المدد یا خدا، الکرم یا نبی- خلد سخن (2009)

(1)

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

کوئی منزل دکھائی نہیں دے رہی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

ساحلوں سے لگیں کشتیاں کاغذی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

(شاعر خود کلامی کے پہلے مرحلے سے گزرتا ہے)

٭…٭…٭

مہرباں ان دنوں آسماں بھی نہیں
سر برہنہ ہیں ہم سائباں بھی نہیں

کب سے سوچوں کی کھیتی ہے اُجڑی ہوئی
کب سے احساسِ سود و زیاں بھی نہیں

حبس میں سانس لینا بھی مشکل ہوا
سر پہ سایہ فگن آندھیاں بھی نہیں

اپنی تاریخ کے ہم ہی قاتل ہوئے
داستانوں میں اب داستاں بھی نہیں

اِک جمودِ مسلسل کا موسم ملا
آشیانوں میں تو بجلیاں بھی نہیں

خونِ مسلم کی ارزانیاں اس قدر
خوں میں تر حرف و نطق و بیاں بھی نہیں

وہ امامت کہاں، وہ عدالت کہاں
اپنے ماضی کا نام و نشاں بھی نہیں

مقتلِ شب میں ہے اُمتِ بے نوا
آج پہلی سی طرزِ فغاں بھی نہیں

کتنی صدیوں سے گروی پڑی ہے زمیں
سر چھپائیں کہاں آشیاں بھی نہیں

ذہن میں در بھی رکھتا نہیں اب کوئی
قصرِ جذبات میں کھڑکیاں بھی نہیں

فیصلے شر کے ہاتھوں سے ہونے لگے
خیر کی قوتیں درمیاں بھی نہیں

پانیوں میں گرے ہیں، ریاضؔ، آج بھی
کشتیوں کا کوئی بادباں بھی نہیں

٭…٭…٭

المدد یا خدا، الکرم یا نبیؐ
المدد یا خدا، الکرم یا نبیؐ

کوئی چارہ گری، کوئی چارہ گری
المدد یا خدا، الکرم یا نبیؐ

شاخِ دل پر کھلے آرزو کی کلی
المدد یا خدا، الکرم یا نبیؐ

المدد یا خدا، الکرم یا نبیؐ
المدد یا خدا، الکرم یا نبیؐ

(2)

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

ہر قدم پر ہے دیوار بھی آہنی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

کسمپرسی کے عالم میں ہے زندگی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

(شاعر خود کلامی کے دوسرے مرحلے سے گزرتا ہے)

٭…٭…٭

ڈال دو خاک اس کی ہر اِک شاخ پر
آگہی جرم ہے آدمی کا اگر

بے گناہی کو ثابت کریں کس طرح
ہم نچوڑیں کہاں اپنا دامانِ تر

آئنوں میں کوئی عکس بنتا نہیں
ہیں غبارِ تحیّر میں خود بام و در

دائرہ ہر عمل کا مٹایا گیا
کون رکھے گا جاری تلاشِ ہنر

آگ ہی آگ ہے، خون ہی خون ہے
ہمسفر، زخم خوردہ ہیں جائیں کدھر

یہ کسی نے ہواؤں سے پوچھا بھی ہے؟
کون روتا رہا ہے یہاں رات بھر

اب کسی بھی دریچے سے گرتا نہیں
دامنِ آرزو میں زرِ معتبر

کٹ ہی جائے گا دشتِ مفادات میں
زندگی کا سفر، مختصر مختصر

پانیوں سے کسی کی نہیں دوستی
بوجھ اتنا نہ ڈالا کرو ناؤ پر

اپنی آنکھیں کبھی کھولتی ہی نہیں
نیند کا رزق ہے اُمتِ بے خبر

ان کو نیلام گھر میں سجا دیجئے
منحرف لوگ ہیں برگدِ بے ثمر

ہر مکیں سر بکف گر نہ ہو تو ریاضؔ
بارشِ سنگ میں ڈوب جائے گا گھر

٭…٭…٭

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

میرے کشکول میں دیں زرِ آگہی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

ابرِ رحمت کو اذنِ سفر آج بھی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

