کلکِ جذباتِ وفا کی خوشدلی اچھی لگی- متاع قلم (2001)

کلکِ جذباتِ وفا کی خوشدلی اچھی لگی
لوحِ جاں پر آنسوئوں کی شاعری اچھی لگی

کیا بتائیں دل کی کیفیت، خبر اپنی نہ تھی
خلدِ طیبہ کے سفر کی ہر گھڑی اچھی لگی

اُس گلی کا کیا ہی کہنا وہ تو ہے اُنؐ کی گلی
اُنؐ کی نسبت سے یہ اپنی بھی گلی اچھی لگی

دن وہی اچھا لگا جس دن ہوا ذکرِ رسولؐ
نعت کہنے میں جو گزری شب وہی اچھی لگی

نور میں ڈوبا ہوا تھا یوں تو ہر منظر، مگر
جالیوں میں جھلملاتی روشنی اچھی لگی

اُنؐ کے قدموں سے لپٹ کر رہ گیا میرا شعور
بام و در کو چومتی دیوانگی اچھی لگی

اپنے اپنے دکھ سمیٹے دامنِ اُمید میں
ایک دنیا اُنؐ کی چوکھٹ پر پڑی اچھی لگی

بارشِ جود و عطا میں جھولیاں بھرتے ہوئے
مانگنے والوں کو اپنی مفلسی اچھی لگی

اُنؐ کی چوکھٹ تک رسائی کا یہی باعث بنی
زندگی کے دشت کی درماندگی اچھی لگی

گنبدِ خضرا کے جلوئوں سے جدا ہونے کے بعد
کہکشاں اچھی لگی نَے چاندنی اچھی لگی

ذکر جب مضروبِ طائف کا سرِ مقتل چھڑا
اپنی آنکھوں کے سمندر کی نمی اچھی لگی

جو غلامانِ رسولِ ہاشمیؐ کے ہیں غلام
ہر بڑے منصب سے اُن کی نوکری اچھی لگی

روز و شب رہتا ہے مصروفِ ثنا جن کا قلم
اُن سلاطینِ سخن کی دوستی اچھی لگی

یہ فضا شاخِ دل و جاں پر کھلائے گی گلاب
مجلسِ نعتِ نبیؐ پھولوں بھری اچھی لگی

آرہے ہیں قافلے شہرِ خنک تیری طرف
خوش نصیبی خوش نصیبوں کی بڑی اچھی لگی

تُو نے گستاخِ نبیؐ کا سر کیا تن سے جدا
یہ تری فاروقِ اعظمؓ منصفی اچھی لگی

آنسوئوں نے داستانِ ہجر کہہ ڈالی ریاضؔ
طرزِ احساسات کی یہ سادگی اچھی لگی