحِ جبیں ہَے جن کی خزینہ علوم کا
جس پر نصاب عشق کا ہَے درج، حرف حرف
جس پر اتر رہے ہیں ستاروں کے قافلے
جو حشر تک سحر کے اجالوں کی ہَے امیں
جس پر بلندیوں کے سجے ہیں نئے افق
بکھری ہوئی ہَے جس پہ درودوں کی کہکشاں
جس پر جھکی ہوئی ہیں سلاموں کی تتلیاں
جس کا طواف کرتے ہیں جگنو تمام شب
جس کو سلام کرتا ہَے ہر اشکِ مضطرب

یارب، وجود میرا ردائے سحر میں ہے
مجھ سا غریبِ شہر بھی تیری نظر میں ہے

205

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
منشور دیں گے امن کا جو کائنات کو
جمہوریت کی رح کو نافذ کریں گے آپؐ
انسان کے حقوق کی توثیق کے لیے
جو عالمی نظام کریں گے ہمیں عطا
ہر دور اِس نظام سے مانگے گا روشنی
اس سے زمیں پہ امن کا ممکن ہوا قیام
مردہ ضمیر زندہ کئے ہیں حضورؐ نے
دنیا میں تاکہ عدل کا نافذ نظام ہو
ہر جذبہ انتقام کا دفنا دیا گیا

تاریخ دم بخود ہَے رہِ پائمال میں
امت کھڑی ہے عہدِ عروج و زوال میں

206

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر طاق میں چراغ جو رکھیں گے علم کے
اُس عہدِ بے مثال کے برجِ فصیل میں
فکر و نظر کے لاکھوں جلائے گئے چراغ
یہ اس لیے کہ جبرِ مسلسل کی رات میں
اندر کے آدمی کو اجالے کریں قبول
اندر کی روشنی بھی حصارِ کرم میں ہو
انساں محاسبے کے عمل سے گذر سکے
خوفِ خدا کٹہرا عدالت کا ہے ریاضؔ
سب جس میں اپنے اپنے عمل کا جواب دیں

بجھتا ہوا چراغ جو دستِ ہوا میں ہے
امت، حضورؐ، آپؐ کی کس ابتلا میں ہے

207

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
حسنِ سلوک جن کا بنے گا نئی مثال
یہ دائرہ کرم کا تمدن کا ہَے جمال
یہ دائرہ کرم کا ہَے ہر عہد پر محیط
ہر ذرہ کائنات کا اِس دائرے میں ہے
خیرات بانٹتی ہَے ہوا اُنؐ کے نام کی
سردارِ کائناتؐ کے عہدِ گلاب میں
عورت کو احترام کی چادر عطا ہوئی
اہلِ ہوس کو آپؐ نے باور کرا دیا
عورت چراغِ خانہ ہے، محفل کی جاں نہیں

مولا! نجات قریۂ جبرِ انا سے دے
سب کچھ مرے خدا، مجھے اپنی رضا سے دے

208

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اندر کے سومنات کو جو توڑ کر یہاں
صدیوں کو اعتماد کا دیں گے نیا شعور
انسانیت کو عزت و توقیر بخش کر
روشن کیا ضمیر غلاموں کا آپؐ نے
عزمِ جواں کا نور تھا سینوں میں موجزن
ہر تمکنت، وقار تھا اللہ کے واسطے
اس میں کسی نمود کا بھی شائبہ نہ تھا
ہر امتحانِ عشق کے ہر ہر مقام پر
ثابت قدم رہے ہیں صحابہؓ حضورؐ کے

دعویٰ خدا کے بندوں کو حرفِ دعا پہ ہے
کامل یقین مجھ کو بھی اپنے خدا پہ ہے

209

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شاہد ہیں جو کہ لائقِ حمد و ثنا ہَے وہ
تخلیق جس نے ارض و سماوات ہیں کئے
اُس کے سوا نہیں کوئی معبود دوسرا
ہرگز کوئی شریک بھی اُس کا نہیں، ریاضؔ
وہ رزق بانٹتا ہَے جو تفریق کے بغیر
ہر سانس اُس کے حکم کی پابند ہے، سنو!
اُس ربِ لا شریک کے شہکار ہیں جنابؐ
مَیں بھی اُسی رسولِ مکرّمؐ کا ہوں غلام
آؤ پڑھیں درود خدا کے حبیبؐ پر

پروردگار! رزق دے اپنی جناب سے
گو مستحق نہیں ہوں کسی بھی حساب سے

210

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ضرب قوی لگائیں گے عہدِ جہول پر
ہم اپنے احتساب سے غافل ہیں، یانبیؐ
قائد منافقت کے حصارِ غضب میں ہیں
زر کی ہوس غبار ہَے ہر رہگذار کا
ہر فرد اپنے اپنے مفادات کا غلام
ہر شخص بے حسی کے لباسِ قضا میں ہے
اخلاق نام کی نہیں ملتی کوئی بھی شے
ہر آنکھ بھی ہَے زلفِ زَر و سیم کی اسیر
کوئی امیرِ شہر کی توقیر کیا کرے

جاری محاسبے کا عمل عمر بھر رہے
آقا حضورؐ، ابرِ کرم ہمسفر رہے

211

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ربِ علیٰ سے جن کا ازل سے ہَے رابطہ
ہم میں سے، آپؐ، اُسکے ہیں بھیجے ہوئے رسولؐ
ایسے رسولؐ جن کے مماثل نہیں کوئی
تنہا وہی حبیبِؐ خدائے قدیم ہیں
چوکھٹ پہ جن کی، چاند ستارے کریں سلام
خیرالبشرؐ ہیں خیر کے موتی لٹائیں گے
خیرالوریٰ ہیں خیر کی شبنم بچھائیں گے
دنیا کو آپؐ خیر کی راہیں سجھائیں گے
امت تماش بینوں کے نرغے میں ہے، حضورؐ

حاکم ہمارے آج بھی کچھ حوصلہ کریں
اندر کے آدمی کا ذرا سامنا کریں

212

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آدم کی نَسل کا جو کریں گے ضمیر پاک
انسان کو سکھائیں گے آدابِ زندگی
آثارِ شامِ جَبر مٹیں گے زمین سے
رہتا ہوں مَیں بھی مضطرب چہروں کے درمیاں
جو ترک کرچکے ہیں رہِ اعتدال کو
جن کے عمل کی آج بھی بنیاد ہَے غلط
اس عہدِ ناروا کا یہ اصرار ہَے بہت
آنکھیں قتالِ حسن کا منظر کریں قبول
قاتل سے خوں بہا مرا لوگو! طلب کرو

مت روکنا گلی میں درندوں کو آج بھی
کرنا حنوط سبز پرندوں کو آج بھی

213

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سازش سے پاک، دیں گے مراسم کا ضابطہ
اخلاص سے عمل کے جلائیں گے جو چراغ
میری زمین امن کا گہوارہ بن سکے
محشر تلک فساد کا قصہ تمام ہو
مل کر خدا کے حکم کی تعمیل سب کریں
میری زمیں پہ نور کی چادر بچھی رہے
میری زمیں پہ عدل کا نافذ نظام ہو
میری زمیں پہ دخترِ حوّا بھی سانس لے
میری زمیں پہ جل اٹھے قندیلِ عافیت

اسلوبِ زندگی بھی رقم روشنی سے ہو
اور افتتاحِ قصرِ عمل چاندنی سے ہو

214

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
پوشاک جن کی سلکِ محبت سے ہَے بنی
جن کا عصا ہَے لعلِ بدخشاں سے آبدار
اقراء کے پھول آپؐ کے لب پر کھلے رہے
آقاؐ، غلام عہدِ جہالت کا رزق ہیں
امت ہَے انحراف کے رستے پہ چل پڑی
صدیوں سے مبتلا ہَے بدن کے عذاب میں
گروی رکھے ہوئے ہَے اثاثے شعور کے
فکر و عمل کی لیتی ہَے اغیار سے سند
ہر دن غریبِ شہر کا روزِ حساب ہے

ہر روشنی طلسم ہَے، ہر تیرگی طلسم
خود ساختہ خداؤں کا ٹوٹے کبھی طلسم

215

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تہذیب کو جو دیں گے اجالوں کا پیرہن
بیدار جو کریں گے خودی کے رموز کو
آقا حضورؐ، آج کے ’’شاہوں‘‘ کا حکم ہے
غیرت کا لفظ اپنی لغت سے نکال دو
اور بزدلی تمہارے بدن میں کرے قیام
سر کو جھکا کے چلنا پڑے تو چلا کرو
لوگو! حصارِ ذات کے اندر رہا کرو
آقا حضورؐ، سانس بھی لینا محال ہے
کاغذ کی پتلیوں کے تماشہ گروں میں ہیں

امت کی بدنصیبی کا چارہ کریں، حضورؐ
دامن گلاب رت سے ہمارا بھریں، حضورؐ

216

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اصحابؓ جن کے چاند ستاروں کے ہم نشیں
اُمّی لقب ہے جن کا سرِ مکتبِ حیات
ہر روشنی ہَے جن کے غلاموں کے ہاتھ میں
ہر آگہی کا آخری عنوان آپؐ ہیں
پاکیزگی کے نور میں ہَے پیکرِ جمیل
انوارِ سرمدی میں ہَے چہرہ حضورؐ کا
ہر حسن کائنات کا قدموں پہ ہَے نثار
دیباچۂ حیات ہَے انوار کی تپش
ہر ہر ورق پہ درج ہے عظمت کی داستاں

خوشبو تلاش کرتی رہے گی حضورؐ کو
محشر کے دن ادب سے ملے گی حضورؐ کو

217

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
برسیں گی جن کے چہرۂ اقدس پہ رحمتیں
ارض و سما میں مہکیں گے جن کے نقوشِ پا
دروازہ اجتہاد کا ہوگا کبھی نہ بند
آقا حضورؐ، آپؐ کی امت کا آج بھی
ہر باب زندگی کا رقم آنسوؤں سے ہے
دیمک نے چاٹ لی ہَے سخن کی حسِ جمال
تارِ نفس بھی ٹوٹ کے قدموں میں آ گرے
فتنوں کی سر زمین پر اک شور ہَے بپا
ہر آدمی ہَے قریۂ زر کی تلاش میں

رستے سے کیا ہٹاؤ گے گرد و غبار کو
روشن رکھو ضمیر کے لیل و نہار کو

218

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
منسوخ کرکے جَبر کا ہر ضابطہ یہاں
جو عافیت کے پھول بکھیریں گے ہر طرف
توحید کے چراغ دلوں میں جلائیں گے
انسان کے ضمیر میں کرنیں بچھائیں گے
اس کو محاسبے کا عمل بھی سکھائیں گے
تاریخ کی جبیں پہ ستارے سجائیں گے
ہر صبحِ ارتقاء کا مقدر جگائیں گے
ہر آدمی کو آپؐ ہی انساں بنائیں گے
دامن ہمارا ظلمتِ شب سے چھڑائیں گے

کون و مکاں کی آنکھ کے تارے حضورؐ ہیں
سب سے عظیم فرد ہمارے حضورؐ ہیں

219

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اصحابؓ جن کو رکھیں گے جانوں سے بھی عزیز
جن پر سلام عرض کریں گے نماز میں
اصحابؓ اُنؐ کی مجلسِ علم و شعور میں
جلوہ فروز ہوتے بڑے احترام سے
جیسے سروں پہ اُن کے پرندوں کا ہو قیام
تنبیہ ہَے یہ بندے کو پروردگار کی
آواز تیری نطقِ نبیؐ سے نہ ہو بلند
ایسا نہ ہو کہ جائیں اکارت عمل تمام
اور تجھ کو اس خبر کی خبر تک نہ ہو سکے

تم عظمتِ رسولؐ کے روشن کرو چراغ
طیبہ کی سَمت آج بھی لے کر چلو چراغ

220

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ادب سکھاتا ہَے قرآں کا ہر ورق
لازم ہوا درود بھی ہر بندگی کے ساتھ
ہر لفظ باوضو ہو تمہارے کلام کا
اُنؐ کا ہَے اسمِ پاک اذانوں میں بھی بلند
ہونٹو! کھلاؤ آج بھی اسمِ نبیؐ کے پھول
آنکھو! جھکو ورق پہ بڑے احترام سے
چومو ادب سے میرے محمدؐ کے نام کو
بوسے ریاضؔ اپنے قلم کے لو صد ہزار
اور حرفِ نعت لوحِ ادب پر رقم کرو

میری لغت کے سر پہ عمامہ ادب کا ہَے
یہ احترام آپؐ کے نام و نسب کا ہَے

221

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
امت ہَے جن کی خیرالامم حشر تک، مگر
یہ شرط ہَے کہ اُنؐ کے قدم چومتے ہوئے
راہِ عمل میں بڑھتی رہے ذوق و شوق سے
امت ہدف بنے نہ کسی انتشار کا
خانوں میں خود کو بانٹنے کا ظلم مت کرے
فرمانِ مصطفیٰؐ سے کبھی منحرف نہ ہو
تقویٰ چراغ بن کے جلے رہگذار میں
حُبِّ نبیؐ کے، شاخِ نظر پر کھلیں گلاب
دامانِ مصطفیٰؐ کبھی چھوٹے نہ ہاتھ سے

گردِ رہِ نبیؐ کو بنائے جو سر کا تاج
ہر عہد میں کرے گا، خدا کی قسم، وہ راج

222

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے کرم کا دائرہ ہر شے پہ ہَے محیط
آقاؐ مرے، جواز ہیں ہر اک وجود کا
آقاؐ کے نقشِ پا کا تصدق ہَے کائنات
جتنے ہیں کائنات کے ذرے، خدا کرے
وہ سال میری عمر کے بن جائیں اور پھر
توفیق دے خدا کہ ثنائے نبیؐ کروں
لیکن یہ میری عمر بھی ہو ایک دن تمام
لا ہی سکوں نہ حیطۂ تحریر میں کبھی
اوصاف اُنؐ کی ذاتِ تقدّس مآبؐ کے

ہر حسن کائنات کا دھوون ہَے آپؐ کا
جائے پنہ ہماری بھی دامن ہَے آپؐ کا

223

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آئے گا کام جن کا حوالہ، بروزِ حَشر
وہ کاروانِ عشق کے سالارِ محتشمؐ
سردارِ کائناتؐ کا ثانی نہیں کوئی
نائب زمیں پہ ہیں وہی ربِ کریم کے
آقا حضورؐ، آج بھی میری زمین پر
غیروں کی دسترس میں ثقافت کا نور ہے
آقا حضورؐ، جرمِ ضعیفی کے کھیل میں
نیلام گھر میں غیرتِ ملّی بھی بک چکی
ہم خود جلا رہے ہیں اثاثے شعور کے

اجداد کے کفن سرِ بازار لائے ہیں
منحوس ساعتوں کے سیہ ابر چھائے ہیں

224

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل سکّے ملیں گے شعور کے
جن کے طفیل ہوں گی دعائیں بھی مستجاب
جن کے طفیل، ہو گی مرے گھر میں روشنی
جن کے طفیل، لوح و قلم کو ملا ادب
جن کے طفیل، رنگ دھنک کو ہوئے عطا
جن کے طفیل، خلدِ سخن میں کھلے ہیں پھول
جن کے طفیل، وقت ابھی تک سفر میں ہے
جن کے طفیل، بادِ خنک ہَے رواں دواں
جن کے طفیل، چاند کو روشن قبا ملی

ہر روشنی نگاہ میں صلِّ علیٰ کی ہے
ہر آگہی کنیز درِ مصطفیٰؐ کی ہے

225

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل، ارض و سما کو ملا ثبات
جن کے طفیل، ابرِ کرم پر فشاں ہوا
جن کے طفیل، بادِ بہاری اِدھر چلی
جن کے طفیل، دامنِ شب میں جلے چراغ
جن کے طفیل، مجھ کو قلم کا ملا جمال
جن کے طفیل، طاقِ سخن میں ہَے روشنی
جن کے طفیل، اجلی قباؤں میں ہَے بدن
جن کے طفیل، نطق و بیاں کو ملا سرور
جن کے طفیل، منصبِ نعتِ نبیؐ ملا

آؤ رسولِ اوّل و آخرؐ کا نام لیں
دامانِ مصطفیٰؐ کو عقیدت سے تھام لیں

226

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل، قلب و نظر کو ملا قرار
جن کے طفیل، ربط خدا سے ہوا ریاضؔ
جن کے طفیل، خلقِ خدا کو ملی نجات
جن کے طفیل، گلشنِ ہستی میں ہَے بہار
جن کے طفیل، کاسۂ فن معتبر ہوا
جن کے طفیل، شاخِ تمنا ہری ہوئی
جن کے طفیل، کِشتِ ادب میں اُگے حروف
جن کے طفیل، موسمِ گل میں رہے قلم
جن کے طفیل، ارضِ معطّر ہمیں ملی

روشن چراغِ عشقِ نبیؐ آشیاں میں ہو
گردِ رہِ حضورؐ، مری داستاں میں ہو

227

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انصاف جن کے دامنِ رحمت کی ہَے عطا
توحیدِ کردگار کے روشن کئے چراغ
سجدے، جبینِ شوق کا، مقصود بن گئے
تشنہ لبوں پہ چشمۂ رحمت رواں ہوا
رزقِ زمیں بتوں کو کیا ہَے حضورؐ نے
پروردگار، آج بھی توفیق دے مجھے
طشتِ ہنر میں نعتِ نبیؐ کے رکھوں گلاب
سر پر اٹھا کے طشتِ ہنر، خلد کی ہوا
شہر نبیؐ کی سَمت ہو محوِ خرام پھر

وردِ زباں، ریاضؔ، رہے مصطفیٰؐ کا نام
اس کیفِ سرمدی میں ہو عمرِ رواں کی شام

228

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہالے ہزار رحمتوں کے جن کے گرد ہیں
جن کو ہر احترام کی چادر عطا ہوئی
سردارِ کائناتؐ کے اعلانِ حق کے ساتھ
پیوندِ خاک ہوگئے جھوٹے خدا تمام
اُس کی ربوبیت کے علم ہیں کھُلے ہوئے
ہر ذرہ اُس کی حمد میں مصروف ہَے، سنو،
اُس کے نبیؐ کے نام کا سکّہ رواں ہوا
اُس کے نبیؐ کے نقشِ کفِ پا بنے چراغ
اُس کے نبیؐ کی شانِ رسالت کا ذکر ہو

ہر شب گدازِ عشقِ پیمبرؐ ملا کرے
شاخِ دعا پہ پھول کرم کا کھلا کرے

229

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ہر ایک لفظ وثیقہ ہَے امن کا
جن پر نزول، رحمتِ حق کا ہَے ہر گھڑی
جو ربِ کائنات کے افضل رسولؐ ہیں
فاراں کی چوٹیوں سے جو ابھرا تھا آفتاب
ضامن وہ آفتاب ہَے انوارِ خیر کا
ذہنوں میں جس نے نور کے روشن کئے چراغ
مولا! قلم کو خلعتِ انوار ہو عطا
ہر لفظ روشنی کا قصیدہ کرے رقم
ہر لفظ میرا عجز کا پیکر بنا رہے

آغازِ نعت ہوگا درود و سلام سے
لکھّوں گا حرف حرف بڑے اہتمام سے

230

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رکھیں گے انقلابِ محبت کی جو بِنا
ہر طاقِ زندگی میں جلائیں گے مشعلیں
ہر ضابطہ کریں گے مدوّن حیات کا
انسان کو خلوص کا دے کر سبق، حضورؐ
ہر انتہا سے اس کا بھی دامن چھڑائیں گے
انساں کو اعتدال کی راہوں پہ لائیں گے
چاہا گیا ہَے ٹوٹ کر اس ذاتِ پاک کو
یہ عظمتِ بشر کی ہیں روشن تریں مثال
ہر دور کا نصاب ہَے اسوہ حضورؐ کا

اللہ سے آج بھی زرِ زیبائی مانگیئے
سانسوں کے ساتھ انجمن آرائی مانگیئے

231

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر ذی نفس سے جن کے مراتب بلند ہیں
جس عظمتوں کے تخت پہ وہ جلوہ گر ہوئے
اُس تخت کے مَیں پائے کا ہوتا کبھی غبار
اور چومتا حضورؐ کے قدموں کو رات دن
اوجِ فلک پہ ہیں مری قسمت کے دائرے
پہچان مجھ کو نعتِ نبیؐ سے عطا ہوئی
پہچان یہ ہَے آئنہ خانے کی آبرو
یہ آبرو اگاتی ہَے سانسوں میں روشنی
یہ روشنی لغت میں بکھیرے گی آبِ زر

بزمِ جہاں میں نعت کا اعجاز دیکھنا
مجھ سے غریبِ شہر کا اعزاز دیکھنا

232

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر حسن جن کے در کا بھکاری ازل سے ہَے
ہر حسن جن کے ٹکڑوں پہ پلتا ہے آج بھی
افکار تازگی کا نیا پیرہن لیے
اترے بساطِ علم و ادب پر بصد خلوص
مخزن حروفِ نور کا ہَے کشورِ خیال
اس کشورِ خیال کی مہکی ہوئی حدود
لوح و قلم پہ چاند ستارے سجا گئی
ہر ذرہ سنگِ میل ہَے طیبہ کی راہ کا
ہر ہر شجر کھڑا ہَے پذیرائی کے لیے

بے مثل زندگی میں ہَے کردار آپؐ کا
عنبر فشاں رہے گا چمن زار آپؐ کا

233

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر سَمت جو چراغِ محبت جلائیں گے
زنجیر ٹوٹ جائے گی فسق و فجور کی
پاکیزگی کے نور میں لپٹے گا ہر عمل
چشمِ فلک نے دیکھا سب آسودگی کے پھول
ہر گھر کی سبز سبز منڈیروں پہ کھل اٹھے
آقا حضورؐ، آج وہ امن و سکوں نہیں
صر صر چلی ہَے جبرِ مسلسل کی، دہر میں
موجوں کی سرکشی کا گلہ کیا کوئی کرے
کشتی کو ناخدا ہی ڈبونے پہ ہیں بضد

خیموں میں آگ کس نے سرِ شب لگائی ہے
تاریخ کربلا کی تعاقب میں آئی ہے

234

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے وجودِ پاک کی اترن ہَے کہکشاں
موسم کرم کے جن کی ہیں راہوں میں خیمہ زن
گردن میں طوق جرمِ ضعیفی کا ہَے، حضورؐ!
امت کھڑی ہَے مقتلِ شب میں برہنہ سر
تاریخ کے کٹہرے میں سر ہَے جھکا ہوا
تلوار ٹوٹنے کا ہَے جاری ابھی عمل
ایوانِ اقتدار ہَے سازش میں خود شریک
ماتم کریں گھروں میں حریفانِ اقتدار
ہر سَمت تیرگی کے علم ہیں کھُلے ہوئے

نیلام گھر میں لائے ہیں اجداد کے کفن
بکھرے ہوئے ہیں قریۂ ناشاد میں بدن

235

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اسمائے پاک جن کے بشیر و نذیر ہیں
جن کو لقب ملا ہَے سراجِ منیر کا
ہر طاق میں جلائیں گے اخلاق کے چراغ
ہر جبر کے بھی ٹوٹیں گے سب ہاتھ آہنی
ہر شخص کو ملے گی اخوت کی چاندنی
آقاؐ، کرم کی ایک نظر کے ہیں ملتجی
اب کے برس بھی اہلِ ہوس کا ہَے فیصلہ
ریگِ رواں پہ خون کی کھیتی ہری رہے
جلتا رہے وطن کی ہواؤں کا پیرہن

لبریز اشکِ غم سے ہَے کاسہ شعور کا
دھڑکا لگا سا رہتا ہَے یومِ نشور کا

236

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
توڑیں گے جو جمود کا ہر قفلِ آہنی
مبعوث جب حضورؐ ہوئے تو زمین پر
لپٹا ہوا تھا دھند میں اسلوبِ زندگی
ہر شخص اپنی ذات کے مدفن میں دفن تھا
ہر سَمت کفر و شرک کی روشن تھیں مشعلیں
ہر سَمت انتقام کا جذبہ غضب کا تھا
قیدی تھے اپنے اپنے مفادات کے یہ لوگ
جھوٹے تعصبات میں تھا مبتلا بشر
موسم وہی ہَے آج بھی میری زمین کا

میرا ضمیر بارِ ندامت اٹھائے گا
اس خارشی بدن کو کہاں تک چھپائے گا

237

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر ذرہ کائنات کا جن کا ہے منتظر
ہر لمحۂ حیات کو ہَے اُنؐ کا انتظار
ہر شاخ پر بہار نے خیمے لگائے ہیں
آیا ہَے انقلاب کا موسم پسِ جمود
تخلیقِ اولیں مرے آقاؐ کا نور ہے
خوشبو ہوائے مکّہ کے ہَے دوش پر سوار
سورج ہَے اُنؐ کی راہ گذر میں بچھا ہوا
عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک کھلے گلاب
انساں کو اپنے محسنِ اعظم کی تھی تلاش

فرطِ ادب سے اسمِ نبیؐ چومنے لگی
حرفِ سپاس بن کے زمیں جھومنے لگی

238

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو آخری نبیؐ ہیں خدائے عظیم کے
سجدے میں گر پڑا ہَے لغت کا ورق ورق
لوح و قلم ادب سے کھڑے ہیں قدم قدم
موتی، چراغِ نعت بنے ہیں صدف صدف
تارے ہجوم کرنے لگے ہیں افق افق
ہر روشنی کے لب پہ درود و سلام ہَے
جگنو ثنائے پاک کے اڑتے ہیں ہر طرف
میری زمیں کے لب پہ ہیں نقشِ قدم کے پھول
رہ رہ کے آسمان کو تکتی ہیں بیٹیاں

خیرالبشرؐ حضورؐ ہیں، خیر الوریٰ حضورؐ
رہبر ہیں، رہنما ہیں، شہِ انبیائ، حضورؐ

239

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے لبوں پہ نورِ ہدایت ازل سے ہَے
آقا حضورؐ، ٹوٹا ہَے پندارِ آرزو
کب سے الجھ رہے ہیں بدن سے قضا کے ہاتھ
کب سے ہدف بنا ہَے تمنا کا بانکپن
کب سے چلی ہوئی ہیں حوادث کی آندھیاں
کب سے کھڑی ہَے شامِ غریباں میں زندگی
کب سے خزاں کے خیموں میں ہنگام ہَے بپا
کب سے بجھی ہوئی ہیں تفکر کی مشعلیں
اب قصرِ انقلاب کے دروازے بند ہیں

اک دھول اڑ رہی ہَے عمل کی حدود میں
برپا ہَے جشن محفلِ رقص و سرود میں

240

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
زندہ ہَے جن کے در کی غلامی کا ہر شرف
رہتا ہوں ان کے حجلۂ حسن و جمال میں
سوچیں مری بھی عجز کا پرچم لیے ہوئے
روزِ ازل سے اُنؐ کے ہیں در پر پڑی ہوئی
میری زباں کو بھی ملا اظہار کا ہنر
اس منصبِ جمیل کا، یارب، شعور دے
اک جرعہ مانگتا ہوں میں دریائے عشق کا
میرے حضورؐ، میرا مقدّر جگایئے
کب سے میں گُم ہوں نیند کے گرد و غبار میں

اِمشب ہو مجھ کو خواب میں دیدار، یانبیؐ
سونے کے مانگتا نہیں دینار، یانبیؐ

241

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مستور جن کے حسن کی ہے روشنی تمام
سرکارؐ میرے خواب میں آئیں گے ایک دن
اوجِ فلک پہ ہوگا مقدّر غریب کا
ہر آئنے میں دیکھوں گا عکسِ رخِ جمیل
لوں گا بلائیں بختِ رسا کی مَیں بار بار
یہ آرزو، ریاضؔ، لہو میں ہَے موجزن
اِمشب حصارِ خواب میں آنے سے پیشتر
پڑھ کر درود آپؐ کی ذاتِ عظیم پر
آنکھیں طوافِ گنبدِ خضرا کیا کریں