(3)

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

کب تلک ہم کریں اپنی نوحہ گری
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

روشنی روشنی روشنی روشنی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

(شاعر خود کلامی کے تیسرے مرحلے سے گزرتا ہے)

٭…٭…٭

ظلم کا قفل ہے لب پہ لٹکا ہوا
حرفِ نو بھی ورق پر ہے سہما ہوا

کہہ رہا ہے کہانی شبِ درد کی
لفظ پلکوں کے سائے میں ٹھہرا ہوا

کوئی جادو نہیں، کوئی منزل نہیں
ایک تارا فلک سے ہے ٹوٹا ہوا

آرزوئے ہوائے خنک کیا کریں
راستے کا ہے ہر پیڑ سوکھا ہوا

کیا ازل سے ہمارے مقدر میں ہے؟
آشیاں شاخِ نازک پہ جلتا ہوا

ہر طرف ہے چمن میں دُھواں ہی دُھواں
حشر سا حشر ہے آج برپا ہوا

نالہء بوئے گل کوئی سنتا نہیں
منظرِ صحنِ گلشن ہے اُجڑا ہوا

چہرۂ شب ہے خارش زدہ ہم نفس
جسم عصیاں کے پنجوں سے نوچا ہوا

گنبدِ ارض پہ آدمی کا بدن
خوف کی چادروں میں ہے لپٹا ہوا

یاں عَلَم آدمیت کے کیسے کھلیں
زر کے عفریت نے منہ ہے کھولا ہوا

ان ہواؤں کے رحم و کرم پر ہیں ہم
ہر بشر ہے ہواؤں میں بکھرا ہوا

ہم ریاضؔ اپنا ماتم کریں روز و شب
حمد بھی، نعت بھی ایک نوحہ ہوا

٭…٭…٭

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

ایک دنیا ہے دشمن ہماری ہوئی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

امتِ بے وسیلہ ہے تنہا کھڑی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

(4)

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

ہر طرف پر فشاں ریگِ تیرہ شبی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

خوشبوؤں کے علم بھی کھلیں گے کبھی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

(شاعر خود کلامی کے چوتھے مرحلے سے گزرتا ہے)

٭…٭…٭

خوف کی زد میں ہے آج شہرِ غزل
نام لیتی ہے کس کا ہوائے اجل

اب کہاں جائیں، کس سمت ہجرت کریں
دشتِ پُرہول سے ساکنانِ جبل

قافلے حشر تک اب بھٹکتے رہیں
گردِ تشکیک میں گم ہے راہِ عمل

اب تو دستِ تفکر میں بھی ہے نہیں
کب سے اُلجھے ہوئے ان مسائل کا حل

آج بھی روشنی سے یہ لکھا گیا
سیدھے رستے پہ، چل، سیدھے رستے پہ چل

حرفِ حق کے مماثل نہیں کوئی شے
حرفِ حق کا نہیں کوئی نعم البدل

اپنے باہر بھی ہیں قتل گاہیں بہت
اپنے اندر بھی برپا ہے جنگ و جدل

ہیں ہواؤں کے تیور بھی بگڑے ہوئے
ناخداؤں کی سوچوں میں بھی ہے خلل

راس آئے گی صحرا کی آب و ہوا
ذات کے خول سے بھی کسی دن نکل

کتنے جھوٹے خدا ہیں بنائے ہوئے
عہد کیا تھا کیا ہم نے روزِ ازل

کل یہ سورج سروں پر سے ڈھل جائے گا
ہمسفر، اتنی جلدی نہ رستہ بدل

جس میں صدیوں سے لتھڑا ہوا ہے ریاضؔ
برف وہ بے حسی کی بھی جائے پگھل

٭…٭…٭

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

ہے گھِرا کن مصائب میں پھر آدمی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

میرے آنگن میں اُترے گی کب چاندنی
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ

المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ
المدد یاخدا، الکرم یانبیؐ