گدازِ مدحتِ خیر البشرؐ کا کیا کہنا- متاع قلم (2001)

گدازِ مدحتِ خیرُالبشرؐ کا کیا کہنا
بدن کے اجڑے ہوئے اس کھنڈر کا کیا کہنا

شبیہہِ گنبد خضرا کا عکس لکھتی ہے
ورق پہ پھول سجاتی نظر کا کیا کہنا

گلاب رُت ہے گلستانِ دیدہ و دل میں
درود پڑھتے ہوئے ہر شجر کا کیا کہنا

عجیب کیف کا عالم ہے روز و شب پہ محیط
حصارِ ہجر میں شام و سحر کا کیا کہنا

تھکن اترنے لگی ہے ابھی سے روحوں کی
مدینے جاتی ہوئی رہگذر کا کیا کہنا

غبارِ شہرِ مدینہ کی سر پہ چادر ہے
جھکی ہوئی مری چشمانِ تر کا کیا کہنا

پہنچ ہی جائیں گے لے کر مجھے بھی قدموں میں
بدن سے جھڑتے ہوئے بال و پر کا کیا کہنا

سجی ہوئی ہے جبینوں پہ کہکشاں کی طرح
رہِ حضورؐ میں گردِ سفر کا کیا کہنا

ہزار سال پہ پھیلا ہوا وہ منظر تھا
درِ نبیؐ پہ شبِ مختصر کا کیا کہنا

تمام کھڑکیاں کھلتی ہیں جالیوں کی طرف
جوارِ روضۂ اطہر میں گھر کا کیا کہنا

مَیں قیدِ گردشِ لیل و نہار میں کب تھا
تصورات میں طیبہ نگر کا کیا کہنا

متاعِ عشق بڑی چیز ہے جہاں والو!
سفر، حضر میں زرِ معتبر کا کیا کہنا

ریاضؔ مانگ لیا جو بھی مانگنا تھا مجھے
حضورؐ سیّدِ عالم کے در کا کیا کہنا