آقاؐ، غریبِ شہر کو خیرات دیجئے
تیرہ شبی میں نور کی برسات دیجئے

242

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مقصودِ کائنات فقط جن کی ذات ہَے
ہر دلکشی نقوشِ کفِ پا کا عکس ہے
حرفِ سپاس کو بھی سند ہو عطا حضورؐ
آقاؐ، مرے چمن میں نسیمِ کرم چلے
اتریں دھنک کے رنگ سرِ شاخِ آرزو
مہکیں گلاب نعت کے خوشبو کے ہاتھ میں
ڈوبا رہے قلم مرا کیف و سرور میں
رحمت کا آسماں سے مسلسل نزول ہو
یارب! تمام عمر یہی رتجگا رہے

پرچم مرے حضورؐ کا سب سے بلند ہے
رستہ ہر انحطاط کا صدیوں سے بند ہَے

243

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شہرِ ادب ہَے جن کا خنک موسموں کا رنگ
کھلتے ہیں جس چمن میں نسیمِ سحر کے پھول
خوش بخت لوگ شہرِ نبیؐ کے مکین ہیں
ہمسائیگی حضورؐ کی جن کو ہوئی نصیب
رحمت کا ابر جن کے سروں پر ہَے پرفشاں
جن کو نوید اذنِ شفاعت کی ہے ملی
باقی جو عمر درج ہَے میرے حساب میں
یارب! حدودِ شہر مدینہ میں ہو بسر
یارب! حدودِ شہرِ مدینہ میں موت دے

لپٹا ہوا ردائے دعا میں بدن ملے
مجھ کو غبارِ شہرِ نبیؐ کا کفن ملے

244

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
میلاد جن کا سارے صحائف میں ہَے رقم
قرآن کے نزول کی شب، قَدر کی ہَے شب
ارض و سما نے جھوم کر اس کو کیا سلام
لیکن، ریاضؔ، شب وہ بڑی ہی عظیم ہے
جس شب ہوا ہَے صاحبِ قرآن کا نزول
جس شب قدم حضورؐ نے رکھا زمین پر
جس شب کے سبز ہاتھ میں رحمت کے پھول ہیں
جس شب کا ذکر کرتے رہے انبیاء تمام
جس شب کے انتظار میں صدیاں گذر گئیں

آمد ہَے جن کی، فضل خدائے عظیم کا
احسان مومنوں پہ ہَے ربِ کریم کا

245

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شاہد ہَے جن کے چہرۂ اقدس کا کل جہاں
جن پر خدا کی رحمتیں اتریں گی ہر گھڑی
اور ہر گھڑی وہ رحمتیں بانٹیں گے ہر طرف
دیں گے گلاب، خاکِ شفا کے ہواؤں کو
بادِ صبا سجائے گی آنچل میں وہ گلاب
ہر شاخ پر کھلیں گے یہی رحمتوں کے پھول
خوشبو درود پڑھ کے کرے گی اُنہیںؐ سلام
جگنو درِ حضورؐ پہ کرنیں بچھائیں گے
شبنم دھنک کے رنگ چرائے گی آج بھی

تہذیب اُنؐ کے نام کا پرچم اٹھائے گی
طبقاتِ بے نوا کو گلے سے لگائے گی

246

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے کرم کا سب کے سروں پر ہَے سائباں
اُنؐ کا عمل جواب ہَے ہر اک سوال کا
تعلیم ہَے حضورؐ کی حق لا شریک ہے
ارضِ خدا پہ حکمِ خدا کا نفاذ ہو
ہر فلسفہ بھکاری ہَے اُنؐ کے علوم کا
نعتِ نبیؐ، ریاضؔ، درود و سلام کے
اوراقِ دل پہ پیکرِ شعری کا نام ہے
پروانۂ نجات ہے نعتِ نبیؐ کا نور
نعتِ حضورؐ لب پہ کھِلی ہَے کھِلی رہے

لکھّی ثنا تو لوح و قلم جھومنے لگے
فرطِ ادب سے ہونٹ مرے چومنے لگے

247

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مامور لفظ، جن کی ثنا پر، لغت کے ہیں
جن کا دفاع سنتِ ربِ جلیل ہَے
قرآن اس کا شاھدِ عادل ہے بے گماں
منصب بھی نعت گو کا ازل سے یہی تو ہَے
سنت عزیز ہَے مجھے پروردگار کی
نعتِ نبیؐ، فصیل ہَے اِس شہرِ علم کی
جس شہرِ علم کا علیؓ دروازہ ہیں، ریاضؔ
جس شہرِ علم کے ہیں غلاموں کے ہم غلام
جس شہرِ علم پر اَب و جَد بھی مرے نثار

دونوں ہتھیلیوں پہ جلیں نعت کے چراغ
اس روشنی میں اپنا ملے گا ہمیں سراغ

248

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو مقام، صاحبِ لولاکؐ کا ملا
سلطانِ کائناتؐ کا روشن وجود ہَے
تاریخِ کائنات کے ہر دور کا جواز
اُنؐ کے طفیل ارض و سما میں ہے روشنی
اُنؐ کے طفیل امنِ حقیقی کا ہَے ظہور
اُنؐ کے طفیل آج بھی شاداب ساعتیں
میرے قلم کے گرد گلستاں کھِلا گئیں
اُنؐ کے طفیل آدمِ خاکی ہَے سربلند
اُنؐ کے طفیل دخترِ حوّا ہَے مطمئن

ہر زاویہ نگاہ کا اُنؐ کو کرے سلام
ہر روشنی حضورؐ کے در پر کرے قیام

249

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تہذیب جن کے حرفِ منزہ کی خوشہ چیں
ساری ثقافتوں کے ہیں روحِ رواں حضورؐ
انساں خلا نورد بنا ہَے اسی لیے
لائے کہیں سے ڈھونڈ کے نقشِ کفِ حضورؐ
نقشِ کفِ حضورؐ سے روشن کرے چراغ
اور پھر یہی چراغ سجائے فصیل پر
ہر سَمت روشنی کا ابد تک ہو اہتمام
ہر وقت سیلِ نکہت و انوار ہو رواں
تاریکیوں کو رختِ سفر باندھنا پڑے

معمور کائنات ہَے نعتِ حبیبؐ سے
توفیقِ نعت ملتی ہَے لیکن نصیب سے

250

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی ثنا رقم ہَے کتابِ درود میں
جن کی ثنا ازل سے ہَے مقصد حیات کا
جن کی ثنا ہَے وقت کے چہرے پہ ضوفشاں
جن کی ثنا کے پھول ہیں لب پر کھِلے ہوئے
قرآن اُنؐ کے خُلقِ منّور کا آئنہ
تنہائیوں نے گھیر رکھا ہَے تو کیا ہوا
اوراقِ جان و دل پہ لکھو نامِ مصطفیٰؐ
رکھے گا نامِ سیّدِ ساداتؐ، ہمنشیں!
تجھ کو ردائے عشق و وفا کے حصار میں

اے شب، چراغِ نعت جلاتے ہوئے گذر
آنچل میں تیرے ٹھہری ہوئی ہے ابھی سحر

251

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
میلاد جن کا، عید ہَے اہلِ یقین کی
تاریخِ کائنات کا روشن تریں ہَے دن
اِس دن کے سر پہ تاج سجاؤ کئی ہزار
اِس صبحِ دلنواز پہ لاکھوں سلام ہوں
بیت اللحم ولادتِ عیسیٰ کا ہَے مقام
بیت اللحم میں اس لیے اسریٰ کی شب ریاضؔ
سردارِ دو جہاںؐ نے نوافل ادا کئے
کتنا عظیم گھر ہَے وہ جس گھر میں مصطفیٰؐ
تشریف لائے آمنہؓ بی بی کی گود میں

اس گھر پہ رنگ و نور کی بارش دوام ہو
کاشانۂ رسولؐ کو میرا سلام ہو

252

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر عکس کو وجود ملا جن کے نور سے
ہر نقش جن کے نقشِ قدم سے ہَے معتبر
تاریخ جن کے نقشِ قدم کی تلاش میں
محوِ سفر خلا کی ابھی وسعتوں میں ہَے
اُنؐ کا خیال ارض و سماوات کا ثبات
اُنؐ کا خیال وادیٔ شعر و سخن کی جاں
اُنؐ کا خیال نکہت و انوار کی پھبن
اُنؐ کا خیال شہرِ تیقّن کی آبرو
اُنؐ کا خیال ثروتِ دامانِ آسماں

سورج افق افق پہ ہے شر کی سپاہ کا
سایہ کرو تلاش رسالت پناہؐ کا

253

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر دور کا ضمیر ہَے جن کا ہر ایک لفظ
ہر حرف جن کا مکتبِ ہستی کا ہَے نصاب
ہر پھول جن کے حسنِ عمل کا ہَے پیرہن
اُنؐ کا درِ عطا ہَے خزینہ شعور کا
ڈھونڈیں گے لوگ اُنؐ کے مہذب دنوں کا نور
آقاؐ چراغِ نقشِ قدم ڈھونڈتا ہوں مَیں
اور مانگتا ہوں امن کی خیرات آپؐ سے
آقا حضورؐ، جبرِ مسلسل کا ہوں ہدف
(سائل! سوال کرنے کا پہلے ادب تو سیکھ)

آدم کی نَسل جھوٹے خداؤں کی ہَے غلام
جنگل کی شرمناک صداؤں کی ہَے غلام

254

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو ہیں کتابِ رشد و ہدایت کا سرورق
جن کی بلندیوں کی کوئی حد نہیں، ریاضؔ
میلاد پر چراغ جلائے مرا قلم
جس دن ظہورِ مرسلِ کون و مکاںؐ ہوا
وہ دن کتابِ زیست کا عنوان بن گیا
ہر ذرہ کائنات کا شکرِ خدا کرے
ٹوٹا طلسم جھوٹے خداؤں کا دہر میں
جس دن زمیں پہ عدل کا نافذ ہوا نظام
وہ دن ہی اعتبارِ بشر کی سند ہوا

وہ دن جبینِ وقت کا اختر ہَے حشر تک
صحنِ چمن میں صبح کا منظر ہَے حشر تک

255

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
محبوبِؐ کائنات ہَے جن کا وجودِ پاک
بعد از خدا، خدا کی خدائی میں آپؐ ہیں
سب سے بڑے نبیؐ ہیں وہؐ سب سے بڑے رسولؐ
جن کا ازل سے اسوۂ حسنہ مثال ہَے
جن کی کوئی نظیر نہیں شش جہات میں
وہ آخری کتاب کے ہر ہر ورق میں ہیں
ہر حکم اُنؐ کا حکمِ خدائے عظیم ہے
کتنی عظیم شب تھی وہ جس شب مرے حضورؐ
پھولوں بھری زمین پہ تھے جلوہ گر ہوئے

اُس شب کی عظمتوں کا تصوّر محال ہے
اُس شب کے سر پہ رحمت و بخشش کی شال ہے

256

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
قوسین کے مقام پہ جو ہوں گے جلوہ گر
جبریلؑ کی رسائی بھی ممکن نہیں جہاں
گذریں گے اُس مقام سے مہمانِ لامکاںؐ
عرشِ بریں پہ شوق کی مشعل لیے ہوئے ہوئے
اسرا کی رات ہوں گے فرشتے بھی منتظر
یارب، تجھے رسولِ مکرّمؐ کا واسطہ
دیدارِ مصطفیٰؐؐ سے مشرف ہمیں بھی کر
تسخیرِ کائنات سے تسخیرِ ذات تک
سیرِ سما ہَے نور کی رم جھم کی داستاں

کس شان کس مقام کے حامل رسولؐ ہیں
سب رفعتیں حضورؐ کے قدموں کی دھول ہیں

257

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مختص ہر امتیاز ہَے جن کے لیے، ریاضؔ
جن کے لیے ازل سے ہَے ہر آنکھ فرشِ راہ
سردارِ کائناتؐ کی آمد زمین پر
احسان ہَے عظیم خدائے عظیم کا
مخلوق پر ہَے فضل خدا کا نفس نفس
لازم ہَے شکر کیجئے پروردگار کا
روزہ حضورؐ رکھتے تھے ہر پیر کو ندیم!
یہ اس لیے کہ آپؐ کے میلاد کا ہے دن
ارض و سما میں پیر کا دن یومِ عید ہَے

میلادِ مصطفیٰؐؐ پہ چراغاں کیا کرو
عشقِ نبیؐ کا جام ادب سے پیا کرو

258

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آمد ہَے جن کی واقعہ تاریخ کا عظیم
پیغام تہنیت کے دیئے ساری خلق نے
آتش کدہ بھی بجھ گیا فارس کا دفعتاً
کنگرے زمیں پہ کسریٰ کے ایوان کے گرے
اور زلزلوں کی زد میں تھے اصنامِ سنگ و خشت
محبوبِ کائناتؐ کی آمد تھی اس لیے
ابلیسِ نامراد نہ کیوں روتا آج رات
تارے جھکے کہ چوم لیں روئے زمین کو
روئے زمیں کو جشنِ بہاراں ہوا نصیب

کلماتِ شکر لب پہ سجاؤ کہ عید ہَے
یومِ رسولِ پاکؐ مناؤ کہ عید ہَے

259

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ہَے عہد سارے زمانوں کی آبرو
جس وقت آفتابِ رسالت ہوا طلوع
میری زمیں بھی نور کے ہالوں میں آگئی
میری زمیں پہ ابرِ کرم کا ہوا نزول
میری زمیں تھی بہرِ سلامی جھکی ہوئی
میری زمیں تھی موسمِ شاداب کا جواب
میری زمیں پہ چاند ستارے بکھر گئے
یہ اس لیے کہ میری زمیں کو حضورؐ کے
قدموں کو چومنے کی سعادت ہوئی نصیب

آنکھوں سے چوم لوں کبھی پلکوں سے چوم لوں
نقشِ قدم حضورؐ کے، ہونٹوں سے چوم لوں

260

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہوں گے گواہ امتِ برتر پہ جو، ریاضؔ
اور باخبر بھی ہوں گے غلاموں کے حال سے
مخلوق ہر زماں کے ہیں شاہد مرے حضورؐ
کیا بات عیدِ صبح ولادت کی بات ہے
اصنامِ سنگ و خشت بھی سب منہ کے بل گرے
مسدود راستے ہوئے ابلیس کے تمام
اس صبحِ انقلاب کا منظر تھا دیدنی
تشنہ زمیں پکاری کہ سجدہ قبول ہو
کلماتِ شکر تھے لبِ کونین پر رواں

صلِّ علیٰ کے نور کا دریا تھا موجزن
خوشبو کے ساتھ حسن کا چرچا تھا موجزن

261

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
توثیقِ حرفِ خیر کا منصب جنہیں ملا
تکریم و احترام کی چادر بنی لباس
قائد ہیں مرسلین کے روزِ ازل سے وہؐ
میرے رسولؐ، میرے پیمبرؐ بھی ہیں وہی
روزِ ابد کے بعد بھی سالارِ قافلہ
اُنؐ کے وجودِ پاک کی خیرات روشنی
اُنؐ کے طفیل ملتی ہَے ہر اک کو زندگی
اُنؐ کے طفیل حرفِ عبادت بھی معتبر
اُنؐ کے طفیل وَجد میں آتی ہَے روشنی

اُنؐ کے طفیل پایا ہر امکان نے وجود
اُنؐ پر خدا بھی بھیجتا ہے ہر گھڑی درود

262

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
میلاد جن کا درج ہَے ام الکتاب میں
میلاد جن کا سنّتِ ربِّ جلیل ہے
میلاد جن کا حاصلِ کونین ہے، ریاضؔ
تخلیقِ کائنات کا باعث وہی تو ہیں
مقصودِ کائنات ہیں محبوبِؐ کردگار
آؤ اُسی رسولؐ کی ہم پیروی کریں
آؤ اُسی رسولؐ کا ہم تذکرہ لکھیں
آؤ اُسی رسولؐ کی توصیف ہو بیاں
آؤ اُسی رسولؐ کے دامن کو تھام لیں

اوراقِ جان و دل پہ رہے رقص میں قلَم
عشقِ نبیؐ کا، ہاتھ میں، تھامے رہے عَلم

263

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
احسان مند جن کی ہَے مخلوقِ ہر زماں
جن کا ہَے قَرض آدمِ خاکی کی نَسل پر
حور و ملک ہیں جن کی غلامی پہ مفتخر
جن کا ہَے نقشِ اوّل و آخر ہی زندگی
آثارِ روز و شب بھی ہیں صدقہ حضورؐ کا
بعد از خدا حضورؐ ہیں مختارِ انس و جاں
بعد از خدا حضورؐ ہی کا مرتبہ بلند
بعد از خدا حضورؐ ہی ہیں میری آرزو
بعد از خدا حضورؐ ہی ارض و سما میں ہیں

سکّہ مرے حضورؐ کا جاری ہَے آج بھی
سر پر فضیلتوں کا ازل سے ہے تاج بھی

264

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا تھا نور آدمِ خاکی کی پشت میں
اس واسطے یہ حکم ہوا، اے ملائکہ!
سجدہ کرو کہ آدمِ خاکی عظیم ہے
اس کی جبیں میں نورِ محمدؐ ہَے ضوفشاں
حوّا کا حقِ مہر تھا، اُنؐ پر پڑھے درود
اُس ذاتِ کردگار نے آدم کی، آخرش
جس نام کے وسیلے سے توبہ قبول کی
وہ نام تھا جنابِ رسالت مآبؐ کا
اس نام کے حصار میں زندہ رہا کرو

اس نام سے ملا ہَے زمانوں کو اعتبار
سب عظمتیں حضورؐ کے قدموں پہ ہیں نثار

265

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ازل ابد سے نہ ٹوٹے گا رابطہ
اُن کا سفر، ازل سے سفر روشنی کا ہے
محبوبِؐ کائنات ہیں سردارِ انبیائؐ
انسان کی نجات کا دروازہ کھول کر
پیغام دے رہے ہیں بشر کو قدم قدم
توحید کے چراغ جلاؤ روش روش
پھر بندگی کا نور ملے گا نفس نفس
اُس کے حضور اپنی جبیں کو جھکا کے دیکھ
پروردگار ہے وہی پروردگار ہے

سرکارؐ، ہم کو اپنے خدا سے ملایئے
اُس بارگاہِ ناز کا رستہ بتایئے

266

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تعمیرِ شخصیت کے جلائیں گے جو چراغ
کردار ہر بشر کا مدوّن کریں گے آپؐ
ہر شخص خیر و شر میں کرے گا اِدھر تمیز
کرنوں کے پھول حیطۂ علم و عمل میں ہوں
انساں کی سرکشی کا ازالہ کریں حضورؐ
دامانِ آرزو میں ہیں کانٹے بھرے ہوئے
کب سے حصارِ زر میں مقیّد ہَے آدمی
کب سے انا کے موسمِ بے رنگ میں ہیں لوگ
مسند بچھی ہوئی ہَے لہو میں غبار کی

آقاؐ، نئے دنوں کا اجالا ہمیں ملے
شاخِ بدن پہ پھول مساوات کا کھلے

267

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ارضِ خدا کی جن کو حکومت عطا ہوئی
مختارِ کل کے نائبِ اعظم ہیں اس لیے
اُنؐ کے تصرّفات میں سب کچھ دیا گیا
اُس رحمتِ دوام پہ لاکھوں سلام ہوں
لاکھوں سلام، لاکھوں کروڑوں درود ہوں
ہر عافیت ہو امتِ مضطر کے واسطے
آقاؐ کے سائبانِ کرم میں رہوں سدا
سنتے ہیں خوشبوؤں سے مری نعت وہؐ، ریاضؔ
بختِ رسا پہ ناز بھی مَیں یانبیؐ کروں

بختِ رسا کی، اپنے، بلائیں لیا کروں
اُنؐ کے کرم کی سر پہ ردائیں لیا کروں

268

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل پھول کھلیں گے چمن چمن
جن کے طفیل نجمِ سحر کو ملے گا نور
جن کے طفیل بادِ خنک ہوگی پرفشاں
جن کے طفیل مہکے گا دامن بہار کا
جن کے طفیل ہوں گی دعائیں مری قبول
جن کے طفیل لکھّے گی کلکِ ادب ثنا
جن کے طفیل نکھرے گا کرنوں کا بانکپن
جن کے طفیل باب کھُلے گا نجات کا
جن کے طفیل رزق ملے گا شعور کا

کیا خوب ہاتھ پر ہَے مقدّر کی روشنی
مجھ کو ملی ہَے نعتِ پیمبرؐ کی روشنی

269

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی تلاش میں ہَے ازل سے کرن کرن
جن کا ہَے نام وردِ زبانِ زمن زمن
جن پر درود پڑھتا رہے گا چمن چمن
جن کو سلام کرتا رہے گا سمن سمن
جن کا کھلے گا پرچمِ رحمت دمن دمن
جن کی ثنا کے دیپ جلائے پون پون
جن کے درِ عطا پہ جھکا ہَے بدن بدن
جن کے لیے سپاسِ ادب ہَے وطن وطن
جن کی ثنا کے پھول کھلے ہیں سخن سخن

معراج، نعت آپؐ کی، لوح و قلم کی ہے
ہر عہد کو تلاش نقوشِ قدم کی ہے

270

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر ہر مکاں ہَے جن کی رسالت سے مستنیر
ہر ہر زماں ہَے جن کی امامت سے مستفید
ہر ہر جہاں ہَے جن کی قیادت سے فیض یاب
ہر ہر گماں ہَے جن کے تصور کی دلکشی
ہر ہر نشاں ہے جن کے نقوشِ قدم کا پھول
ہر ہر زباں ہے جن کے حروفِ دعا کا چاند
ہر ہر اذاں ہَے جن کے مقامات کا ظہور
ہر ہر زیاں ہَے جن کی غلامی سے انحراف
ہر ہر بیاں ہے جن کے نصابِ ازل کا نور

روزِ ازل سے روزِ ابد تک کے درمیاں
ہر داستاں اُنہیؐ کے کرم کی ہَے داستاں

271

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
غارِ حرا ہَے جن کے تیقّن کا پیرہن
غارِ حرا ہَے شاھدِ عادل زمین پر
انفاسِ مصطفیٰؐ کی خنک روشنی ہَے یہ
غارِ حرا میں ہاتھ تھے اٹھے حضورؐ کے
سامان ہو گیا تھا ہماری نجات کا
ذکرِ جمیل آپؐ کا ہر اک لغت کا نور
ہر حرف سر پہ تاجِ غلامی لیے ہوئے
ہَے منتظر کہ شاخِ ثنا پر کھلے کبھی
ہم نے کتابِ دل میں لکھا ہَے اُنہیؐ کا نام

اُنؐ کی گلی کی روشنی حسرت قلم کی ہے
ذکرِ جمیل آپؐ کا، ثروت قلم کی ہے

272

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی تلاش میں ہَے ازل سے افق افق
اترن مرے حضورؐ کے قدموں کی ہَے صبا
رعنائیِ خیال ہَے دھوون حضورؐ کا
ہر دلکشی ہَے چہرۂ اقدس کی دلکشی
ہر آئنے میں عکسِ پیمبرؐ ہَے جلوہ گر
ہر ہر قدم پہ نقشِ کفِ پا کی ہَے بہار
معراج ہم غلاموں کی آقاؐ کے ہیں قدم
بنیاد قصرِ دیں کی ہَے الفت حضورؐ کی
تسکینِ دل ملے گی غبارِ حجاز میں

دامن رسولِ امن کا پھر تھام لیجئے
اب تو شعور و عقل سے کچھ کام لیجئے

273

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر روشنی ادب سے کرے گی جنہیں سلام
حسن و جمال کا ہیں مرقّع مرے حضورؐ
ہر لمحہ اُنؐ کے دامنِ رحمت میں لے پناہ
ہر ساعتِ عزیز جھکے بہرِ احترام
اب تک زمین پھول اُگاتی ہَے اس لیے
چومے کبھی تھے اس نے نقوشِ کفِ حضورؐ
بختِ رسا پہ نازاں ہَے یہ کس قدر زمیں
اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا
اس پر پڑی ہیں گنبدِ خضرا کی تابشیں

پلکوں پہ نقشِ پائے محمدؐ سجائے گی
مَحشر تلک زمین ستارے اُگائے گی

274

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شہرِ خنک ہَے جن کا بہاروں کی آرزو
قرآن ہَے محامدِ آقاؐ کا آئنہ
روشن ہیں لفظ لفظ میں توصیف کے چراغ
ذکرِ نبیؐ کو خلعتِ عظمت عطا ہوئی
رعنائیِ خیال کے جھرمٹ میں ہَے قلم
طائف کے سنگدل نہیں، سرکارؐ پر فلک
ہر وقت رحمتوں کی لٹاتا ہَے کہکشاں
ہر وقت اوج پر ہَے ستارا حضورؐ کا
اُنؐ کی جبینِ نور پہ کوئی شکن نہیں

آنکھیں ردائے لطف و کرم میں چھپی رہیں
فرطِ ادب سے شہرِ سخن میں جھکی رہیں

275

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سیارگانِ چرخ بھی ہیں جن کے منتظر
چہرہ مرے حضورؐ کا قرآں کا ہَے ورق
دلجوئیِ حضورؐ ہی منشا خدا کی ہے
لوحِ عمل پہ حرفِ تسلّی رقم ہوا
قلبِ حضورؐ مخزنِ علم و شعور ہے
سوز و گداز جس کی ہے دھڑکن میں موجزن
پرچم شفاعتوں کا ہَے آقاؐ کے ہاتھ میں
نسبت مرے حضورؐ کی نسبت ہَے لازوال
ہیں کائناتِ حسن کا سرمایہ مصطفیٰؐ

ہر شامِ ابتلا کو چراغِ حرم ملے
دیوار و در کو سایۂ ابرِ کرم ملے

276

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اللہ سے جن کو مسندِ محبوبیت ملی
ننگے سروں پہ چادرِ رحمت نبیؐ کی ہے
شاداب موسموں کا تبسم اُنہیؐ سے ہے
تشنہ زمیں کی پیاس بجھائی حضورؐ نے
کرنوں کے پھول شاخِ تمنا پہ کھل اٹھے
عرفان و آگہی کا ہیں محور مرے حضورؐ
آقاؐ کتابِ حسن کا ہیں آخری ورق
حق کے سوا حضورؐ نے کچھ بھی نہیں کہا
اصحابؓ اُنؐ کے پیکرِ عجز و نیاز تھے

قندیلِ عشق کی مجھے بھی روشنی ملے
خامے کو اسمِ پاک ہی کی دلکشی ملے

277

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تکمیل قصرِ دیں کی ہوئی جن کے نور سے
کس نے لیا ہَے اسمِ گرامی حضورؐ کا
لب پر بہار صلِّ علیٰ کی امڈ پڑی
پلکیں ہماری بہرِ سلامی جھکی رہیں
ہر لفظ علم و حکمت و دانائی کا چراغ
ہوتے ہیں لب کشا تو مچلتی ہَے کائنات
تاریخ ارتقا کی ہَے باندی حضورؐ کی
ہر عہد کی حضورؐ ہی دانش ہیں، دوستو!
دشمن نبیؐ کا قعرِ مذلّت کا رزق ہے

طیبہ کے راستوں میں مہک ہَے حضورؐ کی
رستے بھی نور کے ہیں تو گلیاں بھی نور کی

278

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
وحیٔ خدا کا جن پہ مقفّل ہوا ہَے در
تسخیرِ ذات آپؐ کی تقلید کا ثمر
عشقِ نبیؐ کا ہاتھ میں جلتا رہے چراغ
دیوار ہَے ہوائے مخالف کی راہ میں
شیریں کلام، طرفہ بیاں تھے مرے حضورؐ
خوشبو چراغ لے کے کھڑی ہَے قدم قدم
کلیاں چٹک رہی ہیں زمینِ حجاز میں
ہاں، تمکنت، وقار کا مخزن حضورؐ ہیں
آدم کی نَسل! اُنؐ کی غلامی پہ ناز کر

