سلے ہیں لب، ہے فغاں خیز خامشی لیکن- کلیات نعت

سلے ہیں لب، ہے فغاں خیز خامشی لیکن
ہے ماحصل تو فقط میری بے بسی لیکن

طمانیت بھی ہے، رہتی ہے بے کلی لیکن
مرے جلو میں ندامت کی ہے گھڑی لیکن

سند نجات کی خلعت ہے پارسائی کی
نشانِ فقر ہے تکریمِ آدمی لیکن

وہ ظالموں کی بھی توبہ قبول کرتا ہے
ہے ایک شرط مدینے کی حاضری لیکن

شبِ فراق ہے، ظلمت ہے، ایک دوری ہے
مجھے نصیب ہے نسبت کی پھلجھڑی لیکن

درِ حبیبؐ پہ رہتا ہوں التجا بن کر
بدن کی قید ہے، بے بس ہے زندگی لیکن

لقائے حسن یمِ بیخودی ہے، لازم ہے
جنوں میں ظاہر و باطن کی آگہی لیکن

ہے روحِ ارض و سما لا الٰہ الا اللہ
رسولِ حقؐ سے محبت ہے بندگی لیکن

تمام خَلق ہی محوِ ثنائے خواجہ ہے
ہو جس پہ چشمِِ کرم اُن کی، ہے ولی لیکن

ہے کب سے بر سرِ پیکار عالمِ طاغوت
ہے روحِ ارض و سما عظمت نبی لیکن

ہوائے درد کا طوفاں، چراغِ قلبِ حزیں
سکینتِ نگہِ لطفِ سرمدی لیکن

جنابِ شیخ نے بھیجا تو ہے قضا کا پیام
مری نماز ہے آقاؐ کی چاکری لیکن

اک اور عمر بھی سہہ لوں اذیّتِ دنیا
فقط حضورؐ کی خاطر ہو زندگی لیکن
میں ناتواں ہوں، ہوئے مضمحل قویٰ میرے
ہے میری روح مدینے کو چل پڑی لیکن

میں جانتا ہوں، ہے درپے مرے، عدّوِ مبیں
حصار ہے درِ رحمتؐ کی حاضری لیکن

حضورِ حق وہ حسابِ عمل، جزا و سزا
شفاعت اور محمدؐ کے اُمّتی لیکن

ہوں سوئے حشر رواں اور نہیں ہے زادِ سفر
غمِ رضائے نبیؐ، قلبِ ملتجی لیکن

ہے اُنؐ کا جود و کرم ہی بنائے عزّ و شرف
ہیں چشمِ تر سے رواں اشکِ کمتری لیکن

ورودِ حبس و تمازت ہے، حِدّتِ غم ہے
رسولِؐ توبہ کی ہے سایہ گستری لیکن

صفائے قلب و نظر، نورِ مصطفیٰؐ کی کرن
رگوں میں ظلمتِ دوراں اتر گئی لیکن
ہے کربِِ تیرہ شبی نگہِ صبح جوُ کو محیط
مرے بدن میں ہے گردش میں روشنی لیکن

کئے ہوئے ہیں عطا مجھکو چشمہ ہائے سکوں
جوارِ گنبدِ خضرا کی تشنگی لیکن

نوائے شوق پہ اترا بھی حبس کا موسم
دمک اٹھا زرِ خوشبو کلی کلی لیکن

اکھاڑ دیتے رہِ حق سے وہ قدم میرے
عطا ہوئی مجھے زنجیرِ عاشقی لیکن

جلائے اہلِ جفا نے الاؤ نفرت کے
وفائے جنتِ بطحا مجھے ملی لیکن

میں جامِ حُبِّ نبی پی کے جاؤں دنیا سے
نپٹنا ہے مجھے فتنہ گری سے بھی لیکن

عزیزؔ شامِ غریباں ہے، نوحہ خاں ہے وطن
ہے کربلا میں تو جاری درندگی لیکن