خود کو شبِ فرقت میں مشکل سے سنبھالا ہے- رزق ثنا (1999)

خود کو شبِ فرقت میں مشکل سے سنبھالا ہے
منظر یہ حضوری کا اب دیکھنے والا ہے

ہونٹوں پہ درودوں کا مہکا ہوا یہ موسم
ہاتھوں میں عقیدت کے جذبات کی مالا ہے

یہ شہرِ پیمبرؐ ہے لے سانس بھی آہستہ
رحمت کی گھٹائیں ہیں، انوار کا ہالہ ہے

آنکھیں مری جھک جھک کر جالی سے لپٹتی ہیں
کیا وجد کا عالم ہے کیا کیف نرالا ہے

پلکوں پہ چمکتے ہیں سورج مرے اشکوں کے
سرکارؐ کے قدموں کا ہر سمت اجالا ہے

اوقات مری کیا ہے، کیا نام و نسب میرا
اس در کا مَیں منگتا ہوں کیا کم یہ حوالہ ہے

آیا ہے غلاموں کے اس دیس سے یہ آقاؐ
جس دیس کے سینے میں زخموں کی جوالا ہے

مر کر بھی پڑے رہنا سرکارؐ کی چوکھٹ پر
کیا خوب غلامی کا مفہوم نکالا ہے

اے موجِ صبا کہنا سلطانِ مدینہ سے
طوفانوں نے پھر میری کشتی کو اچھالا ہے

مفلس ہے ریاضؔ، آقاؐ ہر ایک حوالے سے
آغوشِ مصائب میں دکھ درد نے پالا ہے