قوسِ قزح افق کے دریچوں میں آئی ہے
دامن میں پھول گنبدِ خضرا کے لائی ہے

279

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مہکے گا جن کے نام سے قریہ حیات کا
ہر ذرہ کائناتِ عریض و بسیط کا
گردن میں بندگی کے لیے طوق صد ہزار
مصروف ہَے طوافِ خدائے رحیم میں
اظہار بندگی کا ہَے اسلوبِ دلنشیں
ہستی جنابِ سیّدِ کونینؐ کی ریاضؔ
ہر حسنِ کائنات کا ہَے نقطۂ کمال
شاخِ ثنا پہ پھول کھلاتی رہے صبا
توصیف کے چراغ جلائے چمن چمن

زیبائیِ قلم کا حسیں ماہتاب ہے
چہرہ مرے حضورؐ کا روشن کتاب ہے

280

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا وجودِ پاک مرقع ہَے نور کا
اُنؐ کی جبینِ پاک کو بوسہ دیئے بغیر
ہرگز نہ روشنی کو ملے گا سفر کا اذن
باطن کی روشنی بھی ہَے خیرات آپؐ کی
ہر روشنی ہی پائے مقدس کی دھول ہے
اُنؐ کے وجودِ پاک پہ ہر روشنی نثار
دستِ عطائے سرورِ کون و مکاںؐ ہی سے
سب کو ردائے شفقت و راحت ہوئی عطا
دعویٰ مجھے بھی رحمتِ سرکارؐ ہی کا ہے

یارب! مجھے حضورؐ کی روشن گلی ملے
شاخِ قلم پہ آج بھی اسمِ نبیؐ کھلے

281

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تضحیک جن کے منفرد اسلوب کی ہَے ضد
چہرہ مرے حضورؐ کا ہَے مرکزِ نگاہ
انگلی اٹھے تو وَجد میں آجائے چاند بھی
اسمِ حضورؐ لب پہ سجایا ہی تھا ابھی
کشکولِ آرزو مرا پھولوں سے بھر گیا
بارش مری زمیں پہ ہوئی لطفِ خاص کی
آقاؐ کا ہر عمل ہَے اثاثہ شعور کا
مخلوقِ ہر زماں کے سروں پر ہَے سائباں
وہ سائباں کرم کا زمانوں پہ ہَے محیط

ہر عہد، بھیک امن کی، لے گا حضورؐ سے
طیبہ میں لوگ آئیں گے نزدیک و دور سے

282

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا کرم ہَے ارض و سماوات پر محیط
آقا حضورؐ نور کی ہیں آخری کتاب
جس کے ورق ورق پہ ہیں سچائیاں رقم
گردِ فریبِ، راہِ صحابہؓ سے دور تھی
دھوکے کا لفظ نامۂ اعمال میں نہ تھا
مکر و ریا کا نام و نشاں بھی نہیں ملا
روشن ہر ایک نقش تھا روئے جمیل کا
روشن ہر ایک نقش ہَے روئے جمیل کا
تمثیلِ بے مثال ہَے ہر حرف آپؐ کا

شایانِ شان آپؐ کے میرا قلم نہیں
شایانِ شان نعت ورق پر رقم نہیں

283

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دو میٹھے جن کے بول ہی مرہم شفا کا ہیں
بیدار قلب اُنؐ کو خدا نے عطا کیا
میرا قلم، زبان مری، میری کائنات
ہر ہر ادائے سرورِ کونینؐ پر نثار
روشن چراغ قصرِ دعا میں ہیں آج بھی
ہر ذی نفس ہَے نقشِ کفِ پا کے سائے میں
سایہ مرے حضورؐ کا ارض و سما پہ ہے
مانگو دعائیں اُنؐ کے وسیلے سے ہر گھڑی
کھِلتے ہیں پھول ہادیٔ برحقؐ کے نام پر

سورج کھڑا ہَے سر پہ قیامت کا آج بھی
آنسو گرے، ریاضؔ، ندامت کا آج بھی

284

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رحمت ہَے جن کے حیطۂ اوصاف کا کمال
چہرہ ازل سے نور کی رم جھم کہوں جسے
لوحِ ادب پہ اسمِ محمدؐ ہَے ضوفشاں
اب اس کے بعد کس میں ہے جرأت، سرِ ورق
دعویٰ کرے کہ حقِ ثنا کر دیا ادا
دھوئے گئے ہیں کوثر و تسنیم سے، مگر
لفظوں میں کیا بیان ہو توصیفِ مصطفیٰؐؐ
عاجز قلم ثنائے نبیؐ سے ہے، کیا لکھے
میری لغت ادب سے کھڑی کی کھڑی رہے

مَحشر تلک میں نعت کی مشعل جلاؤں گا
مَحشر کے بعد بھی نئی نعتیں سناؤں گا

285

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
لیں گے شعورِ امن کی خیرات جن سے لوگ
باطل پہ ضَرب کاری لگائی حضورؐ نے
ہر جَبرِ ناروا کو مقیّد کیا گیا
ہر مسندِ فریب کو خاکِ فنا ملی
بنیاد انقلابِ محبت کی ہَے عمل
ممکن نہ اختلاط تھا جبرِ عظیم سے
روئے زمیں پہ عدل کا نافذ ہوا نظام
کچلے ہوئے بشر کو نویدِ سحر ملی
انسان کو وقار کی چادر عطا ہوئی

صدیوں سے انحطاط کے ہر سَمت جال ہیں
صدیوں کے ماہ و سال حروفِ زوال ہیں

286

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
وہ جو سلامتی کی علامت ہیں بالیقیں
پاکیزگی کا آپؐ پہ سجتا ہَے پیرہن
باطن بھی روشنی کے لباسِ جمیل میں
ظاہر بھی روشنی کے لبادے میں آپؐ کا
ظاہر بھی اُنؐ کا نور ہَے، باطن بھی اُنؐ کا نور
اِس نورِ سرمدی کے اُجالوں میں ہم رہیں
محتاج خوشبوؤں کی تھی کب ذاتِ مصطفیٰؐ
خوشبو کو اعتبار ملا اُنؐ کے لَمس سے
ہَے خوشبوؤں کو نسبتِ آقاؐ کی آرزو

بوئے چمن سے رابطہ رکھوں گا استوار
مَحشر تلک کروں گا اُنہیؐ کا مَیں انتظار

287

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بچپن بھی جن کا خیر کی روشن مثال ہے
قرآن جو حضورؐ پہ نازل کیا گیا
ہَے نورِ آسمانی کی قندیل آخری
یہ آخری کتاب ہَے پروردگار کی
یہ آخری رسولؐ ہیں پروردگار کے
یارب! زمیں پہ جرمِ ضعیفی کا در ہو بند
یارب! مجھے وسیلۂ رحمت نصیب ہو
اس حسنِ لازوال کے سائے میں مَیں رہوں
مَحشر میں میرے سر پہ ہو سایہ حضورؐ کا

ناقہ مرے شعور کی سوئے حرم چلے
خوشبو، ریاضؔ، میرا، اٹھا کر، قلم چلے

288

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
روشن رہے گا جن کے تقدّس کا آفتاب
انساں کو اعتماد کے دیں گے عَلم کئی
قلبِ نبیؐ عظیم امانت کے بوجھ سے
ریزہ ہوا نہ خوف و تجسس میں گم ہوا
دیوانہ ایک سرورِ کون و مکاںؐ کا ہوں
دیوانہ وار شہرِ نبیؐ سے لپٹ گیا
دیوانہ وار طیبہ میں پھرتا رہا ہوں مَیں
شہرِ نبیؐ میں گنبدِ خضرا کو دیکھ کر
پڑھتا رہا درود مسلسل حضورؐ پر

مدحت کے پھول شاخِ قلم پر کھلے رہیں
آپس میں ہونٹ میرے ابد تک ملے رہیں

289

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو ہیں کتابِ عظمت و رفعت کا سر ورق
سن لو، اساسِ دیں ہَے محبت حضورؐ کی
اقلیمِ عشق میں ہَے بپا جشنِ مصطفیٰؐ
ہر لمحہ جب درود پڑھے تو سرِ چمن
بادِ صبا چراغ جلاتی ہَے نعت کے
خوشبو، کتابِ سیرتِ اطہر کو کھول کر
ہر شاخِ لب پہ پھول کھلاتی ہَے نور کے
جگنو چمک چمک کے منادی کریں، ریاضؔ
پرچم کھُلا ہَے آمدِ خیرالبشرؐ کا آج

آقا حضورؐ، آپؐ کو میرا سلام ہو
بادِ کرم کا میری گلی میں قیام ہو

290

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو کائناتِ حسن کی ہیں آخری کتاب
ہر دلکشی حضورؐ کے قدموں پہ ہَے نثار
ہر روشنی ہَے چہرۂ انور میں جلوہ گر
وہ حسن جس کی کوئی نہیں آج تک مثال
وہ حسن جو جواز ہَے اس کائنات کا
وہ حسن شاہکار ہَے ربِ کریم کا
وہ حسن ہَے ہمارے تخیّل سے ماورا
وہ حسن حرف و لوح و قلم کی ہَے آبرو
یارب! ثنا کا رزق مجھے بھی ملے ضرور

دستِ صبا میں شہرِ پیمبرؐ کے ہیں چراغ
روشن ریاضؔ، میرے مقدّر کے ہیں چراغ

291

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
وہ جو شعور و آگہی کے سر کا تاج ہیں
اُنؐ کو خدا نے مسندِ عظمت عطا ہَے کی
تذکارِ مصطفیٰؐ سے ہَے معمور کائنات
اُنؐ کا جمال حیطۂ ادراک میں کہاں
میرا بھی آپؐ ہی کے غلاموں میں ہو شمار
یارب! قدم قدم پہ کھُلے بابِ آرزو
یارب! نجات کے ہو دریچوں میں روشنی
یارب! ادب کے پھول کھلیں شاخ شاخ پر
یارب! ورق پہ نعت کی اترا کرے دھنک

یارب! ہتھیلیوں پہ کھلیں نعت کے گلاب
جگنو، درودِ پاک کے، لکھیں مرا نصاب

292

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا خیال سوچ کی پاکیزگی کا نام
مہتابِ رنگ و نور ہَے پیکر حضورؐ کا
اقلیمِ آرزو میں حکومت اُنہیؐ کی ہے
ارض و سما کو شہرِ مکرّم کی ہَے تلاش
خَلعت شفاعتوں کی اُنہیؐ کا ہَے پیرہن
آقاؐ، ردائے ابرِ کرم آج بھی ملے
میری بھی لوحِ دیدہ و دل پر اُنہیؐ کی نعت
روزِ ازل سے روزِ ابد تک ہَے جلوہ گر
روزِ ابد کے بعد بھی یاربِّ مصطفیٰؐؐ

لب پر گلاب نعتِ نبیؐ کے کھلا کریں
لفظوں کو آگہی کے ستارے ملا کریں

293

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو نقطۂ کمال ہیں تخلیقِ عبد کا
جو نقطۂ عروج ہیں عقل و شعور کا
جو چشمۂ حیات ہیں آبِ خلوص کا
بزمِ ادب میں اُنؐ کے سوا اور کون ہے
وہؐ روحِ کائنات ہیں وہؐ جانِ آرزو
مَیں لوحِ جاں پہ لکھتا ہوں رودادِ شامِ غم
دیں گے حضورؐ آ کے دلاسہ مجھے ضرور
بھر دیں گے پھول دامنِ لیل و نہار میں
میری کتابِ زیست کا عنوان آپؐ ہیں

بھر بھر کے چھاگلیں ابھی کالی گھٹا اٹھے
انوارِ مصطفیٰؐؐ سے زمیں جگمگا اٹھے

294

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی مثال ارض و سما میں کوئی نہیں
اپنی مثال آپؐ ہیں آقائے محتشمؐ
تاریخِ کائنات کا پہلا ورق ہیں آپؐ
ہر دائرہ عمل کا اٹھائے چراغِ پا
ہر فلسفہ حیات کا چنتا رہے گلاب
ہر زاویہ نگاہ کا بدلے چلن تمام
زیبائیِ حیات کرے آپؐ کو سلام
ہر سانس میں چراغ ثنا کے جلا کریں
مخلوقِ کردگار میں سب سے عظیم ہیں

ہم جو ادھورے لوگ ہیں تکمیل کے لیے
کوئی چراغ مانگ لیں آقا حضورؐ سے

295

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ذکرِ جمیل جن کا ہَے معراجِ روز و شب
میرے قلم کو عجز پہ ہَے ناز ہر گھڑی
دامانِ آرزوئے مدینہ میں آج تک
اک جرعہ بھی ثنائے نبیؐ کا نہ بھر سکا
لیکن یقین ہَے مجھے محشر کے روز، جب
مدحت نگار آئیں گے لے کے بیاضِ نعت
آخر میں نام آئے گا میرا بھی دیکھنا
مدحت نگار سیدّ ابرارؐ کا ہوں مَیں
پروانۂ نجات مرے ہاتھ میں بھی ہو

ہر نعت گو کے سر پہ غلامی کا تاج ہے
ہر نعت گو حضورؐ کے قدموں میں آج ہے

296

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خود ساختہ خداؤں کا توڑیں گے جو طلسم
انساں کو بندگی کا سلیقہ سکھائیں گے
صدیوں کے اس سفر میں بہت کچھ ہَے لٹ چکا
ہر لمحہ انحطاط کی چادر سروں پہ ہے
اپنا کیا دھرا ہَے سرِ مقتلِ انَا
اپنے ضمیرِ مردہ کو جھنجھوڑ کر ابھی
کہہ دیں کہ ہم کو جرمِ ضعیفی نہیں قبول
صدیوں کی مرگِ تشنہ لبی ختم ہو کبھی
سورج نئے دنوں کا افق پر ہو جلوہ گر

اے کاروانِ امتِ مضطر کے رہبرو!
ہوش و خرد سے کام کبھی تو لیا کرو

297

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تہذیب کو جو دیں گے نئے دن کی روشنی
ہر ضابطہ کریں گے مدوّن حیات کا
مشروط طاعتِ نبیؐ ہر گز نہیں قبول
ہر شرطِ ناروا سے مبرّا ہَے پیروی
آنکھوں کی کیا مجال جو نظّارہ کرسکیں
روئے رسولِ پاکؐ کا بزمِ خیال میں
حسّانِؓ بامراد کی مَیں اقتدا کروں
آنکھوں کو ڈھانپ لوں مَیں تصوّر میں آج بھی
آنکھوں کو چوم لوں سرِ بزمِ شبِ ثنا

آقاؐ، رحیم ہیں مرے آقاؐ کریم ہیں
اللہ کے بعد آپؐ ہی سب سے عظیم ہیں

298

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر حسن جن کا ادنیٰ بھکاری ہَے حشر تک
اُنؐ کے درِ عطا پہ کھڑا ہوں مَیں آج بھی
کشکولِ آرزو ہَے فقط آرزو کی دھول
گھیرے ہوئے ہیں زندہ مسائل بھی ان دنوں
آقاؐ، ہو میرے حالِ پریشاں پہ بھی نظر
آقاؐ، ہَے طاقِ جاں میں بجھے آنسوؤں کی راکھ
آقاؐ محیط تشنہ لبی ہَے فرات پر
آقاؐ، غضب کی شام مسلط ہَے آج کل
آقاؐ، مرے حروفِ ندامت قبول ہوں

دامن میں آرزو کے ستارے اتار دیں
کشتی کے آس پاس کنارے اتار دیں

299

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آمد ہَے جن کی مکّے کی روشن زمین پر
ہر موسمِ بہار اُنہیؐ کا ہَے خوشہ چیں
شاداب ساعتیں بھی مناتی ہیں رتجگے
اتریں زمیں پہ چاند ستاروں کی ٹولیاں
بادِ خنک کھلائے ثنائے نبیؐ کے پھول
ہر ذرہ کائنات کا روشن کرے چراغ
اوراقِ زندگی پہ ستارے رقم کرے
سردارِ کائناتؐ کی آمد کی رات ہے
اس رات پر نثار کرو حسنِ کائنات

اس رات کو مَیں صبحِ منّور کہا کروں
ہر روشنی کا اس کو مقدّر کہا کروں

300

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
میلاد جن کا درج ہَے ام الکتاب میں
محبوبیت کی ختم ہوئی جن پہ انتہا
وہ انتخابِ خالقِ اکبر ہیں دہر میں
ہر اک کمال اُنؐ کے درِ پاک کی عطا
ہر اک جمال نقشِ کفِ پا کا ہے حلیف
ہر چاند رات دامنِ سرکارؐ کی بہار
ہر حسن کے ہَے ہاتھ میں کشکولِ آرزو
بدر الدجیٰ کہوں اُنہیںؐ خیرالوریٰ کہوں
خیر البشرؐ حضورؐ ہیں، میرِ اممؐ حضورؐ

ممکن نہیں مثال کوئی دوں حضورؐ کی
وہؐ روشنی ہیں آدمی کے لاشعور کی

301

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خاتم ہیں ہر کمال کے جو کائنات میں
بعد از حضورؐ کوئی نبی کوئی بھی رسول
منجانبِ خدائے مقدّس نہ آئے گا
اصحابِؓ مصطفیٰؐ کی ہو عظمت بیان کیا
خوش بخت تھے کہ حالتِ ایمان میں انہیں
سردارِ دو جہاںؐ کی زیارت ہوئی نصیب
دیدِ رسولؐ اُن کے تھی ہر درد کا علاج
ان کے ہر ایک غم کا مداوا حضورؐ تھے
حُبِّ نبیؐ تھی اُن کے رگ و پے میں موجزن

اصحابِؓ مصطفیٰؐ کے نقوشِ قدم پہ چل
اصحابِؓ مصطفیٰؐ کے مقامِ ادب میں ڈھل

302

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
طاعت ہی جن کی طاعتِ ربِ جلیل ہے
جن کی رضا، رضا ہے خدائے رحیم کی
اہلِ رضا پہ فَرض ہَے ہر حکم آپؐ کا
انسانیت کو زندہ مسائل کی دھوپ میں
آداب زندگی کے سکھائے حضورؐ نے
اخلاق کے چراغ جلائے پسِ عمل
نافذ کیا یقین کو عزمِ صمیم سے
اہلِ وفا نثار ہوں آقاؐ کی ذات پر
ہر حکم احترام سے لائیں گے ہم بجا

جو کچھ، ریاضؔ، دامنِ ارض و سما میں ہے
وہ سب مرے حضورؐ کے دستِ عطا میں ہے

303

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر احترام درج ہَے جن کا کتاب میں
جن و بشر پہ فرض ہَے سرکارؐ کا ادب
بعد از وصال بھی ہَے ادب لازمی بہت
تصویر اس ادب کی تھے اصحابِؓ مصطفیٰؐؐ
قرآں نے احترامِ نبیؐ کا سبق دیا
آؤ، اُس احترام کے روشن کریں چراغ
آؤ، اُس احترام کا احرام باندھ لیں
آؤ اُس احترام کے کیف و سرور میں
ڈوبے رہیں کہ حشر کا سورج طلوع ہو

ہر حرفِ نعت شام و سحر جھومتا رہے
میرا قلم ورق کی جبیں چومتا رہے

304

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر حرف جن کا حرفِ تسلّی کی سبز رُت
ذہنوں کا زنگ جس نے اتارا وہ آپؐ ہیں
روحوں کا میل جس نے ہَے دھویا وہ ہیں حضورؐ
انساں بھٹک بھٹک کے بھی بھٹکا ہوا نہیں
اس کو یقیں ہَے دامنِ آقاؐ سے ایک دن
اس کو ملے گی امن کی دامن میں روشنی
اس کو ملے گا عدل و مساوات کا نظام
اس کی زباں پہ پھول کھلیں گے خلوص کے
نکلے گا چاند عِلم و ہنر کا سرِ قلم

فریاد اس کے تشنہ لبوں پر جو آئے گی
رحمت نبیؐ کی اس کو گلے سے لگائے گی

305

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو ملی ہَے مسندِ تحریم عرش پر
جن کو عطا ہوئے ہیں ردائے کرم کے رنگ
جن کو ملا ہَے خلعتِ توصیف کا جمال
جن کو عطا ہوئی ہَے شفاعت کی کہکشاں
بزمِ خیال میں وہی چہرہ ہَے زر فشاں
دامن میں ہیں ازل سے ثنائے نبیؐ کے پھول
مَیں عمر بھر ریاضؔ اِسی کیف میں رہوں
میرا قلم ورق پہ سجاتا رہے دیے
میری لحد میں نعتِ نبیؐ کے جلیں چراغ

گلشن سجے رہیں گے لحد کے جوار میں
نعتِ نبیؐ کے پھول کھلیں گے بہار میں

306

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آمد ہَے جن کی رخصتِ شب کا کھُلا جواز
آمد ہَے جن کی ثروتِ ایماں کی روشنی
آمد ہَے جن کی غلبۂ توحید کا عروج
آمد ہَے جن کی ندرتِ افکار کا نکھار
آمد ہَے جن کی نکہت و انوار کا گداز
آمد ہَے جن کی باعثِ تسخیرِ کائنات
آمد ہَے جن کی خیمۂ افلاک کا سبب
آمد ہَے جن کی بارشِ نسرین و نسترن
آمد ہَے جن کی واقعہ تاریخ کا عظیم

میلاد، روزِ عید ہَے خوشیاں منایئے
سینوں میں بھی چراغِ محبت جلایئے

307

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سانسوں میں جن کے نام کی اڑتی ہیں تتلیاں
اترے دھنک فلک سے قلم کے جوار میں
موتی رکھے ثنائے نبیؐ کے صدف صدف
اور جگمگائے نور نبیؐ سے ورق ورق
جگنو تمام رات سنائیں مجھے درود
رحمت وہ کل جہانوں کی مخلوق کے لیے
وہؐ عافیت کا، امن کا پیغام دائمی
وۂ سرحدِ یقیں پہ ہیں مینارۂ شعور
ہر آگہی کے ہاتھ میں کرنوں کے پھول ہیں

لب پر گلابِ اسمِ گرامی ازل سے ہے
میرے گلے میں طوقِ غلامی ازل سے ہے

308

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
وہؐ عافیت کی نکہتِ رحمت کریں گے عام
اندر کے آدمی کو بھی دیں گے نیا شعور
ہر شخص کو ضمیر کی دیں گے وہؐ روشنی
جس سے سدا ضمیر کی زندہ رہے خلش
کردار کے چراغ جلیں گے قدم قدم
تہذیب ذہنِ نو کی کریں گے مرے حضورؐ
پاکیزگی کا نور عمل کی اساس ہے
مکّے کی سر زمین پر آئے ہیں وہ نبیؐ
جو انقلابِ نو کی جلائیں گے مشعلیں

فرسودگی کا نام و نشاں تک مٹائیں گے
بنیاد قصرِ نو کی عمل پر اٹھائیں گے

309

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے، ریاضؔ، اسمِ گرامی کی خوشبوئیں
ہر دور کی جبیں پہ ستارے سجائیں گی
ہر عہد کے چلن کا کریں گی وہ احتساب
مَیں اور اُنؐ کی عظمت و توقیر کا بیاں
ذرے کو آفتاب سے نسبت بھی ہَے کوئی
میرا مقام، میرے قلم کا مقام کیا
اک ذرہ بھی نہیں مَیں مدینے کی راہ کا
مداح میں بھی والیٔ کون و مکاںؐ کا ہوں
سر پر سجی ہوئی ہَے غلامی کی روشنی

اک رابطہ ضرور عروسِ غزل سے ہے
نعتِ حضورؐ میرے لبوں پر ازل سے ہے

310

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر اک بشر کو دیں گے جو ایماں کی روشنی
دنیا کو دیں گے علم و عمل کا نیا نظام
سوچوں کو رنگ و نور کا دیں گے وہ پیرہن
اندر کی قوتوں کو جِلا دیں گے علم کی
دیں گے سبق عمل کا وہ اہلِ جمود کو
تفریقِ رنگ و نسل کے توڑیں گے بت تمام
آدم کی نسل ہونے کا، دیں گے ہمیں شعور
انسان کے حقوق کی بنیاد پر حضورؐ
قصرِ یقیں اٹھائیں گے خاکِ زمین پر

تاریخ ارتقا کے سفر میں ہَے آج بھی
اور سنگِ میل راہ گذر میں ہَے آج بھی

311

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دستِ صبا کو ایسا کریں گے قلم عطا
جو عافیت کے پھول کھلائے گا ہر طرف
جو امن کی زمین پہ چادر بچھائے گا
ہر لمحہ جس کے حیطۂ ادراک میں ہو گُم
وہ دن طلوع ہوگا اندھیروں کی کوکھ سے
فرسودگی کا خاتمہ کرنے وہؐ آئے ہیں
سوچیں روش روش پہ مناتی ہیں رتجگے
ہر قصرِ آرزو کے دریچے کھُلے رہیں
تازہ ہوا کی راہ گذر پر کھِلے ہیں پھول

انسانیت نجات کے رستے پہ آئے گی
ہر تیرگی سے دامنِ حیرت چھڑائے گی

312

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اصحابؓ جن کے عظمت و رفعت کی داستاں
تاریخِ حریت کے ہیں ابواب کا جلال
اصحابِؓ مصطفیٰؐ پہ، صبا، عافیت کے پھول
برسا، کہ اُن کا مرتبہ سب سے بلند ہے
برسا، کہ جاں نثار پیمبرؐ کے ہیں عظیم
رخصت کے وقت تھا لبِ حضرت خبیبؓ پر
مولا! سلام سیّدِ کونینؐ پر مرا
مذکور ہَے کہ آپؐ پہ پہنچا سلام جب
آنکھیں مِرے حضورؐ کی اشکوں سے بھر گئیں

اُس جاں نثارِ سیّدِ ابرارؐ پر سلام
میرے بدن میں بھی وہی جذبہ کرے قیام

313

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
احرامِ نعت جن کے تصوّر کا پیرہن
حرفِ ثنا ہَے آپؐ کی توصیف کے لیے
اِمشب بھی میرے قریۂ فکر و خیال میں
جھکتی رہی ہَے میری جبینِ نیاز و شوق
اٹھتے رہے ہیں بہرِ سلامی مرے یہ ہاتھ
جلتے رہے ہیں قلب و نظر میں نئے چراغ
مہکا رہا ہَے آج بھی میرا مشامِ جاں
ڈوبی رہی ہیں کیفِ مسلسل میں ساعتیں
گرتے رہے ہیں پھول کرم کے ورق ورق

بختِ رسا کی کیوں نہ بلائیں لیا کروں
عشقِ نبیؐ کے پھول صبا کو دیا کروں

314

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہَے جن کے دم قدم ہی سے سب رونقِ حیات
اور جن کے دم قدم سے ہوائیں ہیں نغمہ زن
اور جن کے دم قدم سے ملے گی ہمیں نجات
اور جن کے دم قدم سے ہَے مقبول ہر دعا
اور جن کے دم قدم سے ستارے کریں کلام
اور جن کے دم قدم سے ہَے خوشبو گلاب میں
اور جن کے دم قدم سے سحر کو ملی اذاں
اور جن کے دم قدم سے زمیں کی بجھی ہے پیاس
اور جن کے دم قدم سے دھنک پر فشاں ہوئی

اذنِ ثنا زبان کو ملتا رہے سدا
لب پر، گلاب نعت کا، کھِلتا رہے سدا

315

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل چاند ستاروں میں روشنی
جن کے طفیل شاخِ ثنا پر کھلے ہیں پھول
جن کے طفیل چادرِ رحمت ملی ہمیں
جن کے طفیل حرفِ تمنا ہَے معتبر
جن کے طفیل مردہ ضمیروں میں اضطراب
جن کے طفیل فکر کو راہِ عمل ملی
جن کے طفیل بادِ سحر کو ملا خرام
جن کے طفیل مستند ابوابِ زندگی
جن کے طفیل مہرِ اخوت سفر میں ہے

