آرزو ہے مری روز و شب اے خدا، ذکرِ اطہر کی محفل سجاتا رہوں- متاع قلم (2001)

آرزُو ہے مری روز و شب اے خدا، ذکرِ اطہر کی محفل سجاتا رہا ہوں
ڈال کر سر پہ پرنا غلامی کا میں اپنے آقاؐ کی جُگنی سناتا رہوں

دل کی ہر ایک دھڑکن کہے جھوم کر سیّدی مرشدی یانبیؐ یانبیؐ
خوشبوؤں کو شریکِ ثنا کر کے میں اپنے اشکوں کے گجرے بناتا رہوں

اس تمنا میں عمرِ رواں ہو بسر، ایک دن آپؐ آئیں گے میرے بھی گھر
شام ہوتے ہی آنکھوں کی دہلیز پر میں چراغِ محبت جلاتا رہوں

ابر رحمت کی رم جھم، دھنک، چاندنی، ہر طرف پر فشاں ہر طرف ضوفگن
شہرِ جاں کی زمیں میں مَیں شام و سحر فصل صلِّ علیٰ کی اگاتا رہوں

میری ہر سانس مہکے اسی نام سے آنکھ تک بھی نہ جھپکوں کسی کام سے
لوریاں دے کے جذبات کو رات بھر حرفِ مدحت کا جھولا جھلاتا رہوں

اے حبیبِ خدا، اے امیرِ بشر، میرے ماں باپ قربان ہوں آپؐ پر
میرا سب کچھ فقط آپؐ کی ذات ہے اس تفاخر پہ خوشیاں مناتا رہوں

اب تو موری خبریا بھی لے لیجئے مورے زخموں پہ مرہم لگا دیجئے
کب تلک یا حبیبِ خدا کب تلک زخم اپنے بدن کے چھپاتا رہوں

یامحمدؐ کرم یامحمدؐ کرم یامحمدؐ کرم یامحمدؐ کرم
عالمِ شوق میں عالمِ وجد میں ہر گھڑی زیرِ لب گنگناتا رہوں

وقتِ رخصت ہوائے مدینہ چلے اک چراغِ عقیدت لحد میں جلے
آپؐ تشریف لائیں تو میں حشر تک ناز بختِ رسا کے اٹھاتا رہوں

تشنگی جب بنے میری حرفِ دُعا، آپؐ کا نام ہونٹوں پہ جائے چھلک
زندگی کے سفر کی کڑی دھوپ میں ابرِ رحمت کے چھینٹے اڑاتا رہوں

ایک بھی ایسی ساعت میسر نہ ہو، جو جمالِ نبیؐ سے منور نہ ہو
عمر بھر آسمانِ سخن پر نئی کہکشاؤں کے منظر دکھاتا رہوں

جیب و داماں میں دینار و زر بھی نہیں، میں تہی دست ہوں بال و پر بھی نہیں
باوجود اس کے دل میں تمنا سی ہے، ہر برس آپؐ کے در پہ آتا رہوں

اک خطا کار ہوں، اک سیہ کار ہوں، میں ریاضِؔ ادب کا گنہ گار ہوں
پھر بھی اُنؐ کے کرم کا طلب گار ہوں، دامنِ آرزو ہی بچھاتا رہوں

حشر کا دن ہو، میزان ہو سامنے اور سرکارؐ آئیں مجھے تھامنے
حکم ہو ہاں ریاضؔ آج بھی نعت ہو گِر کے قدموں میں مَیں گڑگڑاتا رہوں