سوال جس کا جواب تُو ہے- رزق ثنا (1999)

حضور آقاؐ!
مَیںسوچتا ہوں
دیارِ طائف کی وادیوں میں
اگر مَیں ہوتا تو ڈھال بنتا
تمام پتھر مَیں اپنے سینے پہ روک لیتا
مَیں تیریؐ راہوں سے چُن کے کانٹے حریمِ جاں میں سنبھال رکھتا
مَیں بن کے بادل تجھے چھپا لیتا دشمنوں کی نظر سے آقاؐ
مَیں تیرےؐ قدموں میں جان دے کر سند غلامی کی مانگ لیتا
مرا تفاخر عظیم ہوتا
خلیج لمحوں کی پاٹ اپنا وسیع تر کررہی ہے ہر شب
مَیں عصرِ نو میں حدودِ طائف میں رہنے والے غلیظ لڑکوں کے
قہقہے سن رہا ہوں لیکن
مجھے سکھایا نہیں ہے تُو نے
کسی سے بغض و عناد رکھنا
مگر اجازت،
حضورؐ اک دن
حروفِ صدق و صفا کے ان قاتلوں سے یوں انتقام لوں گا
مَیں تیریؐ سنت کی روشنی میں کسی کو بھی بد دعا نہ دوں گا
مَیں تیرےؐ ٹخنوں سے بہنے والے لہو کی سچی قسم اٹھا کر
ترےؐ جمالِ سخن کی رم جھم سے شب کا چہرہ اجال دوں گا
کتابِ شر کے مَیں سر ورق کو شبیہِ حرفِ زوال دوں گا
مَیں آنے والی اداس نسلوں کو ایک ایسا سوال دوں گا
سوال جس کا جواب تو ہے
مجھے یقیں ہے

یہ آنے والی اداس نسلیں
غبارِ صحرا میں لَمس تیرےؐ نقوشِ پا کا تلاش لیں گی
کہ ان کی قسمت میں روشنی ہے