اُنؐ کے طفیل آدمی ہَے خیر کا سفیر
اُنؐ کے طفیل زندہ ہَے انسان کا ضمیر

316

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو پوری کائنات کا ہیں مرکزی خیال
وہ ماہتابِ نورِ محبت ازل سے ہیں
وہ آفتابِ رشد و ہدایت ہیں تا ابد
وہ انقلابِ خیر کا ہیں آخری حصار
ہر عِلم اُن کے نقشِ کفِ پا کا اقتباس
پرچم کھُلا ہَے آپؐ کا ہر اک فصیل پر
ہر موجِ آرزو میں لکھا ہَے اُنہیؐ کا نام
ہر بابِ ذوق و شوق پر اُنؐ کے نقوشِ پا
ہر ساعتِ عزیز اُنہیؐ کے ہَے واسطے

یارب! مَیں کیفِ نعتِ پیمبرؐ میں گم رہوں
اُس بے مثال شہرِ مصوّر میں گم رہوں

317

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ادب ہَے پہلا قرینہ شعور کا
محبوبیت کی چادرِ اقدس اُنہیںؐ ملی
منشا وہی ہیں ربِ قدیم و عظیم کی
بندو! مرے رسولؐ کی چوکھٹ پہ رات دن
تصویر احترام کی بن کر کھڑے رہو
آنکھیں تمہاری بہرِ سلامی جھکی رہیں
لب پر درودِ پاک کی مشعل جلی رہے
پڑھتے رہو درود پیمبرؐ کی آلؑ پر
آواز گفتگوئے نبیؐ سے نہ ہو بلند

شہرِ نبیؐ سے رابطہ ٹوٹے نہ، دیکھنا
دامن ادب کا ہاتھ سے چھوٹے نہ، دیکھنا

318

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
چارہ ہَے جن کا نام غمِ دو جہان کا
اسمِ نبیؐ رقم ہَے سرِ عرش اس لیے
توبہ قبول اس کے وسیلے سے سب کی ہو
گلشن میں پھول اس کے وسیلے ہی سے کھلیں
تاحشر گونجے اسم یہ تیری اذاں میں بھی
قرآں کے ہر ورق پہ اسی کی ہَے روشنی
نامِ خدا کے ساتھ ہَے نامِ حضورؐ بھی
اس نام کا چراغ جلے ہر نماز میں
جو صرف ہَے خدا کی عبادت کے واسطے

اسمِ حضورؐ اسمِ خدا سے جدا نہیں
مطلوب اُس کو تیرے حروفِ اَنا نہیں

319

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو یقیں کی دولت بیدار ہَے ملی
روئے زمیں پہ آپؐ سا کوئی بشر نہیں
ہر ہر قدم پہ آپؐ کی عظمت کے ہیں نقوش
ہر ہر قدم پہ صورتِ حسنِ عمل ہَے ایک
ہر ہر قدم پہ عظمت و رفعت کے آفتاب
ہر ہر قدم پہ گرمیٔ بازارِ عشق ہَے
طیبہ نگر کی اجلی فضاؤ سلام لو
آنکھیں رکھوں گا روزنِ دیوار میں ریاضؔ
یوں ہی جمالِ گنبدِ خضرا میں گم رہیں

طشتِ ہنر میں دونوں ہوں آنکھیں سجی ہوئی
ہر لفظ میں ہو نعتِ پیمبرؐ لکھی ہوئی

320

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی ثنا کے دیپ جلے ہیں سرِ فلک
ہر لمحہ بے مثال ہَے اُنؐ کی حیات کا
وہ کس قدر عظیم تھی خاتونِ پاکباز
جس کے ہوئے عزیز شہادت سے ہمکنار
اصحابِؓ مصطفیٰؐ سے مگر پوچھتی رہی
کیسے مِرے حضورؐ ہیں، کیسے ہیں مصطفیٰؐ
اُنؐ کو کہیں گزند تو پہنچی نہیں کوئی
آقا حضورؐ، آپؐ پہ لاکھوں سلام ہوں
میری بھی جان آپؐ کے قدموں پہ ہو نثار

اصحابؓ مصطفیٰؐؐ کے بڑے ہی عظیم تھے
خلدِ رسولِ پاکؐ کی بادِ نسیم تھے

321

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
چہرہ ہَے جن کا مرکزِ انوارِ سرمدی
مشتاق جن کی دید کے جبریلؑ تھے بہت
ہستی ہَے جن کی باعثِ تسکینِ جان و دل
بعد از وصال آپؐ کے، جینے کی کیا ہوس
بعد از وصالِ سرورِ کونینؐ، چشمِ تر!
مجھ کو ذرا بھی تیری ضرورت نہیں رہی
چہرہ دکھائی دے گا نہ آقا حضورؐ کا
یارب! یہ عرض ہے مری تیری جناب میں
اب چشمِ شوق لے کے بھلا کیا کروں گا مَیں

دربارِ مصطفیٰؐؐ میں ادب سے کھڑی رہیں
آنکھیں غبارِ شہرِ نبیؐ میں سجی رہیں

322

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مخلوق جن کو ٹوٹ کے چاہے گی اس قدر
جس کی کوئی مثال کبھی تھی نہ آج ہے
جس کی کوئی نظیر قیامت تلک نہیں
اُنؐ کا وجودِ پاک ہی ہر حسن کی ہے جاں
اولاد، جان، مال سب اُنؐ پر نثار ہیں
ہر دن ظہورِ عظمتِ سرکارؐ کا ہَے دن
اپنے قلم کو چوم لوں سو بار آج بھی
ہر رتجگے میں ساتھ مرے جاگتا رہا
یہ بات اپنے اپنے مقدّر کی بات ہے

اپنے قلم کو اپنے کفن میں چھپاؤں گا
مَیں بھی لحد میں نعت کی محفل سجاؤں گا

323

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن سا شفیق روئے زمیں پر کوئی نہیں
روئے زمیں تو روئے زمیں آسماں میں بھی
سردارِ کائناتؐ کا ثانی کوئی نہیں
وہ لا شریک بزمِ رسالت میں ہیں ریاضؔ
شاعر! شبِ فراق، حنانہ کے نام کر
ہجرِ نبیؐ میں اشک بنیں سرمدی چراغ
میری دعا ہَے دامنِ ہجر و فراق میں
تجھ کو گدازِ دستِ پیمبرؐ نصیب ہو
لوح و قلم کو رقصِ مسلسل کا اذن ہو

لوحِ دعا پہ حرفِ ثنائے نبیؐ لکھو
کیا اعتبار عُمر کا، لکھو، ابھی لکھو

324

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو حلم و بردباری کی روشن مثال ہیں
انسان کی فلاح اسی میں ہَے حشر تک
ہر راہِ اعتدال قدم چومتی رہے
انمٹ نقوش آج بھی روشن ہیں ہر طرف
ہر آئنے میں عکسِ نبیؐ دیکھتا ہوں مَیں
ہر آئنے میں اُنؐ کے ہے اوصاف کا ظہور
حُبِّ نبیؐ اساسِ قیام و سجود ہے
حُبِّ نبیؐ اساس ہَے ایمان کی ریاضؔ
محبوبِ کردگار کی مانگا کرو رضا

وہ ذات لاشریک ہَے، پروردگار ہَے
ہر چیز پر اُسی کو فقط اختیار ہَے

325

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ہے شہرِ نور پسِ حرفِ آرزو
جو شہرِ دلنواز ہَے جو شہرِ پر وقار
رحمت برس رہی ہَے جہاں آسمان سے
اس خاکِ دلنشیں کے ہر اک ذرے میں سدا
عشاّقِ مصطفیٰؐؐ کے دھڑکتے رہیں گے دل
سب روزنوں میں آنکھ رہے گی سجی ہوئی
آنسو چراغ بن کے جلیں گے فصیل پر
میری دعا ہَے ربِ علیم و خبیر سے
سب کو درِ حضورؐ کی ہو حاضری نصیب

اس شہر کی فضا میں درودوں کا راج ہے
ہر راستے کے سر پہ محبت کا تاج ہے

326

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
طیبہ ہَے جن کا مرکزِ انوارِ التفات
یہ شہر انتخاب ہَے پروردگار کا
اس کے افق سے اٹھے ہیں بادل شعور کے
بنجر زمیں کی پیاس بجھاتے ہیں رات دن
تشنہ لبوں پہ رکھتے ہیں آبِ خنک کے جام
اس کے افق پہ علم کی کھولی گئی کتاب
اس کے افق پہ امن کا روشن ہَے ہر ورق
اس کے افق پہ نور کی کرنوں کی آبشار
کشکول بھر رہا ہَے ہجومِ مہ و نجوم

رحمت کے شامیانوں میں رہتی ہے روشنی
ہر ہر قدم پہ طیبہ میں بہتی ہَے روشنی

327

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا نگر ہَے آئنہ خانہ حیات کا
جس کا ہر ایک عکس کرم کی ہَے داستاں
جس کی فضا کے سر پہ عمامہ ادب کا ہے
دیوار و در کرم کے کھلے آسماں میں ہیں
کب سے ریاضؔ، نکہتِ طیبہ ہَے وجد میں
کب سے ریاضؔ، لطف و عطا کا کھلا ہے در
کب سے ریاضؔ، ابرِ محبت ہَے رَقص میں
سرکارِ دو جہاںؐ کے نقوشِ جمال کی
کب سے ریاضؔ، نجمِ سحر کو تلاش ہے

اس شہرِ دلنواز میں کھِلتے رہیں گلاب
ہوتی رہیں ہماری دعائیں بھی مستجاب

328

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
عنبر فشاں ہَے جن کے مدینے کا آسماں
بادِ صبا کے سر پہ ہَے خوشبو کی اوڑھنی
جھکتی ہیں سبز سبز شگفتہ سی ٹہنیاں
ہر طائرِ خیال کے لب پر درود ہَے
آنسو ہیں احترامِ کے اجلے لباس میں
فریاد سسکیوں کے مگر پیرہن میں ہے
امت بَرہنہ سر ہَے سرِ مقتلِ انَا
مشعل علوم و فن کی تو ہاتھوں سے گر چکی
اب دفن کرکے آئی ہَے عزم و عمل کی لاش

دامن میں کچھ نہیں مِرے آقاؐ، کرم کریں
اس کے سپرد کوئی چراغِ حرم کریں

329

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شہرِ خنک ہَے جن کا متاعِ عزیز تر
ہر سَمت چشمِ شوق کے آنچل بچھے ہوئے
تارا ہر آنکھ کا ہَے نبیؐ کا درِ کرم
اس شہرِ بے مثال کے ذکرِ جمیل سے
سینہ یہ کائنات کا روشن ازل سے ہے
اس شہرِ بے مثال کے لیل و نہار میں
ہر لمحہ کہکشاں کے اترتے ہیں قافلے
نکلی ہیں آسماں سے فرشتوں کی ٹولیاں
پڑھتے ہوئے درود پیمبرؐ کی آلؑ پر

لاکھوں سلام، شہرِ پیمبرؑ! قبول کر
توصیف کے گلابِ ثنا گر، قبول کر

330

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خطّہ بنے گا جن کا خلائق کی آرزو
سرکارِ کائناتؐ کا یہ شہرِ دلنواز
ہَے قریۂ نجات گنہ گار کے لیے
خوشبو چراغ رکھتی ہَے ہر اک فصیل پر
اس شہرِ بے مثال کی اجلی سحر سے پوچھ
شاداب ساعتوں کی تمنا ازل سے ہَے
لپٹی ہوئی فضائیں کرم کی ردا میں ہیں
دلکش فضائے شہرِ محبت کی چاندنی
چھوٹا سا گھر ہو شہرِ مکرّم کے آس پاس

گھر میں مرے ہَے ذکرِ پیمبرؐ کی روشنی
رہتا ہوں میں حضورؐ کے قدموں میں آج بھی

331

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
نسبت سے جن کی شہرِ مدینہ حرم ہوا
روزِ ازل سے قریۂ حسن و جمال ہے
شہرِ نبیؐ کی پھول سی مٹی تھی منتظر
بوسہ ادب سے نقشِ کفِ پا کا لے کبھی
وارفتگی میں چومتی رہتی تھی اپنے لب
ہر ہر قدم پہ سجدے گزارے بصد نیاز
قرنوں سے منتظر تھے صبا، پھول، روشنی
صدیوں سے انتظار تھا نسلوں کو آپؐ کا
یہ شہرِ منتظر بھی ہَے روئے زمین پر

ہر لفظ کو ریاضؔ، لغت سے نکال دوں
اس شہرِ بے مثال کو کس سے مثال دوں

332

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
پیمانہ جن کے عشق کا ممکن نہیں کوئی
جن کے نہیں ہَے شہرِ مساوات کی نظیر
جن کے ہیں معجزات حقائق کا عکسِ نو
سب سے عظیم آدمی ہیں کائنات کے
کاسہ بکف کھڑی ہے ستاروں کی روشنی
شہرِ حضورؐ شہروں کا سرتاج ہَے ریاض
اس کو فضیلتوں کی ملیں اَن گِنت جہات
اِس شہرِ بے مثال کے ہیں نام صد ہزار
اِس کو مقام عظمت و رفعت کا ہَے ملا

کیا ساکنانِ شہرِ مدینہ کی شان ہَے
یہ شہرِ دلنواز ثقافت کی جان ہَے

333

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سب کو ہَے جن کے شہر کی آب و ہوا پسند
اس شہرِ خوشگوار کا طابہ بھی نام ہے
پاکیزگی ہَے اس کی فضا میں رواں دواں
تقویٰ، شناخت شہرِ نبیؐ کی ہَے ہمسفر!
طیبہ کا نام حکمِ خدا پر رکھا گیا
طیبہ نگر میں گنبدِ خضرا ہے اس لیے
اس شہر کو خدا کی خدائی کا دل کہوں
اس کو مَیں روشنی کا سمندر لکھوں تو کم
احرام باندھ کر کرے میری لغت سلام

طیبہ دعائے خلعتِ حرفِ نبیؐ میں ہے
ہر زائرِ نبیؐ کا قدم روشنی میں ہے

334

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا حرم، کرم کے ہَے روشن حصار میں
یہ شہر عافیت کے نئے پیرہن میں ہے
ہر اک منڈیر پر ہَے ستاروں کا رتجگا
خوشبو کے ہر قدم پہ ہیں خیمے تنے ہوئے
ہر پل نزولِ رحمتِ پروردگار ہَے
سرکارؐ کی سکونتِ رحمت حرم بھی ہَے
اعزاز یہ کسی بھی نبیؐ کو نہیں ملا
ہتھیار لے کے چلنا بھی ممنوع ہَے عمل
شہرِ نبیؐ ہَے امن و اماں کی حدود میں

آنکھو! طوافِ گنبدِ خضرا کیا کرو
ہر ہر قدم پہ جامِ محبت پیا کرو

335

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شہرِ کرم ہَے جن کا مقامِ سکونِ دل
شہرِ کرم کے کوچہ و بازار نور ہیں
شہرِ کرم کے سبز درختوں کا کر ادب
شہرِ کرم کی گھاس بھی کاٹو تو جرم ہے
شہرِ کرم کے اڑتے پرندوں کی خیر ہو
شہرِ کرم کی پھول سی گلیو! مرا سلام
شہرِ کرم کی صبحِ منوّر کی بات کیا
شہرِ کرم کی شامِ مقدّس کا ذکر کر
شہرِ کرم میں سانس بھی آہستہ ہم نفس!

شہرِ کرم کی بادِ خنک سے کروں کلام
شہرِ میں میرا بھی تا عمر ہو قیام

336

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا نگر ہَے امن کا گہوارہ دائمی
جو مہربان ماں کی ہَے آغوش کی طرح
جو نرم چاندنی کی ہَے کرنوں کی گود سی
جو ناقۂ صبائے محبت ہَے دشت میں
سورج کرم کا جس کے افق پر ہوا طلوع
اُنؐ کا نگر ہے دور بہت اضطراب سے
اُنؐ کا نگر ہَے ذہن کی آسودگی کا گھر
اُنؐ کے نگر کے ہاتھ ہیں جود و سخا کے پھول
اُنؐ کے نگر کا ذکرِ مکرّر کرے صبا

اک دن درِ حضورؐ پہ جاؤں گا دیکھنا
مانگوں گا جَو ریاضؔ، وہ پاؤں گا دیکھنا

337

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بستی ہَے جن کی شرک کی تاریکیوں سے پاک
ظلماتِ کفر لے نہ سکے گی گرفت میں
باشندگانِ شہرِ محبت کے ذہن کو
ایمان کے چراغ جلے لاشعور میں
لعنت ہَے جو حدودِ کرم میں کرے فساد
شر کا کوئی جواز کسی حال میں نہیں
جائے سکون و امن ہَے سرکارؐ کی گلی
آرام گاہِ سیدِ عالمؐ ہَے اس لیے
افضل ہَے ہر حوالے سے طیبہ کی سر زمیں

خوشبو، چراغ لے کے کھڑی ہَے قطار میں
اترے ہوئے ہیں چاند ستارے بہار میں

338

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
طیبہ ہَے جن کا مرکزِ تبلیغِ دینِ حق
طیبہ کا اشتیاق تھا میرے حضورؐ کو
طیبہ میں آرزوئے سکونت کیا کرو
سنت ہَے یہ جنابِ رسالت مآبؐ کی
خطّہ یہی عزیز ہَے ربِ کریم کو
یہ محسنِ عظیمؐ کا شہرِ عظیم ہَے
ہر موسمِ خنک ہَے اسی شہر کی عطا
روئے زمیں پہ گنبدِ خضرا کے فیض سے
شاداب ساعتوں کو ہَے جائے اماں ملی

مدحت نگار ہاتھ میں لے کر چلے قلم
پائے گا احترام کے گلشن قدم قدم

339

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
قریہ ہَے جن کا راحتِ قلبِ حزیں، ریاضؔ
مسکن ہَے جو ازل سے ازل کی بہار کا
اُنؐ کی دعا کا ابرِ خنک ہَے افق افق
اے شہرِ دلپذیر کی ٹھنڈی ہوا، سلام
اک دلنشیں فضائے مدینہ ہَے پر فشاں
جاں ہر ادائے سیّدِ ابرارؐ پر نثار
شہرِ حضورؐ کے گلی کوچوں میں آج بھی
ممکن نہیں قیام منافق کوئی کرے
طیبہ میں کھیلتے ہوئے بچوں سے پیار کر

ہر سَمت دیکھ اشک ہمارے سجے ہوئے
طیبہ کے ہیں افق پہ ستارے سجے ہوئے

340

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رحمت مقیم جن کے نگر میں ہے رات دن
طیبہ کے ذکر پر مری آنکھیں ہیں اشکبار
مامور ہیں فرشتے مدینے کی راہ میں
طیبہ میں ہوسکے گا نہ دجّال کا دخول
طیبہ کے ذرے ذرے میں چمکیں گے آفتاب
خوش بخت ساکنانِ مدینہ ہو کس قدر
ہر وقت تم پہ رحمتِ باری کا ہَے نزول
ہر وقت سائبانِ کرم میں ہیں بام و دَر
ہر سَمت نقشِ پائے محمدؐ کا ہَے جمال

چشمِ ادب بھی بہرِ سلامی جھکی رہے
مانگو دعا خدا سے، ابد تک بنی رہے

341

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مسکن ہَے جن کا شہرِ خنک، شہرِ دلربا
جس شہرِ دلنواز کے مہکے ہوئے ہیں گھر
جس کی حسین گلیوں میں ہَے چاندنی مقیم
جو شہر ہَے ازل ہی سے مرکز نگاہ کا
اس شہرِ بے مثال کے قرب و جوار میں
سرکار دو جہاںؐ کے ہَے انفاس کی تپش
یاں ہے ریاض، خطّۂ نکہت بقیع بھی
اس شہرِ دلنشیں کی فضاؤں میں دیکھنا
دامن یقین و صبر کا چھوٹے نہ ہاتھ سے

صلِّ علیٰ کے پھول کھلے ہیں بہار میں
کیا کیف شہرِ نور کے ہَے انتظار میں

342

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شہرِ خنک ہَے جن کا ادب کے حصار میں
ہر شاخِ آرزو پہ ہیں ریگِ عرب کے پھول
کھل کر برس رہی ہَے کرم کی جہاں گھٹا
محوِ خرام اس کے ہیں رستوں میں خوشبوئیں
طیبہ نگر ہَے ارض و سماوات کا نگیں
کیا خوش نصیب شہرِ پیمبرؐ کے لوگ ہیں
جن کا ہر ایک لمحہ گزرتا ہَے وجد میں
ہوتے ہیں جو ہوائے مدینہ سے ہمکلام
رہتے ہیں جو حضورؐ کے شہرِ عظیم میں

کشتِ دل و نظر میں اگیں روشنی کے پھول
تابندگی کے پھول، کبھی آگہی کے پھول

343

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
شہرِ عظیم جن کا وفا کی ہَے سر زمیں
جس سر زمیں میں عشق کی اُگتی ہَے فصلِ گل
جس سر زمیں سے نور کے چشمے رواں ہوئے
اب تک کھڑی ہَے بادِ صبا رہگذار میں
ان راستوں میں منتظر ہے آج بھی کوئی
حیرت میں آسمان ہَے گم اس لیے کہ کل
سردارِ کائناتؐ نے دیکھا مجھے بھی تھا
ڈوبے ہوئے پہاڑ ہیں اس آبِ کیف میں
ہم نے قدم حضورؐ کے چومے تھے ایک دن

باشندگانِ وادیٔ بطحا عظیم ہیں
شہر نبیؐ میں حکمِ خدا سے مقیم ہیں

344

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
نسبت ہَے جن کی سارے زمانوں میں معتبر
ان ساکنانِ وادیٔ بطحا کو اس لیے
چاہا گیا ہَے ٹوٹ کر اے میرے ہمسفر!
شہرِ نبیؐ کی گلیوں میں پھرتے ہیں ہم، ریاضؔ
رم جھم برس رہی ہَے ہواؤں میں ہر طرف
انوارِ سرمدی کا سروں پر ہَے آسماں
اے میرے اشک، تو کبھی محراب سے لپٹ
سجدے گذار مسجدِ نبوی میں رات دن
روضے کی جالیوں کو کبھی آنکھ سے لگا

وارفتگی کے نور سے لکھ حرفِ آرزو
اے چشمِ مضطرب، انہی اشکوں سے کر وضو

345

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اربابِ عشق جن کی گلی کے چراغ ہیں
جن کے درِ خلوص سے ملتی ہَے مغفرت
احسان مند چشمِ تصوّر کا مَیں بھی ہوں
رہتی ہَے جو حضورؐ کے گنبد کے آس پاس
مرکز فروغِ علم کا مسجد نبیؐ کی ہَے
چشمہ رواں ہوا ہَے یہاں سے علوم کا
دیوار و در ہیں شہرِ پیمبرؐ کے روشنی
دیدارِ مصطفیٰؐ سے مشرف ہوں، ہم قلم!
نیت درِ نبیؐ کی زیارت کی کیجئے

بھر بھر کے جھولیاں درِ عالی سے آؤں گا
جھک کر کرم کے لعل و جواہر اٹھاؤں گا

346

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
نکہت کے ہَے حصار میں جن کا دیارِ شوق
روشن دنوں کا عکس فضا میں ہَے آج بھی
ہر سَمت خوشبوؤں کے ہیں آنچل بچھے ہوئے
ہر شام قبل نیند کے، ربِ عظیم سے
تم آرزوئے دیدۂ پرنم کیا کرو
مانگا کرو حضورؐ کی چوکھٹ کی حاضری
اِن راستوں سے گذرے تھے اک روز مصطفیٰؐؐ
اِن راستوں نے صلِّ علیٰ کا کیا تھا ورد
اِن راستوں نے چومے تھے نقشِ کفِ حضورؐ

اِن راستوں کی دھول کو پرچم بنائیں گے
اِن راستوں پہ چاند ستارے بچھائیں گے

347

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خطّہ ہَے جن کا مسکنِ اصحابِؓ محتشم
ہمسائیگیِ سرورِ عالمؐ، جنہیں ملی
شہرِ حضورؐ کے تھا مضافات میں قیام
سردارِ کائناتؐ کے وہ جاں نثار تھے
شہرِ حضورؐ، شہرِ محبت کہوں جسے
جس کا فلک، کرم کا کھُلا سائبان ہے
جس کے افق پہ کالی گھٹاؤں کا ہَے ہجوم
جس کی زمین پھول اُگلتی ہَے اس لیے
چومے تھے اس نے سیّدِ ساداتؐ کے قدم

اے شہرِ بے مثال تُو خلدِ زمین ہے
ہر موڑ محترم ہَے ترا، دلنشین ہے

348

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بستی ہَے جن کی ارض و سماوات کا جمال
آہستہ چل کہ اشک سجے ہیں قدم قدم
خوشبو! قدم اٹھا تُو بڑے اِحترام سے
جگنو تمام رات ادب کا عَلم لیے
دہلیزِ مصطفیٰؐؐ پہ مناتے ہیں رتجگا
مصروف حرفِ جاں ہیں طوافِ نقوش میں
سانسوں میں نور صلِّ علیٰ کا ہَے موجزن
بادِ صبا کے ہاتھ میں ہیں سرمدی گلاب
یہ سرمدی گلاب کرے آپؐ پہ نثار

اے شہرِ انتخاب ترے بام و در کی خیر
تیرے طفیل ہوگی مری چشمِ تر کی خیر

349

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا دیار نور کے پیراہنوں میں ہَے
ہر ذرّہ جس کی خاک کا رفعت کی انتہا
اس خاک نے تھا میرے نبیؐ کو کیا سلام
اس خاک کو مَیں خاکِ شفا بھی کہوں تو کم
اس خاک کا مقام کوئی جانتا نہیں
اس خاک میں قلوب کا سارا گداز ہَے
اس خاک میں کروڑ ہا موتی کرم کے ہیں
اس خاک میں ہیں حسن کے پہلو کئی ہزار
اس خاک میں ازل سے بصیرت کا نور ہے

تفہیم روشنی کی یہی خاکِ پاک ہَے
یہ خاک اُنؐ کے خطّہِ انور کی خاک ہے

350

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے ہَے شہرِ پاک کی مٹی بھی سربلند
مذکور ہَے، فرشتے اترتے ہیں صبح و شام
مرقد مِرے حضورؐ کا افضل ہَے عرش سے
طیبہ نگر کی ساری فضیلت اِسی سے ہَے
آرام گاہِ سیدِ ساداتؐ پر درود
حفظ و اماں میں گنبدِ خضرا کو رکھ، خدا
ہر عافیت حضورؐ کے طیبہ کے واسطے
موسم بہار کا درِ اقدس پہ ہَے مقیم
بادِ صبا! مدینے کی گلیوں میں رقَص کر

نعتِ نبیؐ سے اپنا مقدر جگاؤں گا
میلادِ مصطفیٰؐؐ کی محافل سجاؤں گا

351

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے نگر میں اڑتے ہیں جگنو درود کے
رہتے ہیں اس فضا میں پرندے ادب کے ساتھ
دل میں گدازِ عشقِ پیمبرؐ لئے ہوئے
ہر زائرِ رسولؐ کی انگلی پکڑ، صبا
اس کے ہَے سر پہ چادرِ رحمت رکھی ہوئی
اِس کی ہَے آنکھ اشکِ مسلسل کا آئنہ
ہر اشک میں ہَے گنبدِ خضرائے دلنشیں
آقاؐ کی قبر کی ہَے زیارت جسے ہوئی
حق دار ہَے ردائے شفاعت کا حشر میں

ہر منکرِ نبیؐ پہ عذابِ الیم ہَے
اللہ پہ جھوٹ باندھنا جرمِ عظیم ہَے

352

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے غبارِ راہ میں اتری ہے کہکشاں
کرنوں کے پھول رَقص کریں گے بہار میں
جنت کو تُو تلاش کرے آسمان پر
جنت مِرے حضورؐ کے قدموں کے پاس ہَے
اِمشب بھی دیکھ گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں
شاداب ساعتوں کے ہوئے قافلے مقیم
تشنہ لبوں کی پیاس بجھائے گی وہ گھٹا
اُٹھّے گی جو حضورؐ کی چوکھٹ کو چوم کر
بنجر زمین رختِ سفر باندھ کر رکھے

