روشنی کا شاعر … شیخ عبدالعزیز دباغ- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

ریاض حسین چودھریؒ کے تخلیقی جمالیاتی شعور و ادراک کی نشوونما کا الوہی اھتمام امیر ملّت سید جماعت علی شاہ قدس سرہٗ کے ریاض کے والدین پر خصوصی التفات سے شروع ہوا جب آپ نے بوقت نکاح ان کو خصوصی دعاؤں سے نوازا اور نکاح اور دعاؤں کی اس تقریب میں سید نعیم الدین مرادآبادی بھی شریک تھے۔ کم سنی میں ہی اپنے دادا جان کے وسیلے سے علامہ محمد اقبال ؒ کے والد گرامی سے قربت و صحبت نصیب ہوئی اور کم سنی ہی میں اقبال علیہ الرحمتہ کی شعری تخلیقات ریاض کی سماعتوں کو حرف و صوت کی نغمگی سے گل رنگ کرنے لگیں۔ مرے کالج میں جناب آسی ضیائی رامپوری کے تلمذ میں شعری لغت، تخلیقی ساختیات اور الفاظ کی معنوی تہوں کی بُنت کا ہنر ان کی عملی لغت کا حصہ بنتا گیا۔ الفاظ ان کے پاس ہوا کی لہروں اور بہتی ندیا کی اچھلتی موجوں کی صورت آنے جانے لگے اور احساسات، تصورات اور جذبوں کے لسّانی انسلاکات سیل رواں کی شکل میں ان کے قلم سے ٹپکنے لگے اوربتدریج ان کا تخلیقی عمل شعریت کی وہبی صورت میں ڈھلتا گیا۔ ماحول کے معاشرتی، سماجی، معاشی اور اخلاقی حقائق ان کی فطری حساسیت کے باعث جذبات کے تخلیقی طوفان میں بدلنے لگے اور یوں ان پر فنی اور تخلیقی اظہار کے در وا ہونے لگے۔ اس پر طرہ یہ کہ ادب کے شعری ورثے نے انہیں مالا مال کر رکھا تھا۔ غزل کا جھرنا تو بہاؤ میں تھا ہی، نظم کی سحر آفرینی نے بھی قارئین کو وسیع پیمانے پر متأثر کیا۔ نظیر اکبر ابادی، حالی، اقبال، اسمعیل میرٹھی، شوق قدوائی، حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض، ایم ڈی تاثیر، علی سردار جعفری، جانثار اختر، ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی جیسے صف اول کے شعرا نے نظم نگاری میں جو تجربات کئے وہ آنے والوں کے لئے خیر کثیر ثابت ہوئے۔

ریاض ؒ نے غزل کے پیرائے میں بہت نعت لکھی اور پھر غزل کو نعت کے حضور کاسہ بکف دیکھا اور اسی موضوع پر ایک مجموعۂ نعت تخلیق کر دیا۔ مگر ریاض کے شعری خمیر میں نظم کا پیرایہ تخلیقی طینت کی شکل میں موجود تھا۔ ان کے تمام مجموعہ ہائے نعت غزل کے علاوہ نظم کی مختلف ہئیتوں کی قوس قزح سے مزین ہیں۔ یہ مجموعہ نعت ’’روشنی یا نبی‘‘ چونکہ ان کی نعتیہ نظموں کا مجموعہ ہے لہٰذا مجھے ضروری محسوس ہوا کہ ان کی نظم نگاری کے حوالے سے لکھوں مگر بطور روشنی کے شاعر کے۔ یہ دیکھنا ہے کہ ان کی نظم میں روشنی کی کنہ و حقیقت کیا ہے۔

