آرزو کے گھروندے بناتے ہوئے شہرِ طیبہ کی گلیوں میں جائیں گے ہم- خلد سخن (2009)

آرزو کے گھروندے بناتے ہوئے شہرِ طیبہ کی گلیوں میں جائیں گے ہم
اور کسی کونے کھدرے میں اے ہمسفر، ایک چھوٹا سا گھر خود بنائیں گے ہم

ابرِ رحمت میں لپٹا ہوا ہے قلم، آبِ کوثر میں ڈوبی ہوئی ہے زباں
شہرِ حرف و بیاں کے مضافات میں پیڑ صلِّ علیٰ کے لگائیں گے ہم

شہرِ آقاؐ کی رعنائیوں میں ہیں گم، ہم کہاں ہیں ہمیں کچھ خبر ہی نہیں
اذن پا کر درِ مصطفیٰؐ کی فضاؤں میں نعتِ پیمبرؐ سنائیں گے ہم

بے نوا، بے ردا، سر برہنہ سہی، دامنِ چاک ہے ہر عمل سے تہی
روزِ محشر شفاعت کے پرچم تلے اپنے سرکارؐ کے گیت گائیں گے ہم

شامِ میلاد ہے، ہر کوئی شاد ہے، وجد میں چاندنی، رَقص میں نکہتیں
اپنے گھر کے در و بام پر شوق سے حرم کی بتیاں اب جلائیں گے ہم

خوشبوئے اسمِ سرکارؐ کو چوم کر، اشکِ پیہم کے گجرے بنائیں گے ہم
عشق کی آگ ایسی لگائیں گے ہم، جوت ایسی دلوں میں جگائیں گے ہم

شہرِ مکہ کی کھائی خدا نے قسم، اس نے چوما تھا قدمینِ سرکارؐ کو
اُنؐ کے نقشِ کفِ پا کی خیرات کو اپنی چشمانِ تر میں سجائیں گے ہم

اپنے بچوں کو دیں گے وراثت میں ہم، حُبِّ سرکارؐ کی دولت بے بہا
آخری سانس تک، ہم نفس، ہم نشیں، اتنا بارِ امانت اُٹھائیں گے ہم

یہ کرم سارا سرکارؐ کا ہے کرم، یہ عطا ساری سرکارؐ کی ہے عطا
اپنے دل کی مرادوں سے اے نامہ بر، جھولیاں بھر کے طیبہ سے آئیں گے ہم

جب کہ مقصودِ ارض و سما آپؐ ہیں، جب کہ تخلیقِ نورِ خدا آپؐ ہیں
ہاتھ اٹھیں گے جب بھی دعا کے لیے، آپؐ ہی کو وسیلہ بنائیں گے ہم

اس جہاں سے جو رخصت ہوئے ہیں تو کیا، آپؐ زندہ ثنائے پیمبرؐ میں ہیں
آج، ’’رزقِ ثنا‘‘ سے، ریاضؔ آپ کو ڈھونڈ کر اپنی محفل میں لائیں گے ہم