لالچ اسے نہیں کسی غلمان و حور کا
دنیا کو انتظار فقط ہَے حضورؐ کا

353

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خلدِ زمیں ہَے جن کے نقوشِ قدم کی چھَب
طیبہ کی سر زمین مقدّس ازل سے ہَے
طیبہ کے بام و در کی ہو عظمت بیان کیا
ساری فضیلتیں مرے آقاؐ کے دم سے ہیں
ساری ہی رونقیں مرے آقاؐ کے ہیں طفیل
آقا حضورؐ کے درِ اقدس کو تھام کر
مانگو دعا خدائے علیم و خبیر سے
مانگو ادب سے آپؐ کے قدموں میں بیٹھ کر
اللہ سے صرف اُنؐ کا وسیلہ طلب کرو

آنکھوں کے سامنے رہے چہرہ حضورؐ کا
دیتا ہَے سائلوں کو وہ صدقہ حضورؐ کا

354

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سایہ فگن برہنہ سروں پر ہَے جن کا ہاتھ
کوہِ احد بھی رکھتا ہَے حُبِّ نبیؐ کا نور
سینے میں اس کے عشقِ رسالت مآبؐ ہَے
شہرِ حضورؐ کی ہَے کھجوروں میں بھی شفا
یہ بھی، ریاضؔ، قربِ قیامت کی ہَے دلیل
ایمان لوٹ آئے گا شہرِ حضورؐ میں
بازار گرم ہوگا جو شر کا، فساد کا
اہلِ یقیں بنیں گے جو تضحیک کا ہدف
مکّہ پناہ دے گا، مدینہ انہیں سکوں

دورِ فتن میں اٹھیں گی فتنوں کی آندھیاں
اخلاق کی اڑیں گی فضاؤں میں دھجیاں

355

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
کردار جن کا تقویٰ و پاکیزگی کا نور
اور شخصیت ہَے حرفِ صداقت کا آئنہ
سچائیوں کے چاند ستارے قدم قدم
خوشنودیٔ خدائے قلم، مقصدِ حیات
ہر لمحہ حکم اس کا، بجا لائیں گے حضورؐ
ہر لمحہ، نور خیر کا، بانٹیں گے دہر میں
ہر لمحہ زندگی کا ہَے اُس کی رضا میں گم
ہر لمحہ بندگی کے ہَے انوار کا صدف
ارضِ خدا پہ اپنے خدا کا کریں گے ذکر

توحید کے چراغ جلائیں گے مصطفیٰؐؐ
توقیر آدمی کی بڑھائیں گے مصطفیٰؐؐ

356

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
طیبہ ہَے جن کا عظمت و رفعت کا آسماں
جس کا مقام میرے تخیّل سے ہَے بلند
جس کی حدود میں ہَے مری روح بھی مقیم
جس کی حدود میں ہَے دلِ مضطرب کا گھر
جس کی حدود امن کی ہیں دائمی حدود
جس کی حدود میں نہیں الحاد و کفر و شرک
جس کی حدود گنبدِ خضرا کی ہیں امیں
جس کی حدود میں ہیں خنک موسموں کے رنگ
جس کی حدود میں ہَے ازل ہی سے روشنی

شہرِ خنک جمال ہَے اس کائنات کا
یہ مرکزِ عظیم ہَے اس شش جہات کا

357

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہَے جن کا شہر، شہرِ محبت، کرم، عطا
محبوب شہر ہَے مرے اللہ کا یہ شہر
دامانِ مصطفیٰؐ میں ہیں روشن چراغِ عِلم
نازل ہوئی ہیں قلبِ منّور پہ حکمتیں
سرکارؐ ہیں زمینی حقائق کے راز داں
آقاؐ ہیں آسمانی صحیفوں کا سرورق
مَحشر کی سب علامتیں ہیں اُنؐ کے عِلم میں
طیبہ میں موت قابلِ صد رشکِ اِنس و جاں
شہرِ نبیؐ کی خاک کا مجھ کو کفن ملے

جنت جوارِ گنبدِ خضرا میں پاؤ گے
آنکھوں میں حیرتوں کے سمندر چھپاؤ گے

358

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خطّہ ہَے جن کا رشکِ گلستانِ رنگ و بو
خطّہ ہَے جن کا وادیٔ فردوس کی مثال
خوش رنگ پھول مہکیں گے جن کے نقوش میں
اے نقشِ پائے سیّدِ ساداتؐ، مرحبا
بزمِ جہانِ نو ترے بوسے ہزار لے
اے شہرِ بے مثال تری ہر گلی حرم
مسکن، خدا نے، تجھ کو بنایا حضورؐ کا
تُو ہی ملائکہ کے حصارِ ادب میں ہے
امن و سلامتی کا ہَے تُو دائمی نقیب

اذنِ ثنا ملے تو لکھوں نعت آپؐ کی
روشن ضمیر میرے قلم کا ہَے آج بھی

359

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مخلوقِ ہر زماں کے ہیں جو قائدِ عظیم
ساری قیادتیں اُسی در کو کریں سلام
دامن بچھا رہی ہَے اُسی در پہ ہر طلب
جاری دلوں پہ اُنؐ کی حکومت ہَے آج بھی
اُس شہرِ دلنواز کی جانب بڑھے چلو
اے شہرِ آرزو! ترے دامن میں ہَے قبا
مہکی ہوئی ہَے مسجدِ نبویؐ میں روشنی
آقا حضورؐ کے ہیں فروزاں نقوشِ پا
دیوار و در پہ گنبدِ خضرا کا عکس ہے

ہَے معتبر حضورؐ کی نسبت سے داستاں
تاروں بھرا ہَے میرے مقدّر کا آسماں

360

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بستی ازل سے جن کی ہَے رعنائیوں کا گھر
اشجارِ سایہ دار ہوں یا شاخِ آرزو
ہر پھول پر رقم مرے آقاؐ کا نام ہے
اے شہرِ انتخاب، تمنائے جان و دل!
حاصل ہوا ہَے منفرد اعزاز یہ تجھے
تیری فضا میں گنبدِ خضرا کا نور ہَے
ہر موسمِ خنک کرے اس نور کو سلام
شاداب ساعتوں کی امانت ہَے تیرے پاس
تُو آپ ہی مثال ہَے اپنے جمال کی

صد شکر مغفرت کا یہ سامان بن گئی
نعتِ حضورؐ میری بھی پہچان بن گئی

361

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بے مثل جن کی ذاتِ گرامی کا نور ہے
تُو شہرِ نور! اُنؐ کی دعاؤں کا ہَے ثمر
حسن و جمال ارض و سما کا، ترا غبار
یہ اس لیے کہ ہادیٔ اعظمؐ کا شہر ہے
یہ اس لیے کہ کوچۂ خیر الوریٰؐ ہے تُو
تیرے لیے حضورؐ کے دستِ دعا اٹھے
ممکن نہیں قلم سے ہو تفسیر حسن کی
اے شہرِ بے مثال! ہَے میرا قلم ہی کیا
ہر لفظ تیری شاں سے فرو تر لغت کا ہے

میری یہ آنکھ بہرِ سلامی جھکی رہے
اشکوں کے ہار لے کے سرِ رہ کھڑی رہے

362

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی گلی ہَے آئنہ خانوں کا جمگھٹا
جن کی گلی سے مہرِ محبت ہوا طلوع
جن کی گلی ہَے معبدِ انوارِ آگہی
ہر ہر گلی ہَے شہرِ پیمبرؐ کی بے مثال
ہر ہر گلی میں چاند ستاروں کا ہَے ہجوم
ہر ہر گلی میں وَجد میں رہتی ہَے روشنی
ہر ہر گلی میں ابرِ محبت کی ہَے پھوار
خوشبو ازل سے ہَے انہی گلیوں کی منتظر

خیرالبشرؐ کے شہرِ محبت! مرا سلام
تیری گلی میں، کاش، ہو اب زندگی کی شام


363

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
محبوبیت کے دائرے میں جن کی ذات ہے
معبودِ کائنات کے ہیں لاڈلے نبیؐ
تکمیلِ شخصیت کا ہیں وہؐ آخری نصاب
اُنؐ کی کوئی مثال خدائی میں ہَے کہاں
بعد از خدا، حضورؐ کا ہَے مرتبہ بلند
بعد از خدا، حضورؐ ہی پرسانِ حال ہیں
بعد از خدا، حضورؐ ہی میرے ہیں ناخدا
سچ تو ہَے یہ کہ آپؐ ہی نائب خدا کے ہیں
بعد از خدا، حضورؐ ہی سب کے ہیں چارہ گر

بعد از خدا، حضورؐ ہی کا نام آئے گا
مَحشر میں بھی یہ نام مرے کام آئے گا

364

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مختار، کائنات کی ہر چیز کے جو ہیں
بندے بھی وہ، رسولؐ بھی، میرے خدا کے ہیں
ہَے بندگی کے نور سے روشن جبینِ پاک
اذنِ خدا سے پھول لبِ پاک پر کھلیں
ذاتی علوم صرف خدا کے علوم ہیں
آقاؐ کا عِلم دَین ہَے پروردگار کی
اللہ نے اس قدر ہَے نوازا انہیںؐ، سنو
سب کنجیاں زمیں کے خزانوں کی دِیں انہیںؐ
کوثر عطا ہوئی مِرے آقا حضورؐ کو

اُنؐ کے کرم کی کالی گھٹاؤں کے سلسلے
جاری رہیں گے اُنؐ کی عطاؤں کے سلسلے

365

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مَحشر کے بعد بھی جو خدا کے حبیبؐ ہیں
مَحشر کے بعد بھی جو رکھیں گے مرا بھرم
ہر چیز کائنات کی اُنؐ پر پڑھے درود
صدیوں سے میری پیاس کی ماری ہوئی زمیں
شدت سے منتظر تھی یہ، بارانِ عشق کی
بارانِ عشق وہ مَرے آقا حضورؐ تھے
بارانِ عشق وہ مِرے آقا حضورؐ ہیں
مَحشر کے بعد بھی وہ کرم کا ہیں سائباں
ہر دور میں ہے عشق کا اسلوب منفرد

مَحشر کے بعد بھی قلم آنکھیں بچھائے گا
مَحشر کے بعد بھی مجھے نعتیں سنائے گا

366

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر وقت جو ہیں ارضِ درود و سلام میں
ہر وقت جن پہ سایہ فگن ہَے سحابِ نور
جن کے درِ عطا پہ فرشتوں کا ہَے ہجوم
مت چھین مجھ سے میری بصارت کے رتجگے
آنکھیں تلاشِ نقشِ پیمبرؐ میں ہیں ابھی
بابِ سخا کا سرمدی منظر سجا رہے
اُنؐ کا نصاب سارے زمانوں کا ہَے نصاب
یہ اس لیے کہ آپؐ ہی ہیں آخری رسولؐ
بعد از حضورؐ، کوئی پیمبر نہ آئے گا

اُنؐ کے لیے قلم کا سجود و قیام ہَے
فرمانِ مصطفیٰؐؐ ہی کو حاصل دوام ہَے

367

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تعلیم جن کی فکر و تدّبر کا آئنہ
عقل و شعور قَصرِ رسالت کے ہیں چراغ
حکمت کا نور اُنؐ کے لبوں کا کرے طواف
آئے حضورؐ، دخترِ حوّا کے پاؤں کی
زنجیر کھول دی سرِ بازارِ زندگی
آئے حضورؐ، پرچمِ توحید ہو بلند
آئے حضورؐ، جَبر کی چادر سمیٹ لو
آئے حضورؐ، تشنہ زمینو! ادب ادب
آئے حضورؐ، جشنِ درود و سلام ہو

دروازے بند شرک کے، الحاد کے، کرو
ایماں کے پھول دامنِ صد چاک میں بھرو

368

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دلکش ہیں جن کے نام کی تفہیم کے چراغ
دلکش ہیں جن کی مسجدِ اقدس کی ساعتیں
دلکش ہیں جن کے دامنِ صد رنگ کے گلاب
دلکش ہیں جن کی پھول سی گلیوں کی رونقیں
دلکش ہَے جن کے شہرِ خنک کی ہوائے نرم
دلکش ہَے جن کی سبز منڈیروں کی روشنی
دلکش ہَے جن کی گلیوں میں بچوں کا روٹھنا
دلکش ہَے جن کے گنبدِ خضرا کی چاندنی
دلکش ہَے جن کے شہرِ مقدّس کا ہر مکیں

ہر آسمان پر مہ و اختر کا قَرض ہَے
ہم پر ہوائے شہرِ پیمبرؐ کا قَرض ہَے

369

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اوصاف جن کے سیرت و کردار کا ہیں حسن
اخلاق جن کے ربط و مراسم کی سبز رُت
آنکھیں یہیں سے شہرِ نبیؐ کا کریں طواف
آنکھیں یہیں سے چوم لیں روضے کی جالیاں
آنکھیں یہیں سے پھول بکھیریں ہواؤں میں
آنکھیں یہیں سے گنبدِ خضرا پہ ہوں نثار
آنکھیں یہیں سے روزنِ دیوار میں سجیں
آنکھیں یہیں سے بھیجیں سلاموں کی ڈالیاں
آنکھیں یہیں سے نذر کریں اشکِ مضطرب

چشمِ تصورات میں طیبہ سجا رہَے
جیسے گلاب شاخِ نظر پر کھِلا رہَے

370

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
قرآں کا جن کے قلبِ منّور پہ ہَے نزول
مہکے رہے کلامِ الہٰی سے جن کے لب
ہر دائرہ عمل کا محیطِ ادب میں ہَے
اے اُمتّی! حضورؐ کے قدموں کو چوم کر
تشکیک کے غبار کے گرداب سے نکل
ہر ہر قدم چراغ تیقّن کے تُو جلا
تجدیدِ دینِ سیّدِ عالمؐ کا دور ہَے
اسلاف اعتبار کے ہر دائرے میں تھے
ہر سَمت اعتماد کی خوشبو سفر میں تھی

آؤ اسی سفر کا پھر آغاز ہم کریں
عفریتِ زر کی سرکشی کا سر قلم کریں

371

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
توصیف جن کی درج ہَے ام الکتاب میں
جن و بشر پہ آپؐ کی تکریم فَرض ہَے
مہکے گلابِ رشد و ہدایت نفس نفس
تحسین کے چراغ جلے ہیں قلم قلم
موتی حروفِ نعت کے چمکے صدف صدف
اے شاعرِ رسولِ معظمؐ! ادب ادب
طیبہ کی راہ میں ہیں درودوں کے قافلے
دستِ صبا پہ رکھا ہوا ہَے مرا سلام
اے خوشبوؤ! حضورؐ کی کرنا تمام نذر

کہنا حضورؐ عجز کا بادل قبول ہو
بھیگا ہوا ہواؤں کا آنچل قبول ہو

372

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اللہ کی بارگہ سے ملی ہے جنہیں سند
محبوبؐ! آپؐ آخری مرسل ہیں حشر تک
محبوبؐ! آپؐ سارے جہانوں کی جان ہیں
محبوبؐ! آپؐ سارے رسولوں کے ہیں امام
محبوبؐ! آپؐ ارض و سما کی ہیں روشنی
محبوبؐ! آپؐ رونقِ لیل و نہار ہیں
محبوبؐ! آپؐ لوح و قلم کی ہیں آبرو
محبوبؐ! آپؐ تابشِ غارِ حرا و ثور
محبوبؐ! آپؐ لطف و عطا کے ہیں ماہتاب

محبوبؐ! آپؐ جن و بشر کے رسولؐ ہیں
محبوبؐ! آپؐ گلشنِ ہستی کے پھول ہیں

373

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ظہور ہَے نئے دن کا نیا نصاب
منشا یہی ازل سے ہَے ربِّ کریم کی
ہجرت مرے رسولؐ کی جانب کیا کرو
تُو نے ہی بال و پر مجھے، یارب، کئے عطا
بعد از طوافِ کعبہ مَیں تجھ سے دعا کروں
طیبہ کی سَمت اڑتا رہے روح کا پرند
دہلیزِ بیتِ ربِ مکرمّ! تری قسم،
جب بھی اڑوں گا جانبِ طیبہ اڑوں گا مَیں
جاری رہے گا میرا سفر روزِ حشر تک

طیبہ کی سَمت ہی مرے پیشِ نظر رہے
ہر وقت ساتھ میرے غبارِ سفر رہے

374

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دیں گے بشر کے ہاتھ میں جو تختیٔ شعور
روشن فضائے شر میں کریں گے چراغِ امن
لیکن نبیؐ کے دامنِ رحمت کو چھوڑ کر
انسان خود کشی کے دہانے سے آ لگا
دامانِ ارتقا میں ہیں سورج ہزار، گو
لیکن وہ تیرگی کے سمندر میں غرق ہیں
تاریخ کہہ رہی ہَے سرِ مقتلِ حیات
تاریک دور آج بھی دنیا پہ ہَے محیط
جنگل کی تیرگی میں ہَے انسان کا ضمیر

اندر کی تیرگی کا جبینوں پہ ہَے ظہور
ایسے میں کیوں نہ یاد میں آئیں مِرے حضورؐ

375

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
زندہ جو اپنی قبر کے اندر ہیں آج بھی
یارب! متاعِ قربِ نبیؐ ہو مجھے نصیب
احوالِ روز و شب مرے اُنؐ پر ہیں آشکار
مَیں روضۂ رسولؐ کی جانب رواں رہوں
دل میں ہو دیدِ سیّدِ ابرارؐ کی طلب
ہوگی مجھے نصیب شفاعت حضورؐ کی
قولِ نبیؐ کے عین مطابق ہے یہ، سنو،
عہدِ نبیؐ میں جیسے زیارت ہو آپؐ کی
جیسے ہو سامنے رخِ انور حضورؐ کا

ہر لمحہ حاضری کے سمندر میں گُم رہوں
محشر کے روز بھی اسی منظر میں گم رہوں

376

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے نظامِ فکر کو ہرگز نہیں زوال
اذنِ دوام جن کے ہر اک حکم کو ملا
سیرت نبیؐ کی مصحفِ قرآں میں درج ہَے
بعد از وصال بھی انہیں امت کا ہَے خیال
بعد از وصال زندہ ہَے ہر لفظ آپؐ کا
بعد از وصال ہَے درِ اقدس کھُلا ہوا
بعد از وصال بھی تہی دامن نہیں فقیر
بعد از وصال جاری ہَے سکّہ حضورؐ کا
بعد از وصال بھی ہَے حکومت جنابؐ کی

آقا حضورؐ، مصحفِ ام الکتاب ہیں
شاخِ ازل کے وہ ترو تازہ گلاب ہیں

377

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اوصاف جن کے اوجِ تمدن کی ہوں گے جاں
مَیں کتنا خوش نصیب ہوں، اے بختِ سر بلند
ہر حاضری حضورؐ کے در کی ہَے حاضری
(آداب حاضری کے مجھے بھی نصیب ہوں)
ہر سانس آپؐ ہی کے حصارِ کرم میں ہے
مَیں عجز و انکسار کا پیکر ہوں ناتمام
ہر حرفِ التجا ہَے دعاؤں کا پیرہن،
ہر موجِ آرزو ہَے سفینے کے ساتھ ساتھ
طیبہ سے آ رہی ہَے ہوا جھومتی ہوئی

ہر لمحہ لب پہ نعتِ پیمبرؐ سجائے ہَے
پرچم صبا بھی صلِّ علیٰ کا اٹھائے ہَے

378

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اسوہ ہَے جن کا نورِ ہدایت سے مستنیر
ہر خیر کا عمل، مرے آقاؐ کا ہَے عمل
اپنی سلامتی کے لیے راہِ شوق میں
تہذیب اُن کے نقشِ قدم پر ہو گامزن
چومے نقوشِ پائے نبیؐ کی ردائے سبز
اوڑھے برہنہ سر پہ غبارِ رہِ حجاز
شب بھر ہوائے خلدِ نبیؐ سے کرے کلام
آنکھوں میں بھر کے اسمِ منوّر کی تابشیں
ہونٹوں پہ التجا کے جلایا کرے چراغ

ہر زائرِ نبیؐ کی بلائیں لیا کرے
خلدِ نبیؐ کی ٹھنڈی ہوائیں لیا کرے

379

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انسانیت کو دیں گے جو حسنِ معاشرت
ہر دائرہ عمل کا بنے گا چراغِ رہ
اخلاق کے کھلیں گے گلستاں قدم قدم
دنیائے ہست و بود کے اس طول و عَرض میں
ہر خواب کو ہمارے ہَے تعبیر کب ملی
ہر شاخِ آرزو پہ مہکتے ہیں پھول کب
محرومیوں کی راکھ میں جلتے ہوئے بدن
رہ رہ کے آسمان کی جانب تکا کریں
آقا حضورؐ، آج کا انساں اداس ہے

اپنوں نے زخم دل پہ لگائے ہیں آج بھی
آنکھوں میں اشکِ گَرم چھپائے ہیں آج بھی

380

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تاحشر اُنؐ کا خُلق ہی خُلقِ عظیم ہَے
ہر شام جن کے نام کی آسودگی میں ہے
لمحاتِ کرب و غم جو ہیں گھیرے ہوئے مجھے
سر پر کھڑی ہیں کب سے مصائب کی آندھیاں
یارب! برہنہ زخم کے قرب و جوار پر
آنچل ہوائے خلدِ مدینہ کا ہو محیط
محرومیوں کی راکھ کی کالی گھٹا اٹھی
اس راکھ کی ردائے غضب میں ہیں مضطرب
آنکھیں مری بھری ہوئی اشکوں کے آب سے

بادِ صبا! جنابؐ سے کہنا مرا سلام
رکھنا درِ حضورؐ پہ محرومیاں تمام

381

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
قریہ ہَے جن کا قریۂ انوارِ سرمدی
اس شہرِ دلنواز کی گلیوں میں ہمسفر!
چھوٹے سے ایک گھر کا تمنائی تُو بھی ہو
مرنا تجھے نصیب ہو شہرِ حبیبؐ میں
اُنؐ کی گلی ہی خطّۂ بخشش ہَے بے گماں
ہر لفظ شرمسار ہَے اے شہرِ محترم!
توصیف کیا بیان ہو تیرے جمال کی
بیساکھیاں حروف کی ٹوٹی ہوئی ہیں سب
قاصر مری زبان ہَے، عاجز مرا قلم

طیبہ خنک ہواؤں کا مرکز ہَے آج بھی
ہر ہر قدم پہ ملتے ہیں انوارِ آگہی

382

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سکّہ رواں ہَے جن کی نبوّت کا حشر تک
تیرا نصیب، جھولیاں بھرتا ہَے کس قدر
چنتا ہَے کتنے لعل و جواہر تُو خاک سے
کب تک کلام کرتا ہَے دیوار و در سے تُو
بانہوں میں تجھ کو آج بھی لینے کے واسطے
نطق و بیاں ہیں تیری فصیلوں کے آس پاس
تجھ کو قلم حصارِ محبت میں کیوں نہ لے
تیرے لیے، حضورؐ کے لب ہائے نور پر
مہکی ہوئی دعاؤں کے کھلتے رہے ہیں پھول

پراونۂ نجات ملے گا مجھے ضرور
ضامن ہیں میرے، حشر کے دن بھی مِرے حضورؐ

383

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خیرات جن کے در سے ملے گی یقین کی
کشتی کو امن و خیر کا ساحل دکھائیں گے
انسان کے حقوق کا نکتہ اٹھائیں گے
نمرودیت کا نام و نشاں تک مٹائیں گے
حوّا کی بیٹیوں کو قفس سے چھڑائیں گے
ہر ہر قدم پہ علم کی مشعل جلائیں گے
اللہ کی رحمتوں کے خزانے لٹائیں گے
آقاؐ نفاذِ عدل یقینی بنائیں گے
توحید کے چراغِ عقیدت جلائیں گے

پیشانیوں پہ نور کا بھانبڑ مچا کرے
سجدوں سے قَصرِ عشقِ الہٰی سجا کرے

384

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مژدہ، جو دیں گے امن کا، آدم کی نَسل کو
پندار، کُفر و شِرک کا معبد میں توڑ کر
اپنے عمل کے نور کی دیں گے ہمیں، مثال
انوارِ انکسار کے، وہؐ، پیرہن میں تھے
حالانکہ کنجیاں تھیں خزانوں کی، اُنؐ کے پاس
حالانکہ اُنؐ کا نور ہَے تخلیقِ اولیں
حالانکہ آپؐ ہادیٔ ہر دو جہاں بھی ہیں
حالانکہ اُنؐ کی ذات ہَے مقصودِ کائنات
حالانکہ وہ رسولؐ خدا کے ہیں آخری

آقاؐ، خدا کے لاڈلے پیارے رسولؐ ہیں
دامن میں میرے، اُنؐ کی عطاؤں کے پھول ہیں

385

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
عنبر فشاں ہَے جن کے تبسّم کی چاندنی
میری زباں کو اُنؐ کی ثنا کا ملا ہَے اذن
رعنائیِ خیال قلم کا کرے طواف
پڑھ کر درود چوم لے نامِ حضورؐ کو
اور پھر ورق ورق پہ سجودِ ادب کرے
محبوبِؐ کردگار کے مَیں، عِلم پر، نثار
ہر آگہی کا نور اسی در کی ہَے عطا
نعتِ حضورؐ، لوحِ دل و جاں پہ ہَے رقم
روزِ ازل سے مَیں بھی حصارِ کرم میں ہوں

جھک جھک کے لے بلائیں مدینے کے چاند کی
دہلیزِ مصطفیٰؐ کی بھکارن ہَے روشنی

386

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خوشبوئے دلنواز ہَے جن کی، سرِ چمن
ذکرِ جمیل جن کا ہَے لوح و قلم کی جاں
میلاد جن کا، سارے صحائف کی آبرو
میلاد جن کا، شاخِ تمنا کی ہے نمو
میلاد جن کا پڑھتے ہیں افکارِ مشکبو
میلاد جن کا، سارے زمانوں کی آرزو
میلاد جن کا، اہلِ محبت کی جستجو
میلاد جن کا، رونقِ گلزارِ رنگ و بو
میلاد جن کا، آج بھی برپا ہَے چار سُو

آمد ہَے اُنؐ کی جشنِ مسرت منایئے
آنگن میں چاند اور ستارے سجایئے

387

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو آرزوئے ارض و سما ہیں ابد تلک
جن کے لبوں پہ رہتا ہَے وحدانیت کا نور
سچے رسول آپؐ ہیں پروردگار کے
چہرہ، مِرے حضورؐ کا اس کی دلیل ہَے
مخلوقِ کردگار کا، سرکارؐ ہیں جواز
ارض و سما میں صاحبِ لولاک آپؐ ہیں
اُنؐ کے طفیل ہوتی ہَے ہر التجا قبول
لپٹی ہوئی دعائیں وسیلے کے نور سے
لوٹیں گی آسماں سے لیے خلعتِ مراد

سرکارؐ کا وسیلۂ رحمت لیے ہوئے
حرفِ دعا ازل سے ہیں لب پر سجے ہوئے

388

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ہَے نام مرکزی نقطہ حیات کا
اُنؐ کا وجود، ہونے کی دے گا مجھے سند
مقصودِ کائنات ہیں لاریب آپؐ ہی
انوارِ کردگار کا ہیں پر توِ جمیل
الفت مِرے حضورؐ کی، الفت خدا کی ہے
اُنؐ کے بغیر، بزمِ جہاں کا نہیں جواز
اُنؐ کے بغیر، صحنِ تمنا سجے گا کیا
انوارِ اعتدال ہیں اُنؐ کی سرشت میں
لاکھوں سلام آپؐ کی اولادِ پاک پر

ارض و سما کی صبحِ سعادت حضورؐ ہیں
ساری قیادتوں کی قیادت حضورؐ ہیں

389

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
منسوخ جو کریں گے سب احکامِ سابقہ
ساری شریعتوں کی لپیٹیں گے جو بساط
دیں گے نئے شعور کی روشن قبا مجھے
تصدیق ہوگی طرزِ عمل کی، یقین سے
امن و سلامتی کے جلیں گے نئے چراغ
تعمیر شخصیت کی کریں گے حضورؐ ہی
نوعِ بشر کو دیں گے متاعِ قلم کا نور
مکر و فریب و دجل کا دروازہ ہوگا بند
ہر صبح احتساب کا پرچم اٹھائے گی