ریاضؒ نے نظم نگاری تو زمانۂ طالب علمی ہی میں شروع کر دی تھی اور بچوں کے رسائل و جرائد میں تین چار سال تک مسلسل چھپتے رہے، حتیٰ کہ وہ ایل ایل بی کے لئے اورینٹل کالج لاہور آ گئے۔ اس کے بعد وکالت کی تربیت کے دوران سنجیدگی سے اپنی ادبی زندگی کی طرف متوجہ ہوئے۔ 1970ء میں یوم دفاع پاکستان کے موقع پر وہ اپنا پہلا مطبوعہ کلام ’’خون رگ جاں ‘‘ لائے۔ یہ کتابچہ riaznaat.com پر موجود ہے جسے ڈاؤن لوڈ یا پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر ملی نظموں کا یہ مختصر مجموعہ جذبۂ حب الوطنی کا ایک پرجوش روحانی الاپ تھا مگر اس میں جو نظمیں شامل ہیں ان میں ماحول پر چھائی ہوئی ظلمتوں کا ادراک ایک نئے طرز احساس کے پیرہن میں نمو پذیرہے۔ اس کی پہلی نظم’’ دیدۂ بیدار‘‘میں اقبال کے لب و لہجے کی جھلک نمایاں ہے، ماضی کے شان و شکوہ کا درد انگیز شعور تعمیر نو کے جذبے میں ڈھل کر ماحول میں قرآن و سنت اور دینِ مبین کے حوالے سے مایوس کن صورت حال پربیزاری اور اور شکوے کے اسلوب میں نمو پا رہا ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیں:

کچھ لوگ ہیں توہینِ رسالت پہ بھی مائل
یہ عشق و محبت نہ عقیدت کے ہیں قائل
اِن لوگوں سے اسلام کی پیشانی ہے گھائل
کیا ان پہ کھلیں جانِ رسالت کے فضائل
ان سینوں میں ایماں کی حرات ہی نہیں ہے
اللہ کے محبوبؐ کی الفت ہی نہیں ہے

پھر جذبات کا یہ بہاؤ نور محمد ﷺ کے حضور اظہار عقیدت کے حوالے سے اپنی کم مائیگی کے غلامانہ اعتراف میں اتر جاتا ہے:

ہے منبع افکار و خبر نورِ محمد ﷺ
ہے باعثِ تخلیقِ نظر نورِ محمد ﷺ

ہے سینہ قدرت کا شرر نورِ محمد ﷺ
ہے مطلع انوارِ سحر نورِ محمد ﷺ

میں اور بھلا حسنِ عقیدت کے بیاں میں
لفظوں کی رسائی ہے نہ طاقت ہے زباں میں

65 بنود پر مشتمل یہ ایک طویل نظم ہے جس میں آخر وہ امت مسلمہ کے وجود پر لگے ہوئے ظلم و جور اور غلامی و محتاجی کے خون اگلتے ہوئے زخم سینے اور امت کو ان مصائب سے نجات دلانے کے آہنی عزم کے پر جوش اظہار پر ختم ہوتی ہے۔ اس سے اگلی نظم ریاض کی ادبی کم سنی کے دور کی ایک ایسی بالغ نظر تخلیق ہے جس کے ایک ایک لفظ میں جذبۂ ملی کے الاؤ اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا امتزاج جمالیاتی اظہار کا ایک دھنک رنگ سویرا بن کر طلوع ہو رہا ہے۔ یہ نظم شکوہ اور جواب شکوہ کی طرز پر ’’استغاثہ اور جواب استغاثہ اپنے آقا و مولا ﷺ کی عدالتِ عظمیٰ میں‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ حب ا لوطنی کے جذبے سے سرشار اور عشق رسول ﷺ کے نور سے روشن شعری جمالیات سے مزین یہ 27 سالہ نوجوان شاعر اظہار کے کس طرز احساس میں لپٹا اس نظم میں اپنی روح کی نغمگی کے ترشحات سنوار رہا ہے۔ استغاثہ ان اشعار پر اختتام پذیر ہو رہا ہے:

نا امیدی اور تیرے چاہنے والوں میں ہو،
کیوں بنی ہے فکرِ مسلم مرکزِ حزن و ملال
آج ویرانی برستی ہے ترستی ہے زباں
تھا کبھی گلشن کا پتہ پتہ شبنم سے نہال
منتظر ہیں کوئی ڈھارس ہی بندھائے دہر میں
بے بسی سے دیکھتے ہیں چشمِ فطرت کا جلال
روشنی، اے منبع انوارؐ، کالی رات ہے!
روز و شب کی گردشوں میں چھپ گئی تیغِ ہلال
سینۂ افگار سے رستا ہے زخموں کا لہو!!
دیکھ تیری رحمتوں سے میں نے پوچھا ہے سوال

اب ’’جواب استغاثہ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ سے‘‘ کے ابتدائی اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کس کے آوارہ تخیل میں ہے سوزِ انفعال
کس نے اشکوں کی زباں میں ہم سے پوچھا ہے سوال
کون فریادی ہے کس نے دی ہے دستک بارہا
کون ارضِ پاک میں افسردہ ہے غم سے نڈھال
کس کے نالوں سے ہماری آنکھ پُرنم ہو گئی!
کس کے نالے ہیں حقیقت میں رگِ گل کی مثال
ہم اگرچہ خوش ہوئے اس جرأتِ اظہار پر
لیکن آدابِ جنوں پیشِ نظر! اے باکمال
اب بھی آتی ہے ہمیں ٹھنڈی ہوا اس دیس سے
لیکن اب صر صر کے جھونکوں سے ہے اس کا اشتمال

اور اس ’’جواب استغاثہ‘‘ کا اختتام ان اشعار پر ہو رہا ہے:

بات کر لینا بہت آسان ہے لیکن ذرا
قوتِ خیبر شکن کی ہے کوئی تم میں مثال
بازوئے خالدؓ کی عظمت کے تمہی وارث تو تھے
کاش اپنی قوتوں کو آج بھی کر لو بحال
ہاں فقط جوشِ عمل میں منزلوں کا ہے سراغ
بے بسی، کم ہمتی، دونوں دل و جاں کا وبال!
مغربی تہذیب کے اس کھوکھلے پن سے نکل
اپنی قدروں پر بھروسہ کر، یہی ہیں لازوال
ڈھونڈ لے صدیقِ اکبرؓ کے سراغِ نقشِ پا!
جذبہ فاروقِ اعظمؓ کو رگ و پے میں اچھال

یہ ہیں ریاض کی تخلیقی جمالیات کے ابتدائی خد و خال جب ابھی ان کے نفسِ مدرّک میں ’’نعت کی روشنی‘‘ کو گوندھا جا رہا تھا، ان کی حسیّت کو شعریت کے وجود میں اتارا جا رہا تھا اور انہیں مدحت نگاری کی سخن آرائی کے رنگ و نور کی اسلوبیاتی معنویت کے ارتقائی مراحل میں سے گذارا جا رہا تھا۔ وہ اگرچہ ’’سر صلیبِ بدن‘‘ کی شکل میں غزل لکھ رہے تھے اور احمد ندیم قاسمی اور عارف عبدالمتین جیسے فعال اور سرکردہ سخنوروں کے ساتھ رابطوں میں تھے تاہم جناب حفیظ تائبؒ کے ساتھ بھی ان کا گہرا رابطہ تھا۔ ان کے اندر ’’طلوع فجر‘‘ جنم لے چکی تھی اور صنف نعت کے’’ دبستانِ نو ‘‘ کا خمیر اٹھ رہا تھا۔ باہر کی تیرگی کا ایک ہوش پاش احساس ان کے حرف و صوت کے رگ و ریشے میں سرایت کر کے استغاثہ اور جواب استغاثہ کی شکل میں اپنے شعری وجود کی نمود پر اعتبارِ قلم کی دولت حاصل کر چکا تھا اور اس طرح اس تیرگی کو ’ تولج الیل فی النہار‘ کی تخلیقِ سحر کے عملِ فلکیاتِ سخن کے تحت اظہار کے نئے سورج کی تلاش میں نکل چکا تھا جب کہ یہ سورج ریاض کے روحانی اور سرّی وجود میں تخلیق پا چکا تھا اور کچھ ہی دیر میں مہر نیم روز کی شکل اختیار کرنے والا تھا۔

ستّر کی دہائی عملی زندگی کے نشیب و فراز میں گذر گئی اور اسّی کی دہائی میں آخر وہ نعت کی صنف ادب کی جمالیاتِ اظہار اور عصری حسیّت کے چراغاں کو اپنی نوک قلم پر سنوار کر وسائل اظہار کے انسلاکی معاملات کا تانا بانا ترتیب دینے لگے اور معنویت کے ایک جہانِ نور کی ساخت میں مصروف ہو گئے۔ یوں ان کی شعری لغت بلیغ استعاروں کی ایک منظم کہکشاں کی صورت اختیار کرتی گئی۔ ’’روشنی، اے منبعٔ انوارؐ! کالی رات ہے‘‘ اس جہانِ معنویت کا عنوان بن گئی۔ 1985ء تک یہ جہانِ اسلوب و معنویت روضۂ رسول ﷺ پر حاضری سے پہلے ایک حسّی وجود کی شکل اختیار کر چکا تھا جسے 1995ء میں ریاض نے ’’زر معتبر ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ یہ کتاب اس نمائندہ شعر سے شروع ہو رہی ہے:

نظام دیدہ و دل سے لہو کی روشنی لے کر
انہیںؐ نورِ ازل، نورِ ابد، نورِ خدا لکھنا

اسی کتاب میں اپنے محبوب منبعٔ انوار ﷺ کو سراجاً منیرا لکھ کر زماں تا زماں روشنی کا حوالہ بنا کر ہدیۂ مدحت پیش کر رہے ہیں:

کراں تا کراں آگہی کا اجالا، زماں تا زماں روشنی کا حوالہ
افق تا افق صبح روشن کا منظر، سراجاً منیرا، سراجاً منیرا

پھر اسی مجموعہ مدحت میں انوارِ توصیف میں تر بتر ایک خوبصورت نعت لکھتے ہیں:

مجھے روشنی کا صحیفہ ملا ہے ترے گھر کے نکھرے ہوئے آسماں سے
بجھی ساعتوں کو چراغِ تمنا کی کرنوں کا تو نے اثاثہ دیا ہے
جسے کوئی نسبت نہیں تیرے در سے اسے کیسے سورج میں تسلیم کر لوں
وہی معتبر ہے حوالہ سحر کا ترے پاؤں کو جس نے بوسہ دیا ہے

اسی معتبر’’ زرِ نور‘‘ میں ریاضؒ ایک دل آویز آزاد نظم’’نئے دن کا سورج‘‘ تخلیق کرتے ہیں:

محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ، محمد ﷺ
صبا اسؐ کا اسمِ مبارک نہ لے توشفق روشنی کے پروں کو نہ کھولے

مگر گھٹن، حبس اور جبر کے ماحول میں وہ اِسی دل و جان سے پیاری’’روشنی‘‘ کو مقید دیکھ کر پکار اٹھتے ہیں:

نہیں ملتا سراغ اب آفتابِ نور و نکہت کا
سحر پس منظروں میں کھو چکی ہے یارسول اللہ
کِسی جگنو کو بھی اُڑنے کا پروانہ نہیں ملتا
غبارِ شب میں لرزاں چاندنی ہَے یارسول اللہ ﷺ
کرن کے پَر بھی باندھے ہیں قفس میں باغبانوں نے
مقیّد ظلمتوں میں روشنی ہے یارسول اللہ ﷺ

’’زرِ معتبر‘‘ کے آخری کلام میں وہ بارگاہِ رسالت سے رخصت ہوتے ہوئے الوادعیہ کلمات یوں عرض کناں ہیں:

الوداع اے رحمتوں والے نبیؐ
الوداع اے روشنیؐ، اے روشنیؐ

اس طرح اپنے پہلے مجموعۂ نعت ’’زرِ معتبر‘‘ میں وہ فنی جمالیات کے ریشمی پیرہن میں روشنی کے لاہوتی وجود کی ذات و صفات، نظام ہستی میں اس کے وفورِ تجلیٰ کی طلعتِ سدرہ اور تیرگی کی تعدیم کے لئے سرنگوںاور نمناک ادبِ استغاثہ اپنے جذبۂ و احساس کی نغمگی میں کمال مہارت سے بُنتے چلے جاتے ہیں۔

پہلے مجموعۂ نعت سے تئیسویں آخری مجموعۂ نعت تک ریاض اسی لاہوتی ’’روشنی‘‘ کی مدحت میں ساٹھ ہزار سے زیادہ اشعار تخلیق کر جاتے ہیں۔ ان کے ہر مجموعۂ کلام میں روشنی کے حوالے سے مضامین کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ ماسبق تذکار سے یہ حقیقت تو ثابت ہو جاتی ہے کہ ریاض کی شعریت کا وجود ہی اسی روشنی کے مظاہر کا جامع ہے۔ وہ تو سرّی کیفیات میں یہ کہہ جاتے ہیں کہ روز الست ان کی چشمِ شعور وا ہوئی تو دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاتھ پر ایک نور رکھ دیا گیا ہے۔ یہ نور ان کا نعت نگار قلم تھا جسے وہ بوسہ دیتے ہیں اور پھر آقائے دو جہان ﷺ کے قدمَین پاک میں رکھ دیتے ہیں۔ میرے ایک اور مضمون میں قلم کے استعارے پر ایک سیر حاصل مطالعہ موجود ہے جسے راقم کی کتاب ’’ریاض کی نعت نگاری‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

الفاظ محترم ہیں کہ نعتِ نبیؐ کے ہیں
اوراق اور قلم مرے سب روشنی کے ہیں
اسمِ نبیؐ کی خُلدِ محبت میں گم ہوں مَیں
میرے قلم سے پھوٹتی رہتی ہَے روشنی
ورق پر آرزو کی روشنی بہتی رہے آقاؐ
قلم کی روشنی بھی زم زمِ عشقِ رواں میں ہے

نمونے کے طور پر کچھ مزید حوالے جمع کئے جا سکتے ہیں، ایسے کہ جن سے ان کی فنی جمالیات، تخلیقی حساسیت اور وسائل اظہار کے انسلاک کا اسلوب واضح ہوتا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ان کی ساری نعتیہ شاعری اسی اسلوب و معنویت اور فنی عمل تخلیق کی سحر کاری ہے۔

غزل کاسہ بکف میں 47 اشعار پر مشتمل سہ نعتیہ تخلیقی جمالیات کی فصلِ بہار ہے:

شہرِ حضورؐ کا ہے تصوّر بھی چاند رات
شہرِ حضورؐ کی ہے تمنا بھی روشنی
عرضِ دعا میں جس کے ہیں دیوار و در ابھی
طیبہ میں میرے گھر کا وہ نقشہ بھی روشنی
توصیفِ مصطفیؐ کی کتابِ سخن ہے نور
لوحِ ثنا کے لفظ کا نقطہ بھی روشنی
جو روشنی فصیل ہے شہرِ حضورؐ کی
اُس روشنی کو دیکھنے والا بھی روشنی
اتنی سی بات ہوتی نہیں منکشف، حضورؐ
ہے بے غرض عمل کا نتیجہ بھی روشنی
چومے ہیں اس نے نقشِ کف پائے مصطفیٰؐ
اس پھول سی زمین کا چہرہ بھی روشنی
مصروف ہے طوافِ مسلسل میں روشنی
یہ روضۂ نبیؐ ہے نگاہو! ادب ادب

حروفِ نعت سے روشنی کشید کرتے ہوئے ’’کائنات محو درود ہے‘‘ میں لکھتے ہیں:

یہ مدینے کے در و دیوار کا فیضان ہے
میرے دستِ بے ہنر میں روشنی ہے روشنی
سب حروفِ لب کشا کے لب معطر ہیں ریاضؔ
سب حروفِ معتبر میں روشنی ہے روشنی
خوش نصیبی کے ہیں جگنو ہمسفر میرے ریاضؔ
راستے کے ہر شجر میں روشنی ہے روشنی
حضورؐ، آپؐ کا مدحت نگار مَیں بھی ہوں
حروفِ نعت کو کرتا ہوں روشنی سے کشید

’’تاج مدینہ ‘‘ میں لکھتے ہیں:

روشنی کے لفظ کی تفہیم جب مشکل لگے
خاکِ شہرِ مصطفیٰؐ کا استعارہ ہے بہت

اسی کتاب کی ایک نعت میں لکھتے ہیں:

موسم طلوعِ فجر کا رہتا ہے آس پاس
کلک و بیان و نطقِ سخنور بھی روشنی
اُنؐ کی ہر ایک صبح کے دامن میں آفتاب
اُن کی ہر ایک شام کا منظر بھی روشنی
رہتا ہے جو ہوائے مدینہ کے دوش پر
اُس طائرِ خیال کا ہر پر بھی روشنی
دیوار و در بھی جس کے ہیں سرکارؐ منتظر
چھوٹا سا مجھ غریب کا وہ گھر بھی روشنی
نوکِ قلم پہ اسمِ گرامی کا ہے نزول
باہر بھی روشنی، مرے اندر بھی روشنی
ماہِ عرب کی نعت کے فیضان سے ریاضؔ
کب سے بنا ہوا ہے مقدّر بھی روشنی

’’طلوع فجر‘‘ میں جو نظم معریٰ کے پانچ سو بنود پر مشتمل میلاد نامہ ہے:

مَیں بھی ریاضؔ آپؐ کا ادنیٰ سا ہوں غلام
بادِ صبا کے ہاتھ پہ رکھتا ہوں روشنی
بادِ صبا درود کے گجرے بنائے گی
خوشبو چراغ شہرِ سخن میں جلائے گی

جیسا کہ شروع میں ہی وضاحت کر دی گئی ہے غزل کے علاوہ روشنی کا نظمیہ بیانیہ ریاض کے کلام میں ہر کہیں ملتا ہے۔ تاہم 2003ء کے بعد سات سال کے عرصہ میں تخلیق کی گئی نعتیہ نظمیں انہوں نے الگ رکھ دیں اور کسی اشاعت میں شامل نہ کیا۔ راقم نے ان کی رحلت کے بعد ان کی خواہش کے ایفا میں جب ان کا غیر مطبوعہ کلام دیکھا تو یہ نظمیں ملیں جنہیں مرتب کر کے زیر نظر کتاب ’’روشنی، یا نبی‘‘ ترتیب دی گئی ہے۔ پندرھویں نعتیہ مجموعے ’’کائنات محوِ درود ہے‘‘ میں لکھتے ہیں:

مجھے روشنی کی تلاش تھی مَیں درِ نبیؐ پہ چلا گیا
ہوا یوں کہ پھر شبِ حشر تک مری خاک سے نہ اٹھا گیا

اور زیر نظر کتاب میں استغاثہ ملاحظہ فرمائیں:

دست بستہ کھڑا ہے یہ دربار میں، روشنی، یا نبیؐ، اس کے افکار میں
ہے ریاضِؔ حزیں آپؐ کا امتی، اپنے شاعر کے احوال پر بھی نظر

یہ ہے ’’روشنی، یانبی‘‘ ریاض کی نعتیہ نظموں کا مجموعہ جو عشق مصطفیٰ ﷺ میں کھوئے ہوئے، امت کا غم سینے میں دبائے روشنی کی بھیک مانگتے ہوئے ریاضـؒ کا استغاثہ ہے۔ ان کے کلام کی معنویت کا تار و پود روشنی کے تاروں سے بُنا ہؤا ہے، ان کے اسلوب کا وجود روشنی سے مستعار ہے۔ ان کی نظم میں ہمیں روشنی ایک محیط، بلیغ اور وقیع استعارے کی صورت میں ضیاء بار ملتی ہے۔ یہ روشنی محض مضمون یا ان کی شعری لغت کا کرشماتی استعمال نہیں نہ ہی علامت کی کوئی بُنت ہے بلکہ روشنی ریاض کی نعت کا ظاہر و باطن ہے جس کی کائنات ازل سے ابد تک وسعت پذیر ہے اور جس سے نعتِ رسول کا دامن، توصیف و ستایش کے زر و جواہرات کا امین اور بارگاہ رسالت کے جود و سخا اور لطف و کرم سے ثروت مند ہے۔ یہ ان کا سامان نجات، حشر کا زاد راہ اور رب نعت کی رضا کا احسان عظیم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سرمایہ ماورائے ادراک ہے جس کی تفہیم کا مؤثر ذریعہ استغاثہ ہے جو وہ نبیٔ محتشم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں ازل سے پیش کر رہے ہیں۔

مگر استغاثہ محض ایک رنگ ہے، جب کہ اس دھنک میں عشقِ مصطفیٰؐ، ادبِ مصطفیٰؐ، تعظیمِ مصطفیٰ، اطاعتِ مصطفیٰؐ، دفاعِ شانِ مصطفیٰؐ، نصرتِ دینِ مصطفیٰؐ اور کئی اور ان گنت رنگ جھلک رہے ہیں۔ ایک رنگ ان میں مراقبۂ شوق میں ملائکہ خصوصاً اعمال نامہ لکھنے والے فرشتوں سے اپنے اعمال نامے کے استفسار کا انوکھا رنگ بھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: وَ اِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَoکِرَامًا کَاتِبِیْنَoیَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَo حالانکہ تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیںo (جو) بہت معزز ہیں (تمہارے اعمال نامے) لکھنے والے ہیںoوہ ان (تمام کاموں) کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہوo (سورۃ الانفطار: 10۔ 12) :

فرشتو! نامۂ اعمال میں یہ بھی تو لکھو گے
یہ چھوڑ آیا ہے دہلیزِ پیمبرؐ پر دلِ مضطر
مدینے کے مسافر کی قدم بوسی نہیں چھوڑی
فقط پہچان ہے اس کی ثنائے مرسلِ آخرؐ
فرشتو! نامۂ اعمال میں یہ بھی تو لکھو گے
صبا کے سبز آنچل پر گلابِ نور رکھتا ہے
ہُدائے آسمانی کے دیے کرتا ہے یہ روشن
دھنک اس کے قلم کو چوم لیتی ہے محبت سے
فرشتو! نامۂ اعمال میں یہ بھی تو لکھّو گے
اسے جی بھر کے سپنوں نے ستایا رتجگوں میں ہے
اسے بے چینیوں نے دھڑکنوں میں جا لیا ہر شب
مگر اِس کے لبوں پر درگذر کی چاندنی مہکی
فرشتو! نامۂ اعمال میں یہ بھی تو لکھّو گے
اسے مدحت نگاری کا ملا ہے منصبِ رحمت
ثنا خوانی کا پرچم اسکے ہاتھوں میں ازل سے ہے
حضوری کی منوّر ساعتوں میں لپٹا رہتا ہے

اس کلام کی معنویت اور اس کے اسلوب میں جھانک کر دیکھیں، ظاہر و باطن میں روشنی کے کون سے رنگ لفظوں کے prism سے ہویدا ہو رہے ہیں۔ ریاض کی روح کراماً کاتبین کے ساتھ اخلاص، حق و صداقت اور بارگاہِ نبی مکرم میں کیفیات حضوری کے کیا اندراجات کرا رہی ہے۔ یہ ہے ریاض کی روشنی جو اس کے لہو کی شریانوں میں موجزن ہے، اس کی دھڑکنوں میں مرتعش ہے اور جو اس کی روح میں نقوشِ پائے رسول ﷺ کی تجلیات کی خیرات اتار رہی ہے۔

یہ کتاب حب رسول ﷺ کے بیمثال قمقموں فانوسوں اور مشکوٰۃ و مصابیح سے جگ مگ کرتا ایک عالمِ نور ہے جس میں ہر سُو درود و سلام کا چراغاں شعور و لاشعور کی وسعتوں میں ادب و عقیدت کے چاند اتار رہا ہے۔ درود و سلام کے پانچ کلام پیش کرتے روح میں تراوٹ کا ایک منور احساس جاگ اٹھتا ہے۔ ’’السلام، اے سیدِ سادات السلام‘‘ 16 اشعار پر مشتمل ہے، ’’ سلام میرے قلم کی دعاؤں کا آقا‘‘ کوئی سو سے زیادہ اشعار ہیں جن میں ...سلام ارضِ محبت کے ذرّے ذرّے کا ... شاعر نے زندگی کی کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کی طرف سے آقا علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں سلام پیش نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد ’’پڑھو درود و سلام اس پر، میرے پاکستان کے شام و سحر کا بھی سلام اور اے مکینِ گنبد خضرا سلام‘‘... روشنی کا ایک بحر مواج ہے جو بہتا چلا جا رہا ہے جس کے پار رضائے حق، جود و سخائے حبیب، اور طمانیت و تسکین کی جنتیں لہراتی نظر ٓتی ہیں اور جو سب ’’روشنی، یا نبی‘‘ کے نظارہ ہائے نور ہیں۔

شیخ عبدالعزیز دباغ