ہر ایک لفظ ازل سے مجاہدے میں رہا- متاع قلم (2001)

ہر ایک لفظ ازل سے مجاہدے میں رہا
ثنائے مرسلِ آخرؐ کے رتجگے میں رہا

قلم، حضورؐ کے در سے حضورؐ کے در تک
تمام عمر اسی ایک دائرے میں رہا

مری زباں کا مقدّر کہ نعت کہتی ہے
مرے سخن کا نصیبہ کہ آئنے میں رہا

اسی لئے تو اُجالا ہے ہر دریچے میں
چراغِ نقشِ قدم جاں کے طاقچے میں رہا

طوافِ گنبدِ خضرا کے شوقِ پیہم میں
جمالِ شعر ہواؤں کے قافلے میں رہا

انہیؐ کے ذکر سے مہکی رہیں مری سانسیں
انہیؐ کا ذکر ہتھیلی کے زائچے میں رہا

لحد میں پوچھا نکیرین نے کہ کون ہو تم
حضورؐ! آپؐ کا بس نام حافظے میں رہا

نفاذِ حرفِ ندامت کے زرد موسم میں
شعورِ نعتِ پیمبرؐ مناظرے میں رہا

ورق بھی بھیگ رہا ہے لہو کی بارش میں
کسی کا درد کسی کے مراسلے میں رہا

ق

ہوائے شہرِ مدینہ سے ہمکلامی کا
شرف ریاضؔ مقدّر کے حاشیے میں رہا

کہ اس برس بھی شریکِ ثنا رہیں آنکھیں
ورق ورق مرے دل کا مراقبے میں رہا

قضا بھی چھین نہ پائی ثنا کے منصب کو
میں بعدِ مرگ بھی مدحت کے راستے میں رہا
اسی لئے تو اکائی مری سلامت ہے
مرا وجود کرم کے محاصرے میں رہا

فقط حضورؐ کے نعلین کے تصدق میں
ضمیرِ آدمِ خاکی محاسبے میں رہا

بیاضِ نعت مرے ساتھ ہے سرِ محشر
امیرِ شہر! بتا کون فائدے میں رہا

ریاضؔ ایک مدینہ ہے دل میں بھی لیکن
فقیہہِ شہر ابد تک مغالطے میں رہا

ریاضؔ کوئی پیمبرؐ کی نعت کا مقطع
میں روزِ حشر بھی لوگوں کے جمگٹھے میں رہا