ہر ہر افق پہ چمکے گا خیرالبشرؐ کا نام
ہر ہر صدی کرے گی ادب سے انہیں سلام

390

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی بلندیوں کی کوئی حد نہ ہَے حساب
آقا حضورؐ! ارضِ پریشاں پہ بھی نظر
کانٹے اُگے ہوئے ہیں سرِ شاخِ آرزو
ہر ہر قدم پہ تشنہ لبی کا سوال ہَے
ہر ہر قدم پہ جرم و سزا کا غبار ہَے
ہر ہر قدم پہ عہدِ خزاں کا عذاب ہَے
ہر ہر قدم پہ جبرِ مسلسل ہَے خیمہ زن
ہر ہر قدم پہ بہتا ہَے انصاف کا لہو
گرد و غبارِ شب میں ملوث ہَے چشمِ تر

مَیں بے نوائے شہر کدھر جاؤں گا، حضورؐ
سینے میں کیسے درد کو ٹھہراؤں گا، حضورؐ

391

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہالہ ہَے ایک نور کا جن کے عمل کا رنگ
فرسودگی سے دامنِ دنیا چھڑائیں گے
قلب و نظر میں پھول سے منظر بسائیں گے
حسنِ عمل کے چاند زمیں پر بچھائیں گے
الحاد و کفر و شرک کی مشعل بجھائیں گے
اُس کی الوہیت کا وہ پرچم اٹھائیں گے
اور آندھیوں میں نور بصیرت کا لائیں گے
حمدِ خدا سے دامنِ دل کو سجائیں گے
بندوں کو اپنے ایک خدا سے ملائیں گے

آقا حضورؐ کے مَیں غلاموں کا ہوں غلام
تصویر احترام کی بن کر کروں قیام

392

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو عافیت کے مہکے ہوئے پیرہن میں ہیں
پاکیزگی کا نور ازل سے ہَے ہمرکاب
خاتم ہیں انبیائے خدائے رحیم کے
وہؐ ہیں مقامِ ارفع و اعلیٰ پہ جلوہ گر
آقاؐ، ہوس کدوں میں مقیّد ہَے زندگی
زر کی تپش نے راکھ کیا ہَے مرا بدن
کرتی ہَے رَقص چشمِ تماشا اِدھر اُدھر
ہر آرزو قفس کے اندھیروں میں گم ہوئی
آقاؐ، غلام گردشِ شر میں اٹھا ہَے شور

روحِ زماں قفس کے اندھیروں میں کھو گئی
امت، حضورؐ، آپؐ کی مقتل میں سو گئی

393

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
امت بھی جن کی عہد نبھائے گی دہر میں
نیکی کا حکم دے گی وہ اہلِ زمین کو
نوچے گی ہر صدی میں وہ فتنوں کے بال و پر
روکے گی وہ برائی سے نوعِ بشر کے ہاتھ
ہر خیر کے عمل کی بنے گی وہ پاسباں،
اس کو فضیلتوں کی ملے گی ردائے نور
لیکن، حضور سرورِ کونینؐ! آج کل
امت کھڑی ہَے ظلمتِ شب کے غبار میں
زر تاب ساعتوں کی امیں ہی نہیں رہی

الٹے ہیں آئنوں میں تو چہرے بجھے ہوئے
اور آئنے ہیں ٹوٹ کے نیچے گرے ہوئے

394

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دستور زندگی کا، مدوّن کریں گے جو
ہر ضابطے میں نور کی رکھیں گے مشعلیں
انسان کے حقوق کی توثیق کر کے آپؐ
جمہوریت کی راہ میں سورج اگائیں گے
توڑیں گے شب کے جبرِ مسلسل کے دائرے
ہر سنگِ رہگذار کو دیں گے نئی تڑپ
منزل کی آرزو کو دلوں میں بسائیں گے
راہِ عمل میں نور کی کرنیں سجائیں گے
انسان کو حیات کا مقصد بتائیں گے

بزمِ خیال میں ہو تصوّر حضورؐ کا
اک رتجگا ہو قلب و نظر میں سرور کا

395

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تذلیل آدمی کی گوارا نہیں جنہیں
آقا حضورؐ، آج تماشا کچھ اور ہے
جھوٹے خداؤں کا ہَے تسلّط نفس نفس
آقاؐ، حصارِ جَبر کا ٹوٹے کبھی طلسم
آقاؐ، گرفتِ شب سے رہائی مجھے ملے
تضحیک کے عذاب سے مجھ کو ملے نجات
آقاؐ، قضا کے رحم و کرم پر ہوں، کیا کروں
سوکھا ہوا مَیں زرد سا پتہ ہوں باغ میں
کب تک دباؤ شامِ قدامت کا مَیں سہوں

محرومیوں کی راکھ بدن کا نصیب ہَے
شاعر، حضورؐ، آپؐ کا بے حد غریب ہَے

396

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انسانیت کو دیں گے جو امن و اماں کے پھول
ہر ہر افق کا آپؐ ہی بدلیں گے پیرہن
آقا حضورؐ! خوفزدہ گھر کے ہیں مکیں
سہمی ہوئی ہیں میرے گھرانے کی بچّیاں
اِن بچّیوں کو چادرِ زینبؓ کریں عطا
صدقہ، حضورؐ، فاطمہ زہراؓ کا دیں انہیں
آقاؐ، حصارِ خوف میں روتی ہیں رات دن
ان کے ہر ایک خواب کی تعبیر بھی ملے
ہر شاخِ آرزو پہ کھلیں روشنی کے پھول

مشعل یقین و عزم کی دیں گے مجھے حضورؐ
بچوں کو بھی ملے گی ردائے کرم ضرور

397

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو کربِ دلفگار سے دیں گے ہمیں نجات
توقیر آدمی کی کریں گے وہی بحال
ہر شخص کو کرم کا عطا ہوگا سائباں
آقا حضورؐ! آپؐ کے شاعر کے اردگرد
کشتِ انا میں فصل تکبر کی ہَے کھڑی
پیوست برچھیاں ہیں حقارت کی روح میں
آلودگی فضا سے برستی ہَے روز و شب
پاؤں کی ٹھوکروں میں بدن ہَے گلاب کا
کیا کیا کھلائے زر کی ہوس نے چمن میں گل

طعنے برس رہے ہیں ابھی آسمان سے
پتھر نکل رہے ہیں رعونت کی کان سے

398

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خود ساختہ خداؤں کا توڑیں گے جو طلسم
طبقاتِ بے نوا کا سہارا بنیں گے آپؐ
روتے ہوؤں کو دیں گے خوشی کی بشارتیں
آقاؐ مرا بھی گھر ہَے اداسی کی گود میں
لمحاتِ بے اماں میں بھی آنسو کریں ہجوم
ٹوٹا ہوا ہَے سر پہ مصائب کا کوہِ غم
اپنوں کے جور و جَبر کا کب سے ہدف ہوں مَیں
پہنچا ہوں اس مقام پہ یہ سوچ سوچ کر
انجام میرے جرمِ ضعیفی کا ہَے یہی

آنگن میں دھوپ اتری ہَے سارے جہان کی
بنیاد، آہ، دیدۂ نم ہَے مکان کی

399

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ایمان جن پہ لانا ضروری ہَے، ہم نفس
میرے رسولؐ، آپؐ سے فریاد ہَے مری
جھوٹی اَنا کا مجھ کو بناتے ہیں سب ہدف
محرومیوں کی راکھ بھی کرلوں گا مَیں قبول
تشنہ لبی گوارا ہَے شامِ مہیب میں
کشتِ غضب میں بھوک اگے، غم نہیں کوئی
لیکن حقیر جان کے ٹھکرا نہ دیں مجھے
ذلّتِ کا ایک لمحہ بھی مجھ کو نہ ہو نصیب
نفرت کے وار سہنے کی عادت نہیں رہی

تنہا کھڑا ہَے، آج تُو، شامِ زوال میں
چاہت کے پھول مانگ تمنا کی شال میں

400

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر اُمّتی کو دیں گے شفاعت کی جو نوید
زخموں پہ دیں گے خاکِ شفا کی ردا وہیؐ
آقا حضورؐ! چھلنی ہَے میرا جگر تمام
تلوار خوف کی مرے سر پہ ہَے آج بھی
تحویل میں کسی کے مرا رزق ہَے حضورؐ
میرے حقوق دیتے ہیں خیرات کی طرح
ہر فیصلہ وہ کرتے ہیں اپنے مفاد میں
محتاج دوسروں کا نہ مجھ کو خدا کرے
محتاج اپنی ذات کا، رکھے مجھے، سدا

اہلِ ہوس کے فتنہ و شر سے بچا مجھے
یارب، نئے شعور کی منزل دکھا مجھے

401

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تاریخ ارتقاء کی جو لکھّیں گے اس طرح
ہر شخص زندگی کے مقاصد سمجھ سکے
کچھ لوگ ہیں خدائی کے منصب پہ ’’جلوہ گر‘‘
قاتل بنے ہوئے ہیں محافظ مرے، حضورؐ
ذہنوں میں بو رہے ہیں وہ کانٹوں کی فصلِ نو
زخمی ہوئے ہیں ہاتھ مرے شاخ شاخ پر
آنسو لکھے ہوئے ہیں عمل کی کتاب میں
آنکھوں میں جل رہے ہیں الاؤ فساد کے
دامن منافقت کا اندھیروں کا ہَے وطن

دجل و فریب ان کے لبوں پر ہَے موجزن
مکر و ریا ہَے ان کی کتابوں کا حرفِ فن

402

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کی ثنا کریں گی ہوائیں شمال کی
حسن و جمال جن کا نگاہِ فلک میں ہَے
شاعر لکھے گا جن کی ثنا کے ورق ہزار
اس کا قلم بنائے گا گجرے درود کے
تُو عجز و انکسار کے اشکوں میں رکھ مجھے
میری گلی کے لوگوں کو معلوم ہی نہ ہو
شاعر ہوں مَیں جنابِ رسالت مآبؐ کا
حرفِ ثنائے مرسلِ آخرؐ مجھے ملے
دامن بھرا رہے مرے فکر و خیال کا

کرنوں کے پھول کھلتے ہیں قُرب و جوار میں
میرا قلم ازل سے ہَے صبحِ بہار میں

403

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو اعتماد بخشیں گے ہر ایک شخص کو
ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا بنیں گے آپؐ
مجھ سے غریبِ شہر کا رکھیں گے وہ بھرم
آقاؐ، ہوں جن کے حلقۂ جبر و رضا میں مَیں
میرے وہی کفیل کفالت کی آڑ میں
دیتے ہیں مجھ کو جھڑکیاں بھی ہر گھڑی، حضورؐ
کب تک مَیں اُن کی جھوٹی اَنا کا بنوں گا رزق
خوفِ خدا کی ان کی زمیں پر پون چلے
مجھ کو ہدف بناتے ہیں ظلم و ستم کا یہ

سادہ سا ایک شخص ہَے شاعر جنابؐ کا
رکھتا نہیں حساب یہ اجر و ثواب کا

404

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا وجود، صاحبِ قرآں کا ہَے وجود
جن کا وجود، باعثِ تخلیقِ انس و جاں
جن کا وجود، عدل کی ہَے آخری کتاب
جن کا وجود، لوحِ تمدن کا حرفِ زر
جن کا وجود، بخشش و رحمت کا ہَے سبب
جن کا وجود، بزمِ تمنا کی آبرو
جن کا وجود، گھور اندھیروں میں آفتاب
جن کا وجود، عفو و کرم کی ہَے انتہا
جن کا وجود، اپنے خدا کا کمال ہے

انساں، خدا، ملائکہ مل کر پڑھیں درود
ہوں گی نہ ختم اُنؐ کے کمالات کی حدود

405

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آمد ہَے جن کی عظمت و رفعت کی انتہا
اُس شب، ریاضؔ، آمنہ بی بیؓ کے سامنے
روشن ہوئے تھے خوب محلاّت شام کے
یہ بھی مرے حضورؐ کی آمد کی تھی خبر
لوگو! بڑی عظیم تھی میلاد کی وہ شب
فاراں کی چوٹیوں پہ تھا انوار کا ہجوم
اے آمدِ رسولؐ کی پُرنور ساعتو!
میری عقیدتوں کے بھی گجرے کرو قبول
لفظوں میں رکھ رہا ہوں میں نسبت کی روشنی

میرا سلام لو کہ غریب الدیار ہوں
آقائے کائناتؐ کا مدحت نگار ہوں

406

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو ازل سے مخبرِ صادق کہا گیا
ہر تذکرے کا مرکزی نقطہ حضورؐ تھے
ہر تذکرے کا مرکزی نقطہ حضورؐ ہیں
ہر حرف اُنؐ کا حرف و صداقت کا ہے صدف
ہر آئنہ غبارِ رہِ مصطفیٰؐؐ میں ہَے
ہر آئنے کو چوم لوں فرطِ ادب سے مَیں
ہر آئنے کو رکھوں حریمِ شعور میں
ہر آئنے میں مشعلِ حُبِّ نبیؐ سجے
ہر آئنے میں عشقِ پیمبرؐ کے ہوں چراغ

فکر و خیال اُنؐ کے زمانے میں چاہیے
میرا بھی عکس آئنہ خانے میں چاہیے

407

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مخلوقِ کائنات ہَے جن کی پناہ میں
جن کے حصارِ لطف و عطا میں ہَے ہر جہاں
جن کے ریاضؔ، حیطۂ انوار میں ہیں ہم
قولِ علیؓ ہَے آج بھی تاریخ میں رقم
گھمسان کی لڑائی میں اصحابِؓ مصطفیٰؐ
سرکارِ کائناتؐ کی رہتے پناہ میں
ساری شجاعتیں اِسی در کی غلام ہیں
ساری قیادتیں اِسی در کے چراغ ہیں
ساری صداقتیں لبِ سیّدؐ سے ہیں ادا

اپنی مثال آپؐ ہیں سرکارِ دو جہاںؐ
جھک کر انہیں سلام کرے کیوں نہ آسماں

408

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر عہد کے رسولؐ ہیں، ہر دور کے نبیؐ
ہر آئنے میں عکسِ منوّر ہَے آپؐ کا
ہر روشنی میں آپؐ کے نقشِ قدم کی دھول
ہر پھول میں بھی خوشبوئے اسمِ رسولؐ ہے
ہر رنگ ہَے حضورؐ کی اترن کی چاندنی
اسلام کا ہَے ضابطہ ہر ضابطے کی جاں
ہر رہگذر ہَے آپؐ کی، مرکز نگاہ کا
اکمل، خدا نے دینِ محمدؐ کو ہے کیا
فرمان ہَے خدا ہی کا، فرمان آپؐ کا

ہر چیز کائنات کی باغ و بہار ہَے
اِمشب نزولِ رحمتِ پروردگار ہَے

409

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تاریخِ کائنات کا جو نام ہیں عظیم
ہر ارتقاء بھکاری ہَے اُنؐ کی جناب کا
ہر سَمت اُنؐ کا نورِ محبت ہَے موجزن
ہر وقت لب پہ صلِّ علیٰ کے رہیں گلاب
آدابِ شہرِ نور سے واقف نہیں ہوں مَیں
کیا لے کے مَیں حضورؐ کی چوکھٹ پہ جاؤں گا
اوقات میری کیا، مرے لوح و قلم بھی کیا
مَیں بے نوائے شہرِ تغزل ہوں، یاخدا
قرآن مجھ کو نعتِ پیمبرؐ کا دے شعور

حکمت کے پھول کھلتے ہیں قرب و جوار میں
خوشبو بھرے چراغ ہیں دستِ بہار میں

410

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ارض و سما ہیں جن کے کرم کے حصار میں
معراج کی یہ شب ہَے، ستارو! کرو سلام
انساں کی عظمتوں کے قدم ہیں افق افق
کیا خوشنما چراغ رکھے ہیں دھنک دھنک
موتی چمک رہے ہیں دعا کے صدف صدف
صلِّ علیٰ کے پھول سجاؤ، نفس نفس
حرفِ ثنا، گلاب بنے ہیں قلم قلم
بخشش کے پھول کھلتے رہیں گے چمن چمن
ارض و سما میں پرچمِ لولاک ہَے کھُلا

آنسو، غریبِ شہر کے، آقاؐ، کریں قبول
ساری بلندیاں ہیں نقوشِ قدم کی دھول

411

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
لطف و عطا کی بارشِ پیہم ہَے جن کے ساتھ
تشنہ لبوں کی پیاس بجھاتے ہیں وہ نبیؐ
عزم و عمل کے پھول کھلاتے ہیں وہ نبیؐ
انصاف کے چراغ جلاتے ہیں وہ نبیؐ
توقیر آدمی کی بڑھاتے ہیں وہ نبیؐ
حوّا کی بیٹیوں کو چھڑاتے ہیں وہ نبیؐ
سینے سے ہر کسی کو لگاتے ہیں وہ نبیؐ
انساں کو سیدھی راہ دکھاتے ہیں وہ نبیؐ
اللہ سے آدمی کو ملاتے ہیں وہ نبیؐ

اُنؐ کی گلی کی خاکِ منوّر ہَے محترم
اپنی مثال آپ ہیں آقائے محتشمؐ

412

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
کل ہَے نجات جن کی غلامی پہ منحصر
وہ آج بھی وسیلۂ رحمت ہیں، ہم قلم!
ہم گمرہی کے زرد مکانوں میں قید ہیں
آقاؐ، برہنہ سر ہیں غلامانِ بے نوا
کب سے عذابِ آتش و آہن سروں پہ ہَے
کب سے زمین تنگ ہَے امت پہ، یانبیؐ
کب سے نفاقِ امتِ عاصی ہَے شعلہ زن
کب سے غبارِ مرگِ مسلسل فضا میں ہَے
کب سے کھڑی ہَے شامِ غریباں فرات پر

اُنؐ کا نگر ہَے بزمِ تصّور کی روشنی
کیا خوب جگمگاتی ہَے اندر کی چاندنی

413

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بے مثل جو نبیؐ ہیں خدائے عظیم کے
جو صدر، انبیاء و رسل کی ہیں بزم کے
افضل بھی ہیں، حبیبِ مکرّمؐ، وہی رسولؐ
رحمت لقب ہیں سارے زمانوں کے واسطے
انوارِ سرمدی کے وہی ہیں حصار میں
پرچم شفاعتوں کا انہیں ہَے عطا ہوا
اُنؐ کو ملیں خدا کے خزانوں کی کنجیاں
لاریب، آپؐ سرحدِ محبوبیت پہ ہیں
لاریب! آپؐ کا کہیں ہمسر نہیں کوئی

مدحت نگار، صاحبِ لولاکؐ مَیں بھی ہوں
طیبہ کے راستوں کی زرِ خاک مَیں بھی ہوں

414

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
عظمت کا پیرہن ملا جن کے وجود کو
جن کے وجودِ پاک کا صدقہ ہَے روشنی
جن کے وجودِ پاک کی اترن ہیں خوشبوئیں
جن کے وجودِ پاک کا دھوون دھنک کے رنگ
جن کے وجودِ پاک سے ہستی کا ہَے وجود
جن کے وجودِ پاک سے روشن ہَے ہر افق
جن کے وجودِ پاک سے کونین کو ثبات
جن کے وجودِ پاک کا نعم البدل نہیں
جن کے وجودِ پاک سے رونق سرِ قلم

اذنِ ثنا، قلم کو عطا ہو، مِرے خدا
لوحِ درود پر مَیں لکھوں نعتِ مصطفیٰؐ

415

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے کرم کا دائرہ ہر شے پہ ہَے محیط
جن کے کرم سے آج بھی سانسوں میں ہَے تپش
جن کے کرم سے دامنِ امن و اماں میں ہوں
جن کے کرم سے ابرِ کرم جھوم کر اٹھا
جن کے کرم سے وقت ہَے عنواں بہار کا
جن کے کرم سے عفو و کرم کی چلی پون
جن کے کرم سے تشنہ زمیں پر گری پھوار
جن کے کرم سے اُنؐ کے غلاموں کا ہوں غلام
جن کے کرم سے چاند ستارے مرا وطن

نوکِ قلم پہ اسمِ گرامی سجا رہَے
اوراقِ جاں پہ گنبدِ خضرا بنا رہَے

416

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ذہنوں میں آگہی کے جلائیں گے جو چراغ
دیں گے وہ سبز تختیاں لوگوں کے ہاتھ میں
پرچم کھلیں گے عِلم کے روئے زمین پر
مردہ ضمیر زندہ کریں گے وہ فرد کا
آنکھیں کھلی رہیں گی حروفِ شعور کی
ہر عہد کو ملے گا نصاب آسمان کا
نافذ کریں گے آپؐ خدا کے نظام کو
اس کی ربوبیت کا جلے گا فقط چراغ
ارض و سما کا مالک و مختار ہَے وہی

عورت کے سر پہ دیں گے ردا احترام کی
ہر شخص اعتبار کی پائے گا روشنی

417

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو آخری کتاب کی لائے ہیں روشنی
جو ہر قدم پہ پھول کھلاتے ہیں نور کے
بخشیں گے اعتماد کے انوارِ سرمدی
انسان کی خودی کا تحفظ کریں گے آپؐ
کچلے ہوئے بشر کا بڑھائیں گے حوصلہ
اندر کی روشنی کے بھی کھولیں گے آپؐ در
نیکی کے راستوں میں اتاریں گے آفتاب
انساں کو راہ اپنے عمل کی دکھائیں گے
بھٹکے ہوؤں کو سوئے حرم لائیں گے حضورؐ

معبد گرے ہیں ٹوٹ کے لات و منات کے
وہؐ بت شکن ہیں سب سے بڑے کائنات کے

418

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا عمل حدیث بنے گا ابد تلک
جن کے عمل میں ڈھونڈے گی تاریخ راستہ
جن کے عمل سے چہرۂ گردوں ہَے ماہتاب
جن کے عمل سے ہوگا مرتب نصابِ نو
جن کے عمل سے دامنِ ارض و سما میں رنگ
جن کے عمل سے نکہتِ گل سرفراز ہَے
جن کے عمل سے ندرتِ افکار کی بقا
جن کے عمل سے گلشنِ ہستی ہَے گلفشاں
جن کے عمل سے روشنی پھوٹی ہَے علم کی

جن کے ہر اک عمل میں ہَے وحدانیت کا نور
جن کے عمل سے ہَے ملا انسانیت کا نور

419

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ادیانِ باطلہ کو جو یکسر مٹائیں گے
الحاد و کفر و شرک کو جڑ سے اکھاڑ کر
توحید کے چراغ جلائیں گے وہ نبیؐ
تشریف آج لاتے ہیں روئے زمین پر
میلاد اُنؐ کا ارض و سما میں ہَے آج شب
کعبے میں بت تمام گرے آج منہ کے بل
پیغام تہنیت کے فرشتوں نے ہیں دیئے
صلِّ علیٰ کے پھول کھلے ہیں بہار میں
چمکا ہَے ہر افق پہ ستارا حضورؐ کا

اقلیمِ جاں کے آخری سلطان آگئے
برپا ہَے جشن، صاحبِ قرآن آگئے

420

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو ہیں نگار خانۂ قدرت کی روشنی
اُنؐ کے ہی دم قدم سے ہَے آباد صحنِ جاں
اُنؐ کے ہی دم قدم سے ہَے قائم مرا وجود
اُنؐ کے ہی دم قدم سے کھِلے مغفرت کے پھول
اُنؐ کے ہی دم قدم سے ہے موسم بہار کا
اُنؐ کے ہی دم قدم سے ہے انساں میں اعتماد
اُنؐ کے ہی دم قدم سے ہیں اشجار گلبدن
اُنؐ کے ہی دم قدم سے ہَے عنبر فشاں سحر
اُنؐ کے ہی دم قدم سے ہَے رخشندہ کائنات

موسم درِ حضورؐ پہ بخیہ گری کا ہَے
جو کچھ خدا کا ہَے وہ ہمارے نبیؐ کا ہَے

421

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو کیا گیا ہَے ودیعت خدا کا نور
جن کو ملا ہَے نصرت و شوکت کا ہر مقام
خوشبو تلاش کرتی ہَے جن کو چمن چمن
سرمایۂ امم ہَے نقوشِ قدم کی دھول
جن کا ہَے لفظ لفظ لغت انقلاب کی
وہؐ انقلابِ فکر و نظر کے امام ہیں
جو انقلاب حشر تلک کے ہَے واسطے
فرسودگی کا دامنِ صد چاک پھاڑ دو
رکھو افق افق پہ اجالے حضورؐ کے

سکّہ رواں ہَے آپؐ کا ارضِ حیات پر
لاکھوں درود سرورِ عالمؐ کی ذات پر

422

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو ازل سے نورِ امامت عطا ہوا
اُس نور کی بھکاری ہیں ساری قیادتیں
سالارِ کارواںؐ کے نقوشِ قدم کو ہم
آؤ بنائیں سر کا عمامہ کہ حشر تک
شدت کی دھوپ میں سروں پر سائباں رہے
آلامِ روزگار سے ہم کو ملے نجات
بے چہرگی کا قَصرِ ندامت ہو منہدم
ملّی وجود کا بھی تحفّظ کیا کرو
ہر فیصلہ ہو گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں

آقا حضورؐ، آپؐ ہیں قدرت کا انتخاب
ہر چیز کا ہَے آپؐ ہی کے نام انتساب

423

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انسانیت کو دیں گے جو معراجِ بندگی
انساں کو دیں گے درسِ اخوت مِرے حضورؐ
انسان کے وقار کا ہوگا علَم بلند
دیوار نفرتوں کی گرا کر مِرے نبیؐ
بانٹیں گے ان میں مہر و محبت کی چھاگلیں
آسودگی بنے گی مقدّر ہر ایک کا
ناکامیوں کی آگ میں جلتے ہوئے بشر!
تعمیر کر فصیلِ محبت قدم قدم
اترے ہر ایک دل میں اخوت کی روشنی

ہر ہر قدم پہ چاند ستارے سجائے گی
دستک، صبا مکان پہ دینے بھی آئے گی

424

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دستِ کرم ہَے جن کا سرِ شہرِ آرزو
ہَے جن کے دینِ امن کا پیغام آخری
اے شہرِ آرزو کے مکینو! اٹھو کہ پھر
مکر و ریا و بغض کی آندھی کے زور سے
گرنے لگے ہیں شہرِ محبت کے بام و در
آنگن میں کھِچ رہی ہَے مرے خون کی لکیر
لاشیں سوال کرتی ہیں لوگو! جواب دو
کس کس کے ہاتھ پر ہَے ہمارے لہو کا رنگ
ابلیس فتح مندی کے نشے میں مست ہے

کس نے بنا دیا ہَے مساجد کو قتل گاہ
خیمے لگا رہی ہَے شبِ مرگ کی سپاہ

425

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
امن و سلامتی کی جو لائے ہیں چاندنی
ذہنوں سے نفرتوں کا اتاریں گے آپؐ زنگ
دھوئیں گے میل روح و بدن کا تمام تر
اپنے عمل کے پھول بکھیریں گے ہر طرف
آقا حضورؐ، ہم پہ قیامت گزر گئی
ہر سَمت آگ، خون اور ادھڑے ہوئے بدن
کرتی ہَے بَین آج سسکتی ہوئی ہوا
ماؤں کی گود اجڑی ہوئی ہے، مِرے حضورؐ
چھوڑے ہوئے ہیں حکمِ الہٰی کو آج ہم

چہرہ ہَے کس کا جَبرِ مسلسل کی لہر میں
کس کی انا کی سرخ حکومت ہَے شہر میں

426

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے کرم کے دائرے میں ہوگی کائنات
آقا حضورؐ، آپؐ کے اس دائرے کی خیر
باگیں ہیں آج جھوٹے خداؤں کے ہاتھ میں
جو کھیل خاک و خون کا جاری ہَے اِن دنوں
اُس کھیل میں شکست مقدّر ہَے بن گئی
مجھ سے کہا ہَے جلتے ہوئے بادبان نے
یہ آگ اب گھروں کو جلائے گی، دیکھنا
رزقِ زمیں بنے گی تمنا عروج کی
منزل، ریاضؔ، عظمت و رفعت کی دور ہے

