چراغوں کی لوؤں کو تیز کر دینے کا موسم ہے- ریاض حمد و نعت

گناہوں کی اٹھا کر گٹھڑیاں
یا رب!
تری چوکھٹ پہ آیا ہوں
جھکا ہے سر ندامت سے … پشیماں ہوں
نگاہیں اٹھ نہیں پاتیں … مَیں مجرم ہوں
عمل کا دائرہ کوئی مکمل ہو نہیں پایا … نکمّا ہوں
ترے در پر پڑے آبِ خنک کے مَیں کٹوروں سے
خنک پانی کا اک قطرہ بھی پینے کے نہیں قابل
خدائے مصطفیٰؐ!
دامانِ تر کی لاج رکھ لینا
مرے ہر اک گنہ سے درگذر کر کے
مرے ہاتھوں میں بخشش کا بھی پروانہ تھما دینا
کرم کی روشنی دامانِ حرفِ آرزو میں، یا خدا! دے کر مجھے آسودہ کر دینا
ترے گھر کی تجلی میں مری آنکھیں نہیں کھُلتیں
مری سوچیں ابھی تک تنگ گلیوں میں مقیّد ہیں
مَیں اکثر چونک پڑتا تھا
مَیں اکثر چونک پڑتا ہوں
ابھی تک چونک پڑنے کی مَیں کیفیت کا قیدی ہوں
مرے سجدوں کی بے تابی ترے در پر ہے لے آئی
جہاں انوار کی بارش مسلسل ہوتی رہتی ہے
جہاں خود میزباں، میرا خدا ہے اپنے بندوں کا
جہاں نقشِ قدم روشن ہیں سلطانِؐ مدینہ کے
جہاں دامانِ تر کی لاج رکھتا ہے خدا سب کا
جہاں جھولی میں کھلتے ہیں مرادوں کے کئی گلشن
جہاں کردار کی تعمیر کی بنیاد پڑتی ہے
جہاں اُس کی ربوبیت نظر آتی ہے زائر کو
جہاں اُس کی الوہیت کے سورج ہی چمکتے ہیں
جہاں وحدانیت کے ہر افق پر چاند نکلے ہیں
جلالِ پادشاہی اس قدر کہ پاؤں رک جائیں
کرم اتنا کہ بڑھ کر تھام لے ہر ایک مجرم کو
طوافِ کعبۂ اقدس میں کیا مصروف ہوں مَیں بھی؟
مجھے بھی کیا خدا سے ہمکلامی کی ملی عزت؟
مری سب التجائیں عاجزی کا تاج پہنیں گی؟
دعائیں میرے ہونٹوں پر ادب سے مسکرائیں گی؟
خدا کے گھر کا دروازہ کھُلا ہے مجھ سے عاصی پر؟
کھڑا ہوں سامنے میں سنگِ اسود کے … یہ کیا سچ ہے؟
مطافِ کعبہ میں آنسو گرے ہیں میری آنکھوں سے؟
(مرے ان آنسوؤں میں سب دعائیں میری لپٹی ہیں)
ملی ہے ملتزم پر ہاتھ رکھنے کی مجھے مہلت؟
مجھے رکنِ یمانی پر
دعائیں طشت میں رکھ کر
طوافِ کعبہ میں مصروف رہنا ہے؟
مَیں نقشِ پائے ابراہیم سے کچھ دور رو رو کر
نوافل بھی ادا کر لوں
صبا مجھ کو، مری انگلی پکڑ کر لے کے آئی ہے
جلالِ پادشاہی میں مری ہستی بھی کھو جائے
ریاضؔ اب ہوش میں آؤ
مقدر کے ستاروں کی بلائیں لو
ہوائیں شہرِ اقدس کی دعائیں تم کو دیتی ہیں
کھڑا کر دو مجھے اُس راستے پر جو درِ اقدس پہ جاتا ہے
حضوری کا مجھے پیغام پہنچا ہے مدینے سے
چراغوں کی لووں کو تیز کر دینے کا موسم ہے

قطعہ

مَیں اک زخمی پرندہ ہوں، مجھے اڑنے کی طاقت دے
چمن میں آشیاں کے چند تنکے بھی نہیں ملتے
کوئی تتلی نہیں اڑتی، کوئی جگنو نہیں اڑتا
گلابِ سرخ اب شاخِ برہنہ پر نہیں کِھلتے