لہو ہے قلبِ حزیں، آنکھ میں نمی ہے بہت- کلیات نعت

لہو ہے قلبِ حزیں، آنکھ میں نمی ہے بہت
حضورؐ نگہِ کرم، آج بے کلی ہے بہت

کریں غلام کو اسبابِ زیست پھر سے عطا
لگی جو آگ نشیمن میں کل، جلی ہے بہت

حضورؐ دولتِ ایمان چھن نہ جائے کہیں
حضورؐ بچوں کو گھیرے ہے، گمرہی ہے بہت

لگائے نعرۂ حق کوئی شعلۂ آواز
تنی ہے ظلم کی شب اور تیرگی ہے بہت

یہی حضورؐ کی سنت ہے آزما لیجے
فلاح کے لئے الفت کی چاشنی ہے بہت
عطائے جنتِ ماویٰ ہے انتہائے کرم
غلام کے لئے محبوبؐ کی گلی ہے بہت

خبر ملی ہے کہ ہم پھر مدینے جائیں گے
چمن میں پھول چراغاں ہے روشنی ہے بہت

حضور عازمِِ محشر کو اب بلا لیجے
غلام اس کے لئے آج ملتجی ہے بہت

یہ اب تو اُنؐ کا کرم ہے بٹھائیں گے جب تک
درِ حبیبؐ پہ تھوڑی سی زندگی ہے بہت

جب اس کو بندۂ نادم پہ رحم آ جائے
حضورِ حق میں وہ توبہ کی اک گھڑی ہے بہت

ہر ایک شخص مدینے میں ہنس کے ملتا ہے
وہاں کی آب و ہوا میں شگفتگی ہے بہت

کہ اس سے جلتے رہیں یادِ مصطفیٰؐ کے چراغ
مرے لئے مرے اشکوں کی یہ جھڑی ہے بہت
حضورؐ آپ نے بخشی ہے ہر خوشی مجھ کو
مرے لئے تو یہ احساسِ سرخوشی ہے بہت

ہوائے نعت سے چٹکیں درود کی کلیاں
تمہاری بزمِ ثناء آج پھر سجی ہے بہت

عزیزؔ راہِ عمل میں تکلفات نہیں
حصولِ بادۂ تسکیں کو سادگی ہے بہت

*

مرے دل کے پانیوں میں نہ کبھی حباب ٹوٹے
نہ سرورِ نغمہ بکھرے نہ مرا رباب ٹوٹے
جو غمِ حیات لکھوں درِ مصطفیٰؐ پہ جا کر
کبھی یوں نہ ہو خدایا مری جاں کا خواب ٹوٹے

*

ہے مری نعت محبت میں فنا کی خاطر
ہیں جو محبوبِ خداؐ اُنؐ کی رضا کی خاطر
یاد کرتا ہوں درِ جود و سخا کے لمحے
آنکھ میں شکر و ندامت کی جلا کی خاطر

*

توحید اتباعِ نبوت ہے دوستو
ایماں کی اصل اُنؐ کی محبت ہے دوستو
ملتا نہیں خدا بھی عبادات میں کہیں
اصل الاصول ربطِ رسالت ہے دوستو

*

جگمگ کرے جو روح میں اللہ کا گھر، نہیں
روئے جو پنجتن کے لئے چشمِ تر، نہیں
دل میں کسک نہیں کوئی صبر حسینؑ کی
شکوہ یہ ہے زباں پہ، دعا میں اثر نہیں

*

روح و بدن میں پھیلتی جائیں تجلیاں
لد جائیں خوشبوؤں سے ہواؤں کے کارواں
ہر سو دھنک بکھیرتا ہے قدسیوں کا وجد
اللہ اور رسولؐ جو ہوتے ہیں مہرباں

*

ہر لب پہ ہے ستایش عظمت حضورؐ کی
اللہ کا کلام ہے سیرت حضورؐ کی
ہوتی رہے گی قبر میں مشقِ سخن عزیزؔ
محشر میں ہو گی محفلِ مدحت حضورؐ کی