ہَے باگ کس کے ہاتھ میں جملہ امور کی
خانوں میں بانٹ دی گئی امت حضورؐ کی

427

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا وجود صبر و تحمل کا ماہتاب
دانائے شش جہات ہیں، عالم میں بے مثال
عزم و یقیں کے آپؐ ہی روشن نصاب ہیں
جن کے حروفِ نو سے کتابِ عمل میں رنگ
آقا حضورؐ، چشمِ کرم کا ہوں ملتجی
کل تک ضمیر زندہ تھا ہر اک مکین کا
لیکن یہ کیا کہ آج ہوا منہدم مکاں
گویا ضمیر مرگِ مسلسل کا ہَے ہدف
ہر ہاتھ میں ہَے اپنے مفادات کا غبار

آؤ کہ ہم بھی قَرض چکائیں ضمیر کا
پرچم بلند رکھیں خدا کے سفیر کا

428

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
بچپن ہَے جن کا صبر و قناعت کا آئنہ
پھیلی ہوئی ہیں نور کی شفاّف ساعتیں
پاکیزگی کے نور کے ہالے میں تھے حضورؐ
پاکیزگی کے نور کے ہالے میں ہیں حضورؐ
وہ جو مِرے رسولِ معظّمؐ کا ہَے خدا
ہر ابتلا کے وقت پکارا کرو اُسے
ہر حال میں رضائے الہٰی کی ہو طلب
ہر لمحہ بندگی کی تمنا میں ہو بسر
یارب! عطا ہو لوح و قلم کا مجھے جمال

مدحت کی وادیوں کی ہوائیں چلا کریں
شہرِ ثنا میں دیپ ادب کے جلا کریں

429

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے درِ عطا پہ مَیں رکھوں گا چشمِ تر
جھولی میں میری ڈالیں گے لطف و کرم کے پھول
آقاؐ، بَرہنہ سر ہوں میں صدیوں سے دہر میں
سر پر مرے غلامی کی دستار ڈال دیں
وہ تمکنت، وقار مقدّر بنے، حضورؐ
جس تمکنت کو دفن کیا مَیں نے خاک میں
آقا حضورؐ، نقشِ قدم کا گداز دیں
مولا! ترے حبیبؐ کا ادنیٰ سا ہوں غلام
آسودگی کے نور سے روشن ہو گھر مرا

قندیل آرزو کی سرِ شب جلا کرے
عشقِ نبیؐ کی بادِ بہاری چلا کرے

430

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن پر درود بھیجے گا ربِّ قدیر خود
جن کا غلام ہونا ہی اعزاز ہَے بڑا
در در کی ٹھوکریں ابھی قسمت میں ہیں، حضورؐ
آنسو بنے ہیں اُمّتِ مرحوم کا نصیب
غیروں کی ٹھوکروں میں ہَے دستار، یا نبیؐ
کہرام سا بپا ہَے سرِ شامِ زندگی
آقاؐ بجھی ہوئی ہَے دریچوں کی روشنی
ہر موڑ پر کھڑی ہَے شبِ غم کی تیرگی
آؤ، قسم اٹھائیں محمدؐ کے نور کی

جھوٹی انا کے جھوٹے خداؤں کو چھوڑ دیں
زر کے تمام آج روابط کو توڑ دیں

431

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا ادب سکھاتی ہیں قرآں کی آیتیں
جن کو ہَے احترام کا ہر پیرہن ملا
اوصاف جن کے درج ہیں اُم الکتاب میں
دانائیوں کے چاند ستارے ہیں ہمرکاب
حکمت کے پھول کھلتے ہیں قرب و جوار میں
آقاؐ، دیارِ کفر کے گرد و غبار میں
توثیقِ حرفِ حق کے لیے لب کشا ہوئے
باطل پہ ضرب کاری لگائی ہَے آپؐ نے
لات و منات کتنے ہوس نے بنا لیے

خود ساختہ خداؤں کے در سے اٹھو اٹھو
اندر کے آدمی کی انا سے الجھ پڑو

432

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انسان کی فلاح کا لائے ہیں جو نظام
کھولا گیا نجات کا در آپؐ کے طفیل
آسودگی کے پھول سرِ شاخ ہیں کھِلے
اُس ذاتِ منتخب پہ کروڑوں درود ہوں
جرأت کی ہر لغت کرے جھک کر انہیں سلام
یہ عہد سر بَرہنہ ہَے، آقائے محتشمؐ!
اگلی شرافتوں کے بھی ملتے نہیں ہیں لوگ
ایندھن ہیں ہم ہوس کے الاؤ کا، یانبیؐ
ہر آدمی ہَے فتنہ و شر کے حصار میں

ہر ہر اُفق پہ کھینچ دی ہے خون کی لکیر
پیوندِ خاک آج ہَے انسان کا ضمیر

433

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو ہر اِک بشر کے مفادات ہیں عزیز
جن کا فقط ہَے نام ہی تسکینِ قلب و جاں
آقاؐ، زمیں پہ اتنا گناہوں کا بوجھ ہے
اندر کی تیرگی سے سیہ پوش ہَے بدن
بے چہرگی کے عہدِ پشیماں میں آج ہَے
آدم کی نَسل آئنہ خانوں کے روبرو
کیسی یہ شامِ جَبر سروں پر محیط ہَے
آقاؐ، کھڑے ہیں شب کے محافظ اِدھر اُدھر
جگنو کی روشنی بھی گوارا نہیں اِنہیں

دنیا مِرے حضورؐ کے دامن کو تھام لے
طیبہ کی سر زمین پر اذنِ قیام لے

434

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ضامن ہیں جو ازل سے ہماری نجات کے
جن کا کرم حصارِ کرم ہَے نفس نفس
آلامِ روزگار کا سورج سروں پہ ہَے
آؤ اُسی کرم کی ردا سر پہ اوڑھ لیں
نکلے ہو روشنی کے سفر پر تو، دیکھنا
جس کو ہوئی نصیب قیادت حضورؐ کی
وہ حشر تک کرے گا اجالا افق افق
جلتے رہیں گے ہاتھ پہ رکھے ہوئے چراغ
آکر ہوا کرے گی حفاظت قدم قدم

روشن ہَے آفتاب کرم کا خیال میں
نقشِ قدم ہَے آپؐ کا حرفِ جمال میں

435

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا وجود گلشنِ ہستی کی آبرو
جن کے نفس نفس میں ہیں پھولوں کی خوشبوئیں
جن کے جمال و حسن کا در ہَے کھُلا ہوا
اِس در پہ روشنی کے اترتے ہیں قافلے
اِس در سے بھیک ملتی ہَے حسنِ کلام کی
رم جھم برس رہی ہَے کرم کی، قدم قدم
اللہ کی رحمتوں کا تسلسل سے ہَے ورود
سرکارؐ ہیں خدا کے کرم کے حصار میں
جو مانگنا ہَے مانگ لو میرے حضورؐ سے

یہ در مِرے حضورؐ کا در ہَے چلا بھی آ
جود و سخا کے پھول اِسی در کے ہیں عطا

436

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
عظمت کا ہر مقام جنہیں ہَے عطا ہوا
رفعت کے قافلوں کے ہیں سالارِ کارواں
وہ نورِ اجتہاد ہیں روئے زمین پر
عقل و خرد حضورؐ کے در کی ہیں باندیاں
تشکیک کے غبار میں کب سے ہوں، یانبیؐ
کرنوں کے پھول میرے بھی دامانِ چاک میں
مجھ کو ملے حریمِ تیقّن کی روشنی
بیمار سوچ کا مری چارہ کوئی کریں
کب تک مَیں آئنوں کا کروں سامنا، حضورؐ

دھڑکا لگا ہوا ہَے بدن کے فشار کا
طوفان اٹھ رہا ہَے گلی میں غبار کا

437

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے طفیل ہَے شرف انسان کو ملا
جن کے طفیل عظمتِ انساں ہوئی بحال
جن کے طفیل رنگ دھنک کے بنے گلاب
اس بزمِ کائنات میں انسان کا خمیر
جن کے طفیل باعثِ صد افتخار ہَے
ابرِ کرم جنابِ رسالت مآبؐ کا
کب سے برس رہا ہَے قلم کے جوار میں
کب سے ورق ورق پہ اترنے لگی کرن
مَیں خیمہ زن ازل سے ہوں شہرِ رسولؐ میں

یارب! شبِ عذاب سے حاصل اماں رہے
حمد و ثنا کا سر پہ مرے آسماں رہے

438

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو درگذر کے باب کا ہیں حرفِ آخریں
جن کے کرم کا ارض و سما پر ہَے سائباں
جو بانٹتے ہیں اہلِ جہاں میں نیا شعور
تعمیرِ شخصیت پہ وہ منجانبِ خدا
مامور ہیں ازل سے ابد تک، سنے جہاں
مبنی ہماری سوچ ہو آقاؐ کی فکر پر
مضمر ہَے اِس میں راز ہماری نجات کا
ممدوحِ ربِّ ارض و سماوات پر سلام
ممدوحِ ربِّ ارض و سماوات پر درود

تعلیم ہَے حضورؐ کی سچ بولتے رہو
بیتِ عمل کی کھڑکیاں سب کھولتے رہو

439

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انساں کو جو کریں گے اجالوں کا ہمنشیں
ہر ہر قدم پہ پھول محبت کے ہیں کھِلے
ہر ہر قدم پہ خُلقِ مصوَّر کے آئنے
سچائیوں کی سلکِ منّور کے سائباں
جن کے نقوشِ پا کو سدا چومتے رہیں
جن کو ہَے احترام کی مسند ملی ہوئی
آقا حضورؐ، چشمِ عنایت ہو اِس طرف
محرومیوں کی آگ میں جلتے ہیں روز و شب
آسودگی کا موسمِ سر سبز اب نہیں

موسم تمام آپؐ کے لطف و عطا کے ہیں
محتاج کب حضورؐ ہماری ثنا کے ہیں

440

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
قرآن جن کی نعتِ مسلسل کا نور ہے
ہر لفظ میں سجاؤ دلِ پاک باز کو
قرنوں سے انحراف کا ہر راستہ ہَے بند
آؤ، صراطِ عشق کے خوش بخت ساتھیو!
بوئے گلابِ نعت کو عنبر فشاں کریں
ہر آئنے میں گنبدِ خضرا کا عکس ہو
ہر سانس میں بھی صلِّ علیٰ کا چمن کھلے
برسیں گے میری روح پر ابرِ کرم کے پھول
قلب و نظر میں ہوگا چراغوں کا رقص بھی

قرآں سے پھول نعتِ نبیؐ کے چنا کرو
تصویر احترام کی خود بھی بنا کرو

441

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا عروج آدمِ بے مثل کا عروج
دامانِ آرزو میں کھلیں گے نئے گلاب
بندے بھی وہؐ عظیم ہیں مرسل بھی وہؐ عظیم
پوشاک اُنؐ کو عظمت و رفعت کی ہَے ملی
اُنؐ کے کرم کا اَبر ہَے ہر چیز پر محیط
سر پر ردائے عفو و کرم دیجئے، حضورؐ
یہ عہد تیز دھوپ میں جلتا ہَے جس کا تن
کب سے برہنہ سر ہَے، خنک ساعتوں کی بھیک
آقا حضورؐ، اس کے بھی دامن میں ڈال دیں

یارب! ہوائے شہرِ مکرّم کرے ہجوم
میری گلی میں اتریں فلک سے مہ و نجوم

442

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر ہر قدم ہَے جن کی بلندی کا آسماں
ہر ہر نفس ہَے جن کا ضمانت حیات کی
ہر ہر ادب ہَے جن کے درِ پاک کا ادب
ہر ہر سخن ہَے جن کی غلامی پہ مفتخر
ہر ہر افق ہَے مظہرِ انوارِ مصطفیٰؐ
ہر ہر لغت ہَے عِلمِ پیمبرؐ کی خوشہ چیں
ہر ہر قلم ہَے مدحت و توصیف کے لیے
ہر ہر فلک ہَے نقشِ کفِ پا کا منتظر
ہر ہر زباں پہ اسمِ محمدؐ لکھا گیا

بزمِ تصورات میں جلتے رہیں دیے
تخلیق لفظ اُنؐ کی ثنا کے لیے ہوئے

443

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
خُلقِ عظیم پر ہیں جو، قرآن کے بقول
ایمان احترامِ پیمبرؐ کا نام ہَے
ہر عہد جن کے حیطۂ عفو و کرم میں ہَے
فوز و فلاح جن کی ہَے تعلیم کا ہدف
آقا حضورؐ، ذہن ہَے انساں کا منتشر
زر کی ہوس ہَے پاؤں کی زنجیرِ آہنی
اٹھتا نہیں قدم کوئی راہِ نجات میں
آدم کی نَسل آج بھی اس سب کے باوجود
احسان مند سرورِ کون و مکاںؐ کی ہَے

ممنون ہَے کہ چادرِ رحمت عطا ہوئی
ہر آرزو بشر کی سپردِ دعا ہوئی

444

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر حسن جن کے نام کی خیرات ہے، ریاضؔ
اُنؐ کا مَیں ایک ادنیٰ سا شاعر ہوں، یاخدا
میرا قلم ابد تلک اُنؐ کی ثنا لکھے
ابرِ کرم ہَے آپؐ کا آفاق پر محیط
حوّا کی بیٹیوں کے برہنہ سروں پہ پھول
آقا حضورؐ، جبرِ مسلسل میں کب تلک
انساں کسی کی جھوٹی اَنا کا بنے گا رزق
میری صدی کے سر پہ بھی نمرود ہَے سوار
روشن الاؤ آگ کا ہر سَمت ہَے، حضورؐ

انسان آج قریۂ جَبرِ اَنا میں ہَے
زندہ تو ہَے ضرور، پہ دستِ قضا میں ہَے

445

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
فردوس جن کے گھر کے کہیں آس پاس ہَے
آسودگی ہَے ذکرِ پیمبرؐ کا ارمغاں
خوشبو چراغ رکھتی ہَے ہر اک منڈیر پر
اُنؐ کی ثنا کے چاند ہیں روشن ہر اک طرف
قلب و نظر میں آپؐ کا عکسِ جمیل ہَے
ہر لفظ میرا، اُنؐ کی غلامی پہ کار بند
مخلوق ہر زماں کی کرے آپؐ کو سلام
ہر آئنہ ہَے نقشِ کفِ پا سے عکس ریز
اترے ہیں اُنؐ کے در پہ فرشتوں کے قافلے

اُس در پہ حاضری کی دعا مانگتے رہو
شہرِ نبیؐ کی آب و ہوا مانگتے رہو

446

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے درِ عطا پہ بچھی چادرِ طلب
جن کے درِ عطا پہ ستارے کریں ہجوم
دامن بھریں ضیائے نبیؐ سے وہ صبح و شام
اُنؐ کے درِ عطا پہ رکھو آرزو کے پھول
اذنِ خدا سے کرتے ہیں سب کچھ ہمیں عطا
اُنؐ کی عطا، عطا ہَے خدائے رحیم کی
لایا ہوں مَیں بھی دامنِ صد چاک، یانبیؐ
ہَے سیل دل میں عرضِ تمنا کا موجزن
اک دن درِ عطا پہ کریں گے طلب مجھے

مل کر، ریاضؔ، آج بھی ذکرِ نبیؐ کریں
اپنی شبِ سیاہ میں پھر روشنی کریں

447

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر روشنی کا جن کی کنیزوں میں ہَے شمار
ہر دلکشی ہَے جن کے تصوّر سے منسلک
ہر آگہی ہَے جن کے حروفِ دعا کا رنگ
ہر چاندنی ہَے جن کے تبسّم کی پنکھڑی
ہر تازگی ہَے جن کے مقدّس لبوں کا نم
صد شکر نعت گوئی کا منصب ملا مجھے
صد شکر میرے سر پہ عمامہ ثنا کا ہَے
صد شکر میرا سارا قبیلہ غلام ہَے
میری ہَے اُنؐ کے سایۂ رحمت میں سلطنت

نقشِ کفِ نبیؐ کا طلب گار ہَے قلم
وقفِ ثنائے احمدِ مختارؐ ہَے قلم

448

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا خیال قلب و نظر کا سرور ہَے
جن کا ہَے اسمِ پاک وسیلہ نجات کا
مَیں جانتا ہوں آپؐ کے دربارِ نور میں
بادِ صبا سلام مرا لے کے جائے گی
مَیں منتظر ہوں آپؐ کی چوکھٹ پہ آج شب
خوشبو، بیاض گھر سے مرے لے کے آئے گی
سردارِ انبیائؐ کو بڑے احترام سے
اپنی بیاضِ نعت مَیں پڑھ کر سناؤں گا
تصویر انکسار کی ہَے میرا ہر سخن

آقا حضورؐ رونقِ بزمِ خیال ہیں
وہ پوری کائنات کا حسن و جمال ہیں

449

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
لفظِ زوال درج نہیں جن کے باب میں
حلف الفضول فکر کی رعنائیوں کا نام
حلف الفضول عظمتِ سرکارؐ کی دلیل
مجھ پر کھُلا یہ راز سرِ مسندِ ادب
ڈالے ہزار چاند ستاروں پہ تو کمند
آدم کا احترام ہَے پر شرطِ اوّلیں
معیار کب حَسب نَسَب انسانیت کا ہَے
ممکن نہیں فرار حقوق العباد سے
اللہ کے حقوق ادا کیجئے تمام

صحرا ہزار ہیں مرے اندر چھپے ہوئے
تشنہ لبی کا وہؐ ہیں مداوا بنے ہوئے

450

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سایہ ہَے جن کے لطف و کرم کا قدم قدم
آقاؐ جو انقلاب ہیں لائے زمین پر
ضامن، وہ انقلاب ہَے فوز و فلاح کا
اس انقلابِ نور کا منشا ہَے ایک یہ
انسان کے حقوق معطل نہ ہوں کبھی
ہَے دائرہ حقوق کا ہر چیز پر محیط
انسان کے حقوق میں تفریق مت کرو
ہر فرد اپنے اپنے فرائض ادا کرے
احسان و عدل، نور مہذب دنوں کا ہَے

اللہ کا انتخاب ہَے سرکارؐ کا وجود
ہر ذرّہ کائنات کا اُنؐ پر پڑھے درود

451

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رہوارِ وقت جن کی ہَے آمد کا منتظر
ہر ذرہ ارضِ جاں کا ہوا آج فرشِ راہ
آنکھیں سجی ہوئی ہیں افق کی منڈیر پر
ہر ہر صدی کے لب پہ رقم ہَے اُنہیؐ کا نام
میلادِ مصطفیٰؐ کا فلک کو ہَے انتظار
سیّارگاں کو آج بھی اُنؐ کی تلاش ہے
قدموں کو چومتا ہوں تصوّر میں رات دن
دستِ طلب سے تھام لوں چوکھٹ حضورؐ کی
باڑا بٹے گا آج بھی لطفِ عمیم کا

ہر حرف آرزو کا چراغِ حرم ہوا
میرے نبیؐ کا مجھ پہ مسلسل کرم ہوا

452

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
حوّا کی بیٹیوں کو جو عفت کی دیں گے شال
ہر شخص کے حقوق کے جو پاسبان ہیں
فرمان ہَے جنابِ رسالت مآبؐ کا
یہ بچّیاں ہیں نارِ جہنّم سے ایک ڈھال
نسبت حضورؐ، آپؐ کے در سے انہیں بھی ہے
ممنوں رہیں گی میری بھی نسلیں ابد تلک
سر پر رکھیں گی گٹھریاں قرضِ شعور کی
آقا حضورؐ، میرے گھرانے پہ ہو کرم
آقا حضورؐ، دستِ طلب پر کھلیں گلاب

آسانیاں نصیب ہر اک آدمی کو ہوں
لمحات سرخوشی کے بھی حاصل سبھی کو ہوں

453

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اُس کی ربوبیت کا جو دیں گے ہمیں شعور
اُس کی الوہیت کا کریں گے عَلم بلند
توحید کے چراغ جلائیں گے وہ نبیؐ
آتے ہیں آپؐ عرشِ بریں سے سوئے زمیں
پلکیں بچھا رہے ہیں ستارے قدم قدم
ہر سَمت ہَے حضورؐ کے انفاس کی تپش
چہرہ کھِلا ہوا ہَے چمن میں بہار کا
بکھرے ہوئے ہیں رنگ دھنک کے روش روش
میری، ریاضؔ، اپنے خدا سے ہَے التجا

سب کو درِ حضورؐ کی ہو حاضری نصیب
سرکارؐ کی گلی کی بھی ہو روشنی نصیب

454

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جنّت ہَے جن کے روضۂ اقدس کے آس پاس
سرکارؐ کی گلی میں پڑا ہوں، پڑا رہوں
ہر سَمت ہَے حضورؐ کے انوار کی پھوار
شدت کی پیاس تھی مرے ہونٹوں پہ خیمہ زن
لذّت بڑی عجیب، سنو، تشنگی میں تھی
آبِ خنک کے سبز کٹورے ہیں ہاتھ میں
چشمہ رواں ہَے سامنے آبِ خلوص کا
سیراب ہو رہی ہَے مری روح کی زمیں
دامن تہی نہیں سرِ بازارِ روز و شب

دستک ورق ورق پہ ثنائے نبیؐ کی ہَے
آہٹ نفس نفس میں اسی روشنی کی ہَے

455

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر عہد جن کے نقشِ قدم کی تلاش میں
ارضِ دعا پہ نور کے روشن سفر میں ہے
سارے تمدنوں کی وہی آبرو تو ہیں
ہر ہر ورق پہ ذکر ہَے آقا حضورؐ کا
تاریخ کو غلامیٔ سرکارؐ ہَے عزیز
میری ہر اک صدی ہَے غلامی پہ مفتخر
عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک اُنہیؐ کا نور
ہَے پرفشاں کہ بعدِ خدا ہیں وہی عظیم
اُنؐ کا ادب سکھایا ہَے قرآن نے ہمیں

ماہِ عربؐ کے نور میں ڈوبا رہے قلم
نعتِ نبیؐ خلوص سے کرتا رہے رقم

456

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مقروض جن کے عہدِ کرم کا ہَے آدمی
مقروض جن کے دستِ عطا کا ہَے ہر سخن
عہدِ کرم حضورؐ کا، ہر عہد کی طلب
ہر عہد ڈھونڈتا ہے اُسی عہد کی سحر
حکمِ حضورؐ وسعتِ ارض و سما میں ہے
روزی رساں خدا ہَے جو سب سے عظیم ہَے
تخلیق کار اپنی ہَے مخلوق کا وہی
مسکین جو ہیں اُن کے سروں پر ردائیں دو
رختِ سفر مسافروں کے ہاتھ پر رکھو

ہر عہد کا جواز تمنا ہَے آپؐ کی
دنیا جہاں بھی ہے وہی دنیا ہَے آپؐ کی

457

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا وجود رحمتِ پروردگار ہے
جن کا وجود بخشش و رحمت کی ہَے سند
جن کے وجودِ پاک کے صدقے میں آج بھی
آدم کی نَسل سایۂ ابرِ کرم میں ہے
بچوں کے قتلِ عام سے روکا حضورؐ نے
نیکی بدی کے خانے الگ ہیں رکھے گئے
احسان کرنے والوں کو جنت کی ہَے نوید
اعمالِ خیر حسن ہیں اس کائنات کا
چادر ہمیں بھی آپؐ قناعت کی دیں، حضورؐ

محفوظ ہوگی سانس کی ڈوری مکین کی
کس دن بجھے گی پیاس مری سر زمین کی

458

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
رہتے ہیں وہ جو حجرۂ فکر و خیال میں
ہر آنکھ میں ہَے خاکِ مدینہ سجی ہوئی
فرماں مِرے حضورؐ کا تازہ گلاب ہَے
ہر رہگذر پہ پیڑ لگاتے ہوئے چلو
ہر تشنہ لب پہ حرفِ تشکر لکھے ہوا
آبِ خنک کے سبز کٹورے ہیں راہ میں
فرمایا ابنِ آدمِ خاکی سے آپؐ نے
شفقت کا ہاتھ رکھو یتامیٰ کے سر پہ تم
ہمسائیگی کا قرض اتارو نفس نفس

تقلیدِ ناروا سے بھی لازم ہَے اجتناب
اندر کے آدمی کا کریں، آؤ احتساب

459

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا وجودِ پاک ہَے بنیادِ آگہی
جن کا وجودِ پاک ہَے ہر چیز کا جواز
جن کے وجودِ پاک کا صدقہ ہَے زندگی
جن کے وجودِ پاک کی اترن ہَے زندگی
خیرات جن کے اسم کی کونین کا ہَے حسن
کاسہ لیے کھڑے ہیں دھنک کے تمام رنگ
خوشبو مرے لبوں پہ رکھے گی گلِ درود
جگنو پڑھیں گے نعتِ مسلسل، سرِ قلم
آؤ تمام اشک سپردِ ہوا کریں

وہؐ مکتبِ ازل کی ہیں روشن تریں کتاب
عقل و شعور و عشق کا ہیں آخری نصاب

460

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
سر پر ہَے جن کے عِلم کی دستارِ محتشم
سر پر ہَے جن کے تاج رسالت کے نور کا
سر پر ہَے جن کے حرفِ صداقت کی روشنی
اُنؐ کی ثنا کے لفظ سپردِ قلم کرو
وحیٔ خدا کا خاتمہ بھی آپؐ پر ہوا
آقاؐ ہیں آسمانی ہدایت کے آفتاب
آقاؐ کے احترام کی چادر سروں پہ ہے
ساری فضیلتیں مرے آقاؐ کی باندیاں
ساری بلندیاں ہیں پیمبرؐ کے واسطے

کبر و ریا و بغض کے شر سے ڈرا کرو
صبر و رضا کی مشعلیں روشن رکھا کرو

461

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو شفاعتوں کی ہَے مشعل عطا ہوئی
فرمان جن کا نور کا ہالہ ہَے آج بھی
صف بستہ تم جہاد عدو سے کیا کرو
اندر کے آدمی سے مسلسل لڑا کرو
خیرالامم ہو خیر کی رہ پر چلا کرو
منشائے ایزدی کے مطابق ڈھلا کرو
دن رات ربِّ پاک کی مالا جپا کرو
پھر تم کبھی شکار نہ ہو گے جمود کا
منزل تمہارے نقشِ قدم ڈھونڈ لائے گی

ہر ہر قدم پہ اُنؐ کے کرم کا ہَے دائرہ
صدق و صفا کا وصف ہَے سیرت کا آئنہ

462

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
چرچا ہَے جن کی سیرتِ نوری کا ہر طرف
ہَے ڈھانپ رکھّی سبز بہاروں نے یہ زمیں
اُنؐ کا عمل ہَے میرے تمدن کی آبرو
تاریخ کاربند ہَے نقشِ حضورؐ پر
کشتِ قلم میں پھول کھلے اس لیے بہت
رعنائیِ خیالِ مدینہ کا فیض ہَے
اوراقِ جاں پہ گنبدِ خضرا کا ہَے جمال
سانسوں میں تتلیاں ہیں درودوں کی صد ہزار
رکھو چراغِ نعت فصیلِ شعور پر

ہر پنکھڑی گلاب کی، پتھر نہیں بنی
تشنہ لبی قلم کا مقدّر نہیں بنی

463

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے نقوش چومے گی تاریخِ روز و شب
احسان جن کا نوعِ بشر پر ہَے آج بھی
کردار وہ عظیم ہَے کردارِ آخری
اب بند ہَے کتابِ ازل روزِ حشر تک
لیکن دلوں پہ اُنؐ کی محبت کا ضابطہ
نافذ رہے گا حشر تلک طمطراق سے
چشمِ تصورات نے ارضِ بدن پہ آج
رکھی ہَے اُنؐ کے نقشِ کفِ پا کی روشنی
ارضِ بدن پہ پھول کھلیں گے کئی ہزار

