ترے پاس جب ہو جانا، ترے پاک در سے جاؤں- کلیات نعت

ترے پاس جب ہو جانا، ترے پاک در سے جاؤں
وہ تجلیاں عطا کر، خرد و نظر سے جاؤں

تجھے یاد کرتے کرتے شام و سحر سے جاؤں
تجھے دیکھنے کو راہِ شمس و قمر سے جاؤں

ابھی کتنا جی سکوں گا، کہ ہے زندگی گنوا دی
مجھے بھیک دے خدایا کہ مَیں تیرے گھر سے جاؤں

مرے سر پر یوں تنی ہو تری رحمتوں کی چادر
تو جدھر سے چاہتا ہے اسی رھگذر سے جاؤں
قدَمینِ پاک اب میں ملے مجھ کو کچھ ٹھکانا
رہِ آخرت پہ یا رب مین نبیؐؐ کے در سے جاؤں

رہوں بیٹھا اُنؐ کی چوکھٹ پہ میں سر جھکا کے اپنا
اٹھوں تو میں سوئے محشر اُنہیؐ کے نگر سے جاؤں

رہوں کھویا مَیں وہاں پر دمِ آخریں سے پہلے
مجھے جانا تو ہے اک دن ابھی سے خبر سے جاؤں

کہاں تک چبھے گے دل میں رہِ معصیت کے کانٹے
مری بخش دیں خطائیں تو مَیں اس سفر سے جاؤں

ہے اسی سے آبیاری مری فصلِ آرزو کی
ہو نہ ایسی خشک سالی کہ مَیں چشمِ تر سے جاؤں

ترے در سے ہی ملے گا مجھے نامۂ شفاعت
مَیں درود پڑھتے پڑھتے ترے پاس اُدھر سے جاؤں

مرا آخری تصوُّر، مرا آخری نظارہ
یہی بام و در ہوں آقاؐ، انہی بام و در سے جاؤں
یہ وجود جس کو مَیں نے تری راہ میں دُھنا ہے
اسی مضمحل کو لے کر رہِ معتبر سے جاؤں

مری آبرو اِنہی سے، میں ہوں سرخرو اِنہی سے
اِنہی آنسوؤں میں بہہ کر میں جہاں کے شر سے جاؤں

*

میں زخم کھاؤں، اذیّت کو اختیار کروں
فراق و ہجر کی منزل کا انتظار کروں
رہِ رسولؐ پہ جاری رہے سفر میرا
میں اُنؐ پہ جیسے بھی ہو اپنی جاں نثار کروں

*