سورج کی پہلی کرن کا سفر- رزق ثنا (1999)

روزِ ازل سے لکھّا ہے بابِ شعور میں
نقشِ قدومِ سیدِ والا ہے معتبر
عکسِ رخِ جمیل ہے ہر حسن کا شباب
اِس کے طفیل چاند کے غاروں میں چاندنی
اِس کے طفیل نور حریمِ حیات میں
ابلاغِ برقِ طور اِسی سے ہے مستنیر

دستور ہے یہ گردشِ لیل و نہار کا
جب تک غلافِ کعبہ سے مانگے نہ روشنی
جب تک نہ سجدہ ریز ہو کعبے کے باب پر
جب تک جبیں نہ چومے حرم کی زمین کو
میزاب اور حطیم سے جب تک ملے نہ آنکھ
جب تک نہ ہمرکاب ہو بادِ شمال کے
جب تک کرے نہ رقص مدینے کی راہ میں
جب تک سجے نہ دھڑکنوں کے جلترنگ میں
جب تک رکھے نہ آنکھ کے موتی غبار میں
جب تک نہ ذوق و شوق کے یہ پیرہن میں ہو
جب تک نہ لب پہ پھول کھلائے درود کے
جب تک نہ اُنؐ کے در پہ جھکے بہرِ احترام
جب تک نہ اُنؐ کے در پہ سلامی کرے کرن
اُس وقت تک سحر کے عنادل رہیں خموش
اُس وقت تک ہوا بھی بنے پیکرِ سکوت
اُس وقت تک نہ بوئے گلستاں ہو پرفشاں

سورج نہ ہوگا خاک کی دیوار سے بلند
اُس وقت تک سحر کا دریچہ رہے گا بند