شاخِ انائے فرد پہ کھِلتے نہیں ہیں پھول
جلنا حسد کی آگ میں ہر گز نہیں قبول

464

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اوراقِ زندگی پہ رقم جن کا نام ہَے
جن کا خیال رہتا ہَے ان دھڑکنوں کے ساتھ
جن کا خیال رہتا ہَے آنکھوں میں رات دن
جن کا خیال رہتا ہَے ہر سانس میں مری
جن کا خیال چرخِ ہدایت کی ہَے دھنک
جن کا خیال روح و بدن کا ہَے ارتباط
جن کا خیال وادیٔ شعر و سخن کی جاں
جن کا خیال شہرِ ادب میں رکھے چراغ
جن کا خیال نعتِ مسلسل کی دلکشی

کیف و سرور سرمدی کی شام کیا ڈھلے
حمد و ثنا کا تا بہ ابد سلسلہ چلے

465

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
فکرو نظر پہ جن کی حکومت ہَے دائمی
ہر آئنے میں عکس درِ مصطفیٰؐ کا ہَے
روشن ہَے ہر افق پہ سراپا حضورؐ کا
ہر لمحہ اُنؐ کے دامنِ عفو و کرم میں ہے
دستِ عطا پہ کھلتے رہیں گے کرم کے پھول
لوح و قلم کے خالقِ یکتا! بروزِ حَشر
ابرِ کرم کی چھاؤں میّسر مجھے بھی ہو
توصیفِ مصطفیٰؐؐ کی مضامیں ہیں اَن گِنت
اسمِ نبیؐ ہَے نعتِ مسلسل کی خود مثال

خلدِ قلم میں نعتِ نبیؐ کی بہار دے
میرے لبوں پہ اسمِ محمدؐ اتار دے

466

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جو حسنِ لازوال کے ہیں پیکرِ جمیل
توصیف و احترام کے وہ پیرہن میں ہیں
پوشاک اُنؐ کی حرفِ منزہ کی چادریں
ہر لمحہ چشمِ حیطۂ انوار میں ہیں آپؐ
اے حسنِ کائنات لے، خیرات آپؐ سے
اُنؐ کے نقوشِ پا سے اٹھا کر نئے چراغ
ہر شب درِ حضورؐ سے کرنوں کے پھول چن
ہر دن رکھے جبیں پہ اُنہیؐ کے تمام رنگ
ہر ہر صدی کو پرچمِ توحید ہو نصیب

کارِ جہاں میں صرف توکّل خدا پہ ہو
ہر انحصار دہر میں حرفِ دعا پہ ہو

467

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دامن میں جن کے ارض و سما کا جلال ہے
پرچم بنا ہَے جن کا حریرِ شعور سے
صدق و صفا کے نور سے معمور قلب و جاں
تشریف آج لاتے ہیں ارضِ حیات پر
لکھا گیا ہَے لوحِ ازل پر ازل سے یہ
آئیں گے جب حضورؐ سرِ لامکاں تو پھر
سدرہ نشین ہوں گے ملائک کے قافلے
محرابِ آرزو میں قلم سجدہ ریز ہو
لکھے حروفِ نعتِ نبیؐ لوحِ عشق پر

اپنے قلم کو چوم کے صلِّ علیٰ کہوں
میلاد ہَے حضورؐ کا صد مرحبا کہوں

468

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
روزِ ازل سے جن کا عَلم سر بلند ہَے
عظمت کا ہر مقام ہَے اس در کی گردِ پا
رفعت ہَے آسماں کی نقوشِ قدم کی دھول
محبوبیت میں ذاتِ نبیؐ لاشریک ہَے
اُنؐ کی مثال ارض و سما میں کوئی نہیں
اُنؐ کی نظیر ڈھونڈ کے لاؤں کہاں سے مَیں
مخلوق میں خدا کی، ہیں یکتا وہی رسولؐ
آقاؐ ہیں میرے بزمِ رسالت کے تاجدار
آقاؐ ہیں میرے ملکِ اخوت کے حکمراں

مکر و فریب و دجل کا ملتا نہیں سراغ
طاقِ دعا میں جلتے ہیں اخلاص کے چراغ

469

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ارض و سما میں جن کی بلندی کے تذکرے
جاری رہیں گے روزِ قیامت کے بعد بھی
اقلیمِ آرزو میں چراغاں اُنہیؐ سے ہَے
بزمِ جہاں میں آپؐ ہی روشن چراغ ہیں
قندیل ہَے خلوص کی میرے بھی ہاتھ میں
اِس روشنی میں لکھّوں گا نعتیں حضورؐ کی
اس روشنی میں لکھّوں گا اوصاف آپؐ کے
اِس روشنی میں لکھّوں گا تفسیرِ روز و شب
اِس روشنی میں لکھّوں گا شہرِ نبیؐ کا نام

سرکارؐ کا وسیلۂ رحمت طلب کرو
قرآن کہہ رہا ہَے کہ اُنؐ کا ادب کرو

470

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
برسات جن کے جود و کرم کی ہَے ہر طرف
اوصاف جن کے سیرت و کردار کے چراغ
معراج آدمی کی ہیں جن کے نقوشِ پا
ذکرِ جمیل جن کا ہے ہر آگہی کا نور
ہر روشنی حرا کے ہے خورشید کی عطا
اُنؐ کے درِ عطا پہ چَلَو سر کے بل چلیں
تصویر احترام کی بن کر کریں یہ عرض
آقا حضورؐ، چشمِ کرم چاہیے ہمیں
ہر ابتلا سے ہم کو تحفظ عطا کریں

دھوکہ دہی تو اصل میں جنگل کا ناگ ہے
انجام ہر بخیل کا دوزخ کی آگ ہے

471

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا فقط خیال ہَے معراجِ آرزو
جن کا فقط خیال ہَے ہر روشنی کی چھَب
جن کا فقط خیال ہَے شادابیِٔ چمن
جن کا فقط خیال کرے چاکِ جاں رفو
جن کا فقط خیال ہَے خوشبو کی داستاں
جن کا فقط خیال قلم کی ہَے آبرو
جن کے فقط خیال سے ہوگی سحر طلوع
فردا کی روشنی اسی در پر کرے قیام
اُنؐ کے کرم کا سلسلہ جاری ہَے آج بھی

امیدوارِ چادرِ ابرِ کرم رہو
صبر و رضا لیے ہوئے ثابت قدم رہو

472

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہَے آرزوئے ارض و سماوات جن کی ذات
جو آبروئے حرفِ سخن، شہرِ دل میں ہیں
سارے تمدنوں کی جنہیں روشنی لکھوں
جو خطّۂ شعور کی سرحد ہیں آخری
اقلیمِ روز و شب پہ سحابِ کرم ہیں وہؐ
فضلِ خدائے پاک کی روشن تریں کتاب
رحمت کا آفتاب ہیں ہر آسمان پر
محبوبؐ کردگار کے آقا حضورؐ ہیں
بادل ہَے احترام کا سر پر جھکا ہوا

شیطاں کے وسوسوں کا جگر پاش پاش کر
اوہام سے نجات کا رستہ تلاش کر

473

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر آگہی ہَے جن کے لبِ پاک کی عطا
جی چاہتا ہَے آج بھی دہلیزِ پاک پر
کشکول آرزو کا اٹھا کر کہوں، حضورؐ
انوارِ التفات کی برسات کیجئے
جی چاہتا ہَے آج بھی اُنؐ کو پکار کر
طشتِ ادب میں زخم سجاؤں کئی ہزار
فریاد لب پہ لکھّوں بڑے احترام سے
آقا حضورؐ، آج بھی شاعر یہ آپؐ کا
اربابِ زر کی محفلِ شب میں ہَے اشکبار

طاقِ دل و نظر میں ادب کا جلے چراغ
خوفِ خدا، ضمیر کا بنتا رہے چراغ

474

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
ہر روشنی ہَے جن کے تبسم کی پنکھڑی
سورج کو جن کے نقشِ کفِ پا کی ہَے تلاش
ہم بے نوا بھی آپؐ کی کرتے ہیں آرزو
محتاج ہیں خدا کے، کرم کیجئے، حضورؐ
اُس ہستیٔ عظیم کو جھک کر کریں سلام
اُنؐ کے وجودِ پاک پہ بھیجیں گلِ درود
اُنؐ پر نثار سب کے سلاموں کی ڈالیاں
اُنؐ کا خدا، خدائے رحیم و کریم ہَے
اِمشب بھی اُس کے در پہ حروفِ دعا لکھیں

ہر فیصلے کا مالک و مختار ہَے وہی
اور پردہ پوشِ چشمِ گنہ گار ہَے وہی

475

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مکتب میں جن کے عِلم کے روشن ہوئے چراغ
جو جلوہ گر ہیں مسندِ عقل و شعور پر
ساری ثقافتوں کو دیں خیرات نور کی
اُنؐ کے کرم کا سلسلہ جاری ہَے حَشر تک
محشر بھی اُنؐ کے تاجِ شفاعت کا نور ہَے
محشر بھی اُن کی عظمت و توقیر کا ہَے دن
محشر بھی اُنؐ کی شانِ نبوت کا ہَے ظہور
ہَے حَشر اختیارِ پیمبرؐ کا آئنہ
کوثر کا جام آپؐ کے دستِ عطا میں ہے

اسمِ جنابِ میرِ اممؐ بے مثال ہَے
بعد از خدا، حضورؐ کا جاہ و جلال ہَے

476

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دانش کدہ ہَے جن کی لغت کا ہر اک ورق
ہر لفظ ہَے حضورؐ کا معراجِ فکر و فن
فرمان مصطفیؐ کا نصابِ رہِ حیات
سارے تمدنوں کو فقط آپؐ کی طلب
آدم کی نَسل کے لیے کھولیں درِ نجات
تفسیر زندگی کی ہَے سرکارؐ کی حدیث
قرآن ایک نعت ہَے میرے حضورؐ کی
دامانِ مصطفیٰؐؐ سے ہَے وابستہ روشنی
ہر دلکشی حضورؐ کو جھک کر کرے سلام

گردوں پہ آفتاب کا چہرہ بھی دنگ ہَے
ہر ہر افق پہ گنبدِ خضرا کا رنگ ہَے

477

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا درِ عطا و کرم روزِ حَشر بھی
بانٹے گا اہلِ حشر میں کلیاں نجات کی
عرفان و آگہی کا ہَے مرکز یہی مقام
تقویٰ ہَے جن کے دامنِ صد رنگ کی بہار
پاکیزگی ہَے دامنِ سرکارؐ کا چراغ
سجدوں کو اضطرابِ مسلسل عطا کریں
سوز و گدازِ عشقِ نبیؐ کی نہیں مثال
اُنؐ کا خیال شہرِ سخن کو کرے نہال
ہر حسنِ لازوال میں ہَے آپؐ کا جمال

نقشِ قدم ہیں آپؐ کے ارضِ حیات پر
احسان ہیں حضورؐ کے اس کائنات پر

478

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
تخلیقِ اولیں کا ملا ہَے جنہیں لقب
میلادِ پاک عشق کی تحریرِ جاوداں
یہ روزِ عید، فکر و نظر کا ہَے اجلا پن
یہ روزِ عید، ثروتِ اہلِ قلم بھی ہے
یہ روزِ عید، منظرِ آفاق کا جواز
یہ روزِ عید، صبح ازل کی ہَے دلکشی
یہ روزِ عید، بوئے گلستاں کا پیرہن
یہ روزِ عید، شاخِ تمنا کا سبز پھول
یہ روزِ عید، مصحفِ قرآں کی روشنی

میلادِ پاک رحمتِ پروردگار ہَے
ارض و سما میں تابشِ لیل و نہار ہَے

479

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
میلادِ پاک جن کا ہَے بنیادِ انقلاب
تاریخِ ارتقائے بشر کا ہَے سنگِ میل
انسان کے حقوق کی توثیق کا ہَے دن
یہ روزِ عید، سجدۂ آدم کی آبرو
یہ روزِ عید، عہدِ مکرّم کی ہَے نوید
یہ روزِ عید، امن و اماں کا پیام بر
یہ روزِ عید، روزِ تشکر ہَے، ساتھیو!
یہ روزِ عید، چرخِ محبت کا ماہتاب
مخلوقِ ہر زماں کو مبارک ہزار دو

یہ آمنہؓ کے لالؐ کے آنے کا روز ہَے
ہر ہر گلی میں جشن منانے کا روز ہَے

480

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آمد ہَے جن کی مِہرِ مساوات کا طلوع
آمد ہَے جن کی مکتبِ تہذیب کا عروج
آمد ہَے جن کی نغمۂ صلِّ علیٰ کی گونج
آمد ہَے جن کی عظمتِ انسان کی دلیل
آمد ہَے جن کی لوح و قلم کی گلاب رُت
آمد ہَے جن کی حسن و تبسم کا امتزاج
آمد ہَے جن کی عدل کے دستور کا نفاذ
آمد ہَے جن کی باعثِ تکریمِ انس و جاں
آمد ہَے جن کی نعرۂ تکبیر کا جواب

روئے زمیں پہ آج اُنہیؐ کا ظہور ہَے
ہر سَمت کائنات میں ذکرِ حضورؐ ہَے

481

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آمد ہَے جن کی چہرۂ باطل کا انحطاط
آمد ہَے جن کی جھوٹے خداؤں کا روزِ مرگ
آمد ہَے جن کی صبحِ ازل کا تمام حسن
آمد ہَے جن کی خالقِ حرفِ ادب کا نور
آمد ہَے جن کی خیر کے اعمال کی پھبن
آمد ہَے جن کی آدمِ خاکی کا احترام
آمد ہَے جن کی ساری دعاؤں کا انتساب
آمد ہَے جن کی حرفِ تجلی کا اجتہاد
آمد ہَے جن کی موجۂ افکار کا نکھار

قرآن انبیاء کے ہَے میلاد کی کتاب
ہر لفظ جس کتابِ مبیں کا ہَے لاجواب

482

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
میلاد جن کا حسنِ ازل کی بہار ہَے
اِس دن کے منتظر تھے فلک پر ملائکہ
اِس دن کے انتظار میں صدیاں گذر گئیں
نعمت خدا کی، سب سے بڑی، اس کے ہیں حبیبؐ
آؤ خدا کا شکر کریں مل کے آج سب
میلادِ مصطفیٰؐؐ پہ کریں ہر سخن نثار
یہ دن عظیم دن ہَے مری کائنات کا
یہ دن دیارِ عشق و مؤدت کی آرزو
اِس دن کو اپنے حجلۂ چشمِ طلب میں رکھ

خوشبو بڑے ادب سے سلامی کو آئی ہَے
دامن میں پھول اُنؐ کی غلامی کے لائی ہَے

483

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مشعل ملی ہَے جن کو ہدایت کے نور کی
منصب ملا ہَے جن کو، کرم بانٹتے رہیں
نقشِ قدم حضورؐ کے ارض و سما کا تاج
نقشِ قدم حضورؐ کے معراجِ زندگی
نقشِ قدم حضورؐ کے دھرتی کی آبرو
نقشِ قدم حضورؐ کے ہیں آگہی کے چاند
نقشِ قدم حضورؐ کے در ہیں نجات کا
اُنؐ کے وجودِ پاک کے صدقے میں آج بھی
اللہ سے آؤ مانگ لیں اُس کی رضا کے پھول

پھولو، مناؤ جشن کہ سرکارؐ آئے ہیں
لے کر حضورؐ ابرِ گہر بار آئے ہیں

484

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کو عطا ہوئی ہیں خزانوں کی کنجیاں
کافی ہَے صرف ذاتِ الہٰی مرے لیے
اُس پر کیا ہَے مَیں نے توکّل تمام عمر
اپنی الوہیت میں خدا لا شریک ہَے
اپنی ربوبیت میں خدا لاشریک ہَے
اپنی ربوبیت میں بھی تنہا ہَے اُس کی ذات
ذاتی ہَے عِلم صرف خدائے عظیم کا
آقاؐ کا جو ہَے عِلم، عطائے خدا ہَے وہ
جو اختیار ہَے شہِ کونینؐ کا، ریاضؔ
وہ اختیار سب ہَے خدا کا دیا ہوا

خوشیوں سے ہمکنار مجھے بھی خدا کرے
مالک ہے، جتنا چاہے کسی کو عطا کرے

485

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
قرآن کا نزول ہوا جن کی ذات پر
قرآن جو خدا کا صحیفہ ہَے آخری
قرآن عظمتوں کی کتابِ مبین ہَے
قرآں کھلی کتاب ہَے منجانبِ خدا
برہان و علم و حکمت و دانش ہَے ہر ورق
قرآں میں کر کے اُنؐ کے محاسن کا تذکرہ
میرے خدا نے نعت لکھی ہَے حضورؐ کی
تعبیر روشنی کے سفر سے، اسے کرو
اس دن ہوا تھا صاحبِ قرآن کا نزول

یہ دن مِرے نبیؐ کی ولادت کی عید ہَے
لوحِ یقیں پہ حرفِ صداقت کی عید ہَے

486

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
آدم کی نَسل کا جو مقدّر جگائیں گے
روئے زمیں پہ عدل کی پھیلے گی روشنی
برجِ دعا میں ہوں گی تمنائیں صد ہزار
چہرہ شبِ زوال کا آنکھیں چرائے گا
صبحِ ازل کی بادِ بہاری چلے گی آج
پیغام تہنیت کے فلک سے چھلک پڑے
حوروں نے گیت گائے ہیں خوش آمدید کے
اے روزِ عید! اُنؐ کے غلاموں کا لے سلام
گھر گھر جلی ہیں جشنِ مسرت کی مشعلیں

تاریخِ کائنات کا یہ دن عظیم ہے
ہر ذی نفس پہ فضلِ خدائے رحیم ہَے

487

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
حسن و جمال کا ہیں جو معیار آخری
اِبہام جن کے سایۂ رحمت سے دور ہے
الجھا ہوا نہیں ہَے پیمبرؐ کا راستہ
اِبلاغ کا حسین مرقّع حضورؐ ہیں
روشن کھلی کتاب ہیں سردارِ انبیائؐ
اُنؐ کا نسب ہَے افضل و اعلیٰ و بے مثال
اوجِ فلک مقام ہَے اُنؐ کے عروج کا
اللہ نے دی ہَے نعمتِ عظمیٰ حضورؐ کو
میلاد کی ہَے شب، اِسے جھک کر کرو سلام

مہرِ حضورؐ، بزمِ رسالت میں آئے گا
ابرِ کرم جنابِ پیمبرؐ کا چھائے گا

488

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
معمور جن کا دل ہَے عبادت کے نور سے
رحمت کی اُنؐ کو خلعتِ اقدس عطا ہوئی
آنا مِرے حضورؐ کا ہَے واقعہ عظیم
رحلِ ادب پہ نام ہے اُنؐ کا رکھا ہوا
گھر میں رہیں گے ذکرِ گرامی کے رتجگے
آنکھیں وفورِ شوق سے شب بھر کھلی رہیں
آتے ہیں کائنات کے دولہا زمین پر
اپنی زمیں کے بختِ رسا پر نثار ہوں
ہر دل چراغ بن کے جلے گا تمام رات

یہ روزِ عید: گرمیٔ بازارِ زندگی
یہ روزِ عید: سرخیٔ رخسارِ زندگی

489

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
روئے جمیل جن کا ہَے قرآن کا ورق
شاخِ گلاب پر کھلیں صلِّ علیٰ کے پھول
مدحت کی وادیوں میں مرا طائرِ خیال
اڑتا رہے چراغِ عقیدت لئے ہوئے
خود ساختہ خداؤں کی محفل میں شور ہَے
ماضی کی روشنی بھی مسلماں سے چھین لو
حرفِ غلط سمجھ کے مٹا دے اسے ہوا
یارب، ہمیں حضورؐ کے قدموں کی خاک دے
ہم چھین لیں گے عظمتِ رفتہ کی کہکشاں

بچّے دیے منڈیر پہ شب بھر جلائیں گے
نعتِ حضورؐ سارے چمن کو سنائیں گے

490

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
چہرہ ہَے جن کا آئنہ حرفِ شعور کا
منظر میں صرف نورِ پیمبرؐ ہَے جلوہ گر
لوحِ ادب پہ نعتِ مسلسل رقم ہوئی
میلاد کا ہَے ذکر خدا کی کتاب میں
بادِ صبا کے ہاتھ میں ہیں تہنیت کے پھول
ٹھہرے زمیں پہ چاند ستاروں کے قافلے
سورج اٹھا رہا ہَے قدم احترام سے
خوشبو سے بھر گیا ہَے چمن زارِ زندگی
گھر گھر چراغ بانٹتی پھرتی رہے ہوا

میلاد مصطفیٰؐؐ کا منا دھوم دھام سے
ہو ہمکلام آج خدا کے کلام سے

491

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اُم الکتاب جن کے محاسن کی ہَے کتاب
اُم الکتاب میں ہَے محامد کی کہکشاں
قرآن خود مثال ہَے حُبِ رسولؐ کی
قرآن اُنؐ کی سیرتِ اطہر کا آئنہ
لوحِ عمل میں درج ہیں اُنؐ کے نقوشِ پا
صبحِ ازل سے چاند ستاروں کے لب پہ ہے
اسمِ جنابِ سیّدِ لولاک، مشکبار
اُنؐ کی ہَے ذات حیطۂ حرفِ درود میں
اُنؐ کی ثنا کے دیپ جلاتا ہَے خود خدا

کشتِ ادب میں پھول اگایا کرو، ریاضؔ
شب بھر چراغِ نعت جلایا کرو، ریاضؔ

492

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
نسبت ہَے جس رسولؐ کی سرمایۂ حیات
وابستگی کا نور ہَے نسلوں کا افتخار
آدم کی نسل، اُنؐ کی ہَے مقروض ہر گھڑی
پروردگارِ ارض و سما کے ہیں وہ حبیبؐ
سجدوں کا نور اُنؐ کی مقدّس جبیں میں ہے
پیغام لے کے آئے ہیں حسنِ سلوک کا
انسانیت کے محسنِ اعظم حضورؐ ہیں
احسان اس قدر کہ قلم سے بیاں نہ ہو
میری زباں ہَے عشق کی پوشاکِ نور میں

مدحت کی وادیوں میں صبا جھومتی رہے
میرے قلم کے ہونٹ سدا چومتی رہے

493

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
پیرایۂ شعور میں آتا ہَے جن کا نام
جو قلبِ مضطرب کو دے آسودگی کا نور
جو روحِ انقلاب ہَے روئے زمین پر
جو گرمیٔ سخن کا ہَے باعث سرِورق
دھڑکن ہر ایک ورد کرے اُنؐ کے نام کا
بھیجو درود خوب پیمبرؐ کی ذات پر
لکھّو سلام، ذوقِ فراواں کے ساتھ ساتھ
ہونٹوں پہ سبز رُت نے ہیں خیمے لگا لیے
لکھتا رہوں گا نعتِ پیمبرؐ لحد میں بھی

روشن رہے چراغ ہتھیلی پہ، یاخدا
یہ رتجگا محیط قلم پر رہے سدا

494

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کا کرم محیط رہے گا افق افق
جن کے درِ عطا پہ بٹے گا سحر کا نور
بیتِ سخا سے پھوٹیں گے چشمے خلوص کے
ننگے سروں پہ دیں گے کرم کی ردا حضورؐ
لیکن، حضورؐ، آج ہَے امت برہنہ سر
در در کی ٹھوکریں ہیں مقدّر میں، یانبیؐ
جائیں کہاں کہ راستے مسدود ہیں تمام
بجھنے لگا ہَے امتِ بے نور کا چراغ
آقا حضورؐ، عظمتِ رفتہ ہو پھر نصیب

بچّے نمازِ عشق و محبت ادا کریں
آقاؐ، انہیں بھی اپنی غلامی عطا کریں

495

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
مَحشر کے روز جن کے کرم کے کھلیں گے پھول
ہوگا سروں پہ آپؐ کی رحمت کا سائباں
آبِ خنک کے سبز کٹورے بٹیں گے تب
اور تشنگی بجھے گی شبِ انتظار کی
یہ عید اُس رسولؐ کی آمد کی عید ہَے
میری زمیں پہ چاند ستاروں کا ہَے ہجوم
صلِّ علیٰ کا نور ملا ہَے چہار سَمت
توحیدِ کردگار کا پرچم ہوا بلند
رزقِ زمیں بنے ہیں ’’خداؤں‘‘ کے سلسلے

بادِ صبا زمین پہ کلیاں بچھائے گی
سجدے گزارتے ہوئے بستی میں آئے گی

496

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
انسان کو جو دیں گے تفکر کی وسعتیں
پہچان دیں گے اپنی خودی کی وہ فرد کو
تسخیرِ کائنات کا دیں گے اُسے نصاب
عظمت کے دائروں کا بنائیں گے سلسلہ
وہ عدل کا نفاذ یقینی بنائیں گے
سہمے ہوئے بشر کو گلے سے لگائیں گے
انسان کو نجات کا رستہ دکھائیں گے
آسودگی کے پھول چمن میں کھلائیں گے
آؤ، ادب سے جشن منائیں حضورؐ کا

آئے ہیں امنِ دائمی کا لے کے وہ پیام
ہر ذرّہ کائنات کا اُنؐ کو کرے سلام

497

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
اندر کے موسموں کو جو دیں گے نئے گلاب
افکار جن کے عزمِ مسلسل کا شاہکار
اعمال جن کے خیر کی راہوں کی چاند رات
خوشبو چراغ لے کے انہیں ڈھونڈتی رہے
میلادِ مصطفیٰؐؐ کا یہ دن ہَے بڑا عظیم
تاریخِ کائنات کی روشن تریں سحر
کب سے محیط ہَے مری موجِ خیال پر
بچّوں کے ساتھ مل کے سرِ شام روزِ عید
بادِ خنک چراغ جلائے روش روش

یہ روزِ عید، خلد بریں کی بہار ہَے
یہ روزِ عید، نوعِ بشر کا وقار ہَے

498

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
دستار جن کے ہَے سرِ اقدس پہ علم کی
دامن ہَے جن کا مرکزِ انوارِ التفات
وہ ضابطہ کریں گے مدوّن حیات کا
آؤ سلام عیدِ پیمبرؐ کو ہم کریں
اُن ساعتوں کو دامنِ دل میں بھریں ضرور
یہ ساعتیں متاعِ قلم کی ہیں آب و اب
بزمِ ثنا میں پھول کھلانے کا دن ہَے یہ
نعمت پہ جشنِ عید منانے کا دن ہَے یہ
سردارِ کائناتؐ کے آنے کا دن ہَے یہ

اِس عید پر نثار کریں گے سخن تمام
رکھیں گے اِس کے ہاتھ پہ مدحت بھرے سلام

499

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
فرمان جن کا رض و سماوات کا نصاب
میرے حضورؐ ہی مرے لجپال ہیں، ریاضؔ
راہِ نجات مجھ کو دکھائی حضورؐ نے
رخصت جہاں سے ہوں تو خداوندِ دو جہاں
کچھ مغفرت کا زادِ سفر بھی ہو میرے ساتھ
مدحت کی روشنی مرے ہونٹوں پہ ہو رقم
یہ روشنی چراغ ہَے لوحِ مزار کا
یہ مغفرت کے پھول لحد میں سجائے گی
ممنون میری نَسل کا ہر فرد ہے، حضورؐ

آقاؐ، ’’طلوعِ فجر‘‘ کا لایا ہوں ارمغاں
اس میں سجی ہَے آپؐ کی سیرت کی کہکشاں

500

افلاک پر ہَے دھوم کہ آتے ہیں وہ رسولؐ
جن کے حریمِ فکر کی ہَے روشنی تمام
اِس روشنی سے فیض ملا ہَے قلم کو بھی
میرا ہر ایک لفظ اسی روشنی میں تھا
میرا ہر ایک لفظ اسی روشنی میں ہے
میری لغت کو سبز عمامہ عطا ہوا
توفیقِ کردگار کی مشعل جلی رہی
اک سیلِ ذوق و شوق مرے ساتھ ساتھ تھا
اک کیفِ سرمدی میں زبان و بیاں رہے
میرے برہنہ سر پہ رہی چادرِ کرم

آقاؐ، مرے قلم کی سلامی کریں قبول
لوحِ ادب پہ حرفِ غلامی کریں قبول

ختم شد