آقاؐ کرم!- متاع قلم (2001)

کیا لکھوں، کیونکر لکھوں، اب مرثیہ کس کا لکھوں؟
چشمِ تر سے لوحِ جاں پر سوچتا ہوں کیا لکھوں؟
داستانِ عشق و مستی کو فقط سایہ لکھوں؟
عظمتِ اسلاف کو تاریخ کا سپنا لکھوں؟
آتش و آہن کی بارش ہے سرِ لوح و قلم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم

کیا مقدّر میں لکھے ہیں یہ شبِ غم کے بحور
خون کا دریا کریں گے یانبیؐ کب تک عبور
قریۂ جمہور میں مہکے کبھی حرفِ شعور
مسندِ شاہی ہی کیا میراث ہے اپنی حضورؐ
خود فریبی کا ملے اب خاک میں جاہ و حشم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم

ہر طرف بغداد کے مقتل میں لاشوں کا ہجوم
راکھ میں تنویر سے عاری ہوئے ماہ و نجوم
ہے متاعِ عشق اہلِ غرب کے زیرِ قدوم
دے رہے ہیں جہل کا درس آج خود روشن علوم
آج کل بھی غرقِ خوں ہیں کیا عرب اور کیا عجم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم

جو امینِ شب ہو مَیں ایسی سحر کو کیا کروں؟
منظرِ غم جو دکھائے اُس نظر کو کیا کروں؟
قافلے ہی لٹ گئے ہیں رہگذر کو کیا کروں؟
لٹ گئی منزل تو پھر گردِ سفر کو کیا کروں؟
کفر کی بنیاد پر اٹھے گی دیوارِ حرم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم

جل رہے ہیں کیونکہ یہ سب پیرہن تھے کاغذی
شوکتِ اسلاف شاید نقشِ پا تھی مٹ گئی
کھو گئی ہے کس خرابے میں یقیں کی روشنی
چھین لی اغیار نے میراثِ حرفِ درد بھی
اب سمٹ کر آ گیا ہے سوچتی آنکھوں میں دم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم

بربریّت ناچ اٹھی تیرگی جانے لگی
شیطنت انسانیت پر آگ برسانے لگی
مقتلوں میں پھر سروں کی فصل لہرانے لگی
روحِ چنگیز و ہلاکو رقص میں آنے لگی
امّتِ مرحوم کا اب آپؐ ہی رکھیں بھرم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم

شہرِ جاں میں حلقۂ زنجیر ٹوٹے یانبیؐ
صحنِ جاں میں ظلم کی شمشیر ٹوٹے یانبیؐ
ظلمتوں کے خواب کی تعبیر ٹوٹے یانبیؐ
انتہائے جبر کی تصویر ٹوٹے یانبیؐ
سربرہنہ ہیں ملیں اب آپؐ کے نقشِ قدم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم

پرفشاں ہیں آج صحراؤں میں بوئے انقلاب
موجِ خوں میں بھی رواں ہے ایک جوئے انقلاب
خطۂ حرفِ دعا میں گفتگوئے انقلاب
کون رکھے گا چمن میں آبروئے انقلاب
گمرہوں کو دیجئے پھر خودشناسی کے علم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم

ایک سیلابِ بلا ہے آتشِ نمرود کا
رقص جاری ہے سرِ محراب خاکِ دود کا
پھول سے چہروں پہ غازہ آہن و بارود کا
واسطہ دیتی ہے خلقت مالک و معبود کا
عصرِ نو میں داستانِ کربلا کی ہے رقم

آقاؐ کرم
آقاؐ کرم