اک رتجگا سا دل کے مضافات میں رہے- ریاض حمد و نعت

پیکر قلم کا نور کی برسات میں رہے
ہر لفظ میرا عشق کی میقات میں رہے

ہر لمحہ زندگی کا عبادت میں ہو بسر
میرا وجود قریۂ سادات میں رہے

میرے بدن کی خاکِ پریشاں ابد تلک
اُس شہرِ بے مثال کے ذرّات میں رہے

قرآں کے آئنے میں اُنہیںؐ دیکھتا رہوں
چہرہ نبیؐ کا مصحفِ آیات میں رہے

کل عاصیوں کا لشکرِ جرّار حشر میں
میرے نبیؐ کی چشمِ عنایات میں رہے

کب تک، مرے خدا! سرِ بازارِ روز و شب
امت نبیؐ کی گردشِ حالات میں رہے

آسودگی کا حقِ تصرّف بھی کر عطا
کب تک ہجوم قریۂ آفات میں رہے

سانسوں میں تتلیاں ہوں درودوں کی پرفشاں
اک رتجگا سا دل کے مضافات میں رہے

کلیاں درود پڑھتی رہیں آنحضورؐ پر
موسم بہار کا مرے باغات میں رہے

مَحْشر کے روز محفلِ میلاد ہو بپا
شاعر وہاں بھی جھومتے لمحات میں رہے

سوز و گدازِ ہجرِ نبیؐ میں پسِ ورق
اک اضطراب سا مرے جذبات میں رہے

ہر لحظہ جھومتا رہوں بادِ صبا کے ساتھ
شہرِ حضورؐ میرے خیالات میں رہے

اتنی سی التجا ہے کہ مَحْشر کے بعد بھی
میرا یہ عجز میرے مفادات میں رہے

دامن بچھا رہے ترے در پر، مرے خدا!
یہ ربطِ خاص کاسۂ حاجات میں رہے

اُنؐ پر درود پڑھتا رہے عمر بھر ریاضؔ
بندہ ترا ہے تیری مناجات میں رہے

قطعہ

شعورِ بندگی اس کو عطا کرنا مرے مالک
نویدِ کامرانی اس کے ہاتھوں پر رقم کرنا
اسے اترن ملے طیبہ کے بچوں کی سرِ محفل
مرے اﷲ، مرے بیٹے مُدَثِرْ پر کرم کرنا

*

شرف دینا قبولیت کا میری التجاؤں کو
خدائے آسماں! بابِ اثر مجھ پر کھُلا رکھنا