جی چاہتا ہے مدحتِ شاہِ اممؐ کروں- متاع قلم (2001)

جی چاہتا ہے مدحتِ شاہِ امم کروں
احوالِ زندگی کو سپردِ قلم کروں

صدیوں کی تشنگی ہے مقدّر میں اس لیے
ہونٹوں کو اُنؐ کے اسمِ مبارک سے نم کروں

کھو جائوں پھر تصورِ شہرِ رسولؐ میں
محرومیوں کے کرب کی شدت کو کم کروں

ٹوٹے گی پھر فصیل حصارِ فراق کی
پھر چشمِ انتظار کو نقشِ قدم کروں

طشتِ ہنر میں عکسِ مدینہ بکھیر کر
لوح و قلم کو وقفِ جمالِ حرم کروں

اے دل سنبھل کہ گنبدِ خضرا ہے سامنے
ہر موجِ اضطراب کو آنکھوں میں ضم کروں

بین السطور بھی ہو محمدؐ کا تذکرہ
پلکوں سے حاشیے پہ ستارے رقم کروں

سانسوں کو دے کے خوشبوئے خاکِ در حبیبؐ
عمرِ گریز پا کو حریفِ عدم کروں

نعتِ نبیؐ ہی میرا حوالہ بنے ریاضؔ
کچھ اور بھی بلند ثنا کا علم کروں