وراثت میں ملی ہم کو شبِ رنج و الم، آقاؐ- ریاض حمد و نعت

وراثت میں ملی ہم کو شبِ رنج و الم، آقاؐ
مسلسل سامنے رکھا گیا ملکِ عدم، آقاؐ

ہمارے ہاتھ باندھے جا چکے ہیں قتل گاہوں میں
رہائی مل گئی بھی تو کدھر جائیں گے ہم، آقاؐ

محاذِ زندگانی پر ہے پسپائی سی پسپائی
نگوں ہیں کتنی صدیوں سے ہمارے سب علم، آقاؐ

خراشیں اَن گنت جرمِ ضعیفی کی ابھر آئیں
عطا کیجئے، جبینِ وقت کو نقشِ قدم، آقاؐ

ہمیں سچ بولنا ہو گا عدالت کے کٹہرے میں
تعاقب میں ہمارے ہیں ابھی نسلوں کے غم، آقاؐ

چمن میں سب پرندے آج پابندِ سلاسل ہیں،
ہزاروں تتلیوں کی اس لئے آنکھیں ہیں نم، آقاؐ

امیرِ قافلہ کو حکم ہو میرے بھی بارے میں،
مجھے بھی ساتھ لے جائیں رفیقانِ حرم، آقاؐ

مری سانسیں بھی لائی ہیں درودِ پاک کے گجرے
سلامِ شوق کہتے ہیں مرے لوح و قلم، آقاؐ

کفن بے غیرتی کا خود کیا ہے منتخب ہم نے
لہو کے آنسوؤں سے داستاں ہو گی رقم آقاؐ

چرا کے لے گئے ہیں خارجی ذہنوں کی زرخیزی
حصارِ خوف میں الجھا رہا سینے میں دم آقاؐ

حضورؐ، اب کے برس مل جائے اذنِ حاضری مجھ کو
غریبِ شہرِ زر کا اب کے بھی رکھئے بھرم آقاؐ

مری اوقات سے بڑھ کر ملی مجھ کو پذیرائی
ریاضِؔ بے نوا کے حال پر اتنا کرم آقاؐ

*