اندھیرا شرک کا تھا آپؐ کے انوار سے پہلے- ریاض حمد و نعت

اندھیرا شرک کا تھا آپؐ کے انوار سے پہلے
نبی جیؐ، آپؐ ہی تھے، وقت کی رفتار سے پہلے

مرے افکارِ نو ٹھہریں جوارِ کلکِ مدحت میں
اجازت فکرِ نو کی لو درِ سرکارؐ سے پہلے

مناؤ جشن، اپنی خوش نصیبی پر، مری آنکھو!
برس لو جس قدر چاہو، شبِ دیدار سے پہلے

مرے ہر لفظ میں تصویر ہے شہرِ پیمبرؐ کی
دکھا دوں گا مدینہ، آئینہ بردار سے پہلے

اٹھا کر ہاتھ دونوں مَیں سلامی دوں گا روضے کو
ملوں گا میں گلے، بڑھ کر، درو دیوار سے پہلے

مدینے میں کھجوریں بانٹتے بچو! ادھر آؤ
تمہارے ہاتھ پر بوسہ مَیں دوں افطار سے پہلے

مقدّر سے صبا پیغام لاتی ہے حضوری کا
بہت کچھ سوچ لینا، ہمسفر، انکار سے پہلے

ضمانت امنِ عالم کی فقط سرکارؐ نے دی ہے
کہاں تھیں فاختائیں، آپؐ کے کردار سے پہلے

مہذب ساعتیں کس نے عطا کیں ابنِ آدم کو
کہاں تھی چاندنی سرکارؐ کے انوار سے پہلے

نبیؐ کے جاں نثاروں کے برابر بھی نہیں کوئی
شفق اتری افق پر صبح کے آثار سے پہلے

تہجد پڑھ کے اوراقِ ثنا پر پھول رکھتا ہوں
وضو اشکوں سے کرتا ہے قلم اظہار سے پہلے

ریاضؔ اُس نے تجھے مدحت نگاری کا ہنر بخشا
چھپی ہے نعت لب پر آج بھی اخبار سے پہلے

*