در پر کھڑا ہے ایک بھکاری، کرم حضورؐ- ریاض حمد و نعت

در پر کھڑا ہے ایک بھکاری، کرم حضورؐ
رو رو کے جس نے شب ہے گذاری، کرم حضورؐ

منگتوں کے اِس ہجوم میں اِس کو یقین ہے
آئے گی آج اِس کی بھی باری، کرم حضورؐ

خوشبو، دھنک، چراغ، شفق، کہکشاں ہی کیا
رُت ہو شریک ساری کی ساری، کرم حضورؐ

طیبہ کے شہرِ امن کو چھوڑوں مَیں کس طرح
اک خوف انخلا کا ہے طاری، کرم حضورؐ

خوفِ خدا ضمیر کے اندر بنے چراغ
خلقت ہوئی ہے زر کی پجاری، کرم حضورؐ

خوشبو برس رہی ہے سرِ شاخِ آرزو
شبنم فشاں ہے بادِ بہاری، کرم حضورؐ

ہم آج بھی ہیں آپؐ کے مقروض، یا نبیؐ
اوقات کیا بھلا ہے ہماری، کرم حضورؐ

آسودگی کے پھول ملیں گے مجھے ضرور
امید کی کرن نہیں ہاری، کرم حضورؐ

ہر لفظ اشکبار ہے میری بیاض کا
کرتے ہیں لفظ گریہ و زاری، کرم حضورؐ

محرومیوں کی راکھ میں لپٹا ہوا بدن
اُمّت شبِ الم کی ہے ماری، کرم حضورؐ

ہر لمحہ آسمان سے گرتی ہیں بجلیاں
ہر لمحہ روز و شب کا ہے بھاری، کرم حضورؐ

رکتی نہیں ہیں کرب کے ساون کی بارشیں
فریاد تشنہ لب پہ ہے جاری، کرم حضورؐ

خود ہم نے اپنے دیپ بجھائے گلی گلی
خود ہم نے شام گھر میں اتاری، کرم حضورؐ

اعمالِ خیر کی ہمیں توفیق دے خدا
اعمالِ خیر سے ہیں ہم عاری، کرم حضورؐ

اب کے برس بہار ہے آئی مگر یہ کیا
زخموں سے بھر گئی مری کیاری، کرم حضورؐ

کب سے ہماری گھات میں بیٹھے ہیں ہر طرف
تیر و کمان لے کے شکاری، کرم حضورؐ

سلطان و میر تاج اچھالیں بروزِ حَشْر
پہچاں ہو میری نعت نگاری، کرم حضورؐ

محشر کے دن ثنا کے صلے میں ریاضؔ پر
سایہ فگن ہو رحمتِ باری، کرم حضورؐ

فردیات

مری تنہائیوں میں پھول کھلتے ہیں مدینے کے
مَیں ان سے ہمکلامی کا شرف حاصل بھی کرتا ہوں
*
جب سے دیکھا ہے در و دیوار کو پڑھتے درود
میری چشمِ تر مسلسل رقص میں رہنے لگی
*
آبِ شفا ملے مجھے خاکِ شفا ملے
زخموں کی شال میں ہے لپیٹا گیا بدن
*
مدینے میں غلامی کی خریدیں چل کے زنجیریں
ازل سے تا ابد ہر شخص کے لجپال ہیں آقاؐ

*