لازم ہے جو ثنائے حبیبِ خدا کرے- کشکول آرزو (2002)

لازم ہے جو ثنائے حبیبِ خدا کرے
اقلیمِ جان و دل کو غبارِ حرا کریی ہے

خوشبو قلم کو تھام کے محوِ خرام ہو
جذباتِ دل نواز کا گلشن کھِلا کرے

جس کو بھی ہے تلاش خدائے رحیم کی
پہلے نمازِ عشقِ محمدؐ ادا کرے

کہنا صبا سے۔ لے کے اجازت حضورؐ سے
پھر شہرِ بے مثال کا دروازہ وا کرے

سر پر ہوں جس کے جرم و ندامت کی گٹھڑیاں
میری طرح حضورؐ سے چھپتا پھرا کرے

ہر شام بستیوں میں جلے جب کوئی چراغ
یادِ نبیؐ کا دل میں دیچہ کھُلا کرے

جی چاہتا ہے چوم کے چوکھٹ حضورؐ کی
جل تھل زمینِ شعر کو کالی گھٹا کرے

دعویٰ ہے جس کو عشقِ رسالت مآبؐ کا
قیدِ طمع سے پہلے وہ دل کو رہا کرے

ہر سَمت بھوک، بانجھ زمینیں، برہنہ پیڑ
آنکھوں میں عکسِ گنبدِ خضرا سجا کرے

اپنے غلام زادوں پہ بھی کیجئے نظر
یہ عہدِ بے جواز انہیں بے نوا کے

آقاؐ، نفاذِ جبرِ مسلسل کا شور ہے
کب تک کوئی فریب کے ہاتھوں لٹا کرے

مولاؐ ہے زر خدائی کے منصب پہ جلوہ گر
اب اک غریبِ شہر کرے بھی تو کیا کرے

بادِ خزاں کو حقِ تصرف نہ ہو حضورؐ
ہر رنگِ نو بہار کو بے ذائقہ کرے

دیکھا ہے جو ریاضؔ سرِ بزمِ مصطفیٰؐ
انور جمال کو بھی مقدر خدا کرے