حمدو نعت- متاع قلم (2001)

مری شاخِ دُعائے نیم شب کو باثمر کرنا
تُو اس بستی کے ہر چہرے کو تصویرِ سحر کرنا

بدن کے برف زاروں میں حرارت بھیجنے والے
زمیں پر ساعتِ نامہرباں کو مختصر کرنا

چراغِ آگہی ہر ذہن میں روشن کئے تو نے
خلافِ عقل ہر سازش کو یارب بے اثر کرنا

ہو بنیادِ فضیلت علم، تقویٰ اور دانائی
وقارِ آدمِ خاکی کو مشروطِ ہُنر کرنا

جبلت میں مری تو نے ہی یہ جوہر بھی رکھا ہے
اِس آوازوں کے جنگل میں تمیزِ خیر و شر کرنا

مجھے رکھنا کسی فاقہ زدہ انسان کے دل میں
صدف کی گود میں ناچیز قطرے کو گہر کرنا

ادھورے جسم لے کر جی رہے ہیں تیری دُنیا میں
تو اپنے فضلِ بے پایاں سے تکمیل بشر کرنا

طفیلِ سرورِ کون و مکاںؐ اے داورِ محشر!
بوقتِ عدل میری ہر خطا سے درگزر کرنا

مدینے کے افق پر سرمدی کرنوں کے اے بادل
کبھی اقبالؒ کی اس سر زمیں تک بھی سفر کرنا

اٹھے گا جھوم کر ابرِ کرم رحمت کے ساگر سے
صبا تو صرف جا کر میرے آقاؐ کو خبر کرنا

بہت ویران ہے میری تمناؤں کی پھلواری
کبھی آباد میری آرزوؤں کا کھنڈر کرنا

ہجومِ درد و غم ہے اور تنہا ذات ہے میری
مرے احوال پر بھی یارسول اﷲ نظر کرنا

تصور میں سنہری جالیاں ہیں آخرِ شب ہے
ریاضؔ اپنے قلم کو پھر سپردِ چشمِ تر کرنا