سردارِ کائنات کا پیکر بھی روشنی- ریاض حمد و نعت

سردارِ کائنات کا پیکر بھی روشنی
نقشِ قدم کے ہیں مہ و اختر بھی روشنی

ہر اک کتابِ نور کا ہیں سرورق حضورؐ
اس سرورق کا ذکرِ مکرر بھی روشنی

کیوں ہو ہجومِ نجمِ سحر بھی نہ ہم رکاب
میرا خدا، خدا کا پیمبرؐ بھی روشنی

موسم طلوعِ فجر کا رہتا ہے آس پاس
کلک و بیان و نطقِ سخنور بھی روشنی

اُنؐ کی ہر ایک صبح کے دامن میں آفتاب
اُن کی ہر ایک شام کا منظر بھی روشنی

رہتا ہے جو ہوائے مدینہ کے دوش پر
اُس طائرِ خیال کا ہر پر بھی روشنی
دیوار و در بھی جس کے ہیں سرکارؐ منتظر
چھوٹا سا مجھ غریب کا وہ گھر بھی روشنی

سکّے گریں گے عفو و کرم کے کئی ہزار
کشکولِ آرزوئے گداگر بھی روشنی

نوکِ قلم پہ اسمِ گرامی کا ہے نزول
باہر بھی روشنی، مرے اندر بھی روشنی

سایہ بھی انحطاط کی شب کا رہے گا دور
محوِ ثنا ہے آپؐ کے در پر بھی روشنی

یہ معجزہ ہے آپؐ کی نعلینِ پاک کا
تا حشر دیں گے راہ کے پتھر بھی روشنی

سرکار کی گلی کا ہے ہر ذرّہ آفتاب
اس کے طفیل دستِ سخنور بھی روشنی

نقش و نگارِ صبحِ ازل ہیں قدم قدم
سرکارؐ کا ہے شہرِ مصوّر بھی روشنی
ماہِ عرب کی نعت کے فیضان سے ریاضؔ
کب سے بنا ہوا ہے مقدّر بھی روشنی

فردیات

اے صبا! آہستہ چل، آہستہ چل، آہستہ چل
شاخِ نازک سے بھی نازک ہے مدینے کی گلی

*

جہاں کا ذرّہ بھی صد آفتاب رکھتا ہے
وہاں چراغ جلانے کی کیا ضرورت ہے

*

ہر دن ہزار عید سے بڑھ کر ہے خوبرو
ہر رات چاند رات ہے شہرِ حضورؐ کی

*