قلب و نظر کا نورِ بصیرت یہی تو ہے- ریاض حمد و نعت

قلب و نظر کا نورِ بصیرت یہی تو ہے
کہتا ہوں نعت، میری جبلت یہی تو ہے

کرتا رہا غزل سے جو مَیں نعت تک سفر
ملکِ سخن میں سوچ کی ہجرت یہی تو ہے

میرے قلم کے لب پہ ہیں حرفِ ادب کھلے
شہرِ ثنا کا صاحبِ ثروت یہی تو ہے

رعنائیِ خیال کی پھوٹی ہے روشنی
افکارِ نو کی اصل میں ندرت یہی تو ہے

مجہول ساعتوں میں جلیں علم کے چراغ
آقا حضورؐ، آپؐ کی سنت یہی تو ہے

شب اوڑھ لے ردائے شفا اپنے جسم پر
زخموں کے اندمال کی صورت یہی تو ہے

لوگو1 خلش ضمیر کی زندہ رکھا کرو
شہرِ عمل میں راہِ شریعت یہی تو ہے

اک جرعۂ خلوص ہی کافی ہے ہمسفر
اک بے نوائے شہر کی قیمت یہی تو ہے

ہیں ہر قدم پہ ملکِ تکبر کے لشکری
میرے لئے بھی روزِ قیامت یہی تو ہے

مجھ پر کرم کرم ہو، مسلسل کرم ریاضؔ
مجھ سے گناہ گار کو حیرت یہی